امیرمحمد خان
گو کہ شہید ذولفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاءالحق کے دور میں دی گئی پھانسی کے حوالے دیر آئید درست آئید کے تحت عدالتوں نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ انکی پھانسی غلط تھی جسے کچھ لوگ عدالتی قتل کا نام بھی دیتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے تو آج فیصلہ کیا ہے جبکہ اس عدالت جس نے پھانسی کی سزا سنائی تھی اسکے سربراہ چیف جسٹس نسیم شاہ کئی سال اس بات کو تسلیم کرچکے تھے کہ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی غلط دی گئی بقول انکے ان پر دباﺅ تھا ( اس دباﺅ کا آج بھی رونا رویا جارہا ہے ، اگر نوکری ، مراعات، جان کی پرواہ نہ ہو، دل میںصرف اللہ کا خوف اور ایمان ہو تو نام نہاد ”دباﺅ “ کی کوئی حیثیت نہیںہوتی ) میری اس تحریر میں ا س بات کو دیکھنا یا لکھنا نہیں کہ ، بھٹو کا تختہ کیوں الٹا گیا ؟کیوں مکمل شواہد ہونے کے باوجود انہیں پھانسی جیسی حتمی سزا دی گئی ، ؟؟ جسطرح آج عدالتیں تمام تر ثبوت کے بعد بھی مجرم کو رہا کردیتی ہیں ”انسانی حقوق “کا سہارہ لیکر بھٹو کوپھانسی دیتے وقت وہ انسانی حقوق کیا ایجاد نہیں ہوئے تھے؟ میری اس تحریر میں بنیادی موضوع ہے 5 جولائی 1977ءکیوںہوا ؟ 5 جولائی 1977ءکے بعد سے جب جب 5 جولائی آتا ہے پاکستان میں پی پی پی کی گردان شروع ہوجاتی ہے آمر ضیاءالحق کے بینرز آویزاںہوجاتے ہیں اس میں شہید ذولفقار علی بھٹو اور شہید ضیاءالحق کا ذکر ہوتا ہے پاکستان میں موجود بائیں بازو ذولفقار علی بھٹو کو شہید اورجنرل ضیاءالحق کو آمر کا لقب دیتا ہے جبکہ دائیں بازو جنرل ضیاءالحق کو بھی شہید کہتا ہے یہاں شائد پی پی پی سے رغبت کرنے والے اس بات پر اعتراض کریں کہ جنرل ضیاءالحق کو شہید کیوں لکھا انکے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ شہید کا مرتبہ دینا ہم انسانوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ مرتبہ اللہ سبحان تعلی کی جانب سے دیا جاتا ہے ، شہید ضیاءالحق کو ایک فوجی آمر کہاجاتا ہے چونکہ انہوںنے اسوقت کے منتخب وزیر اعظم کو برطرف کیا اور گرفتارکیا، حکومت ہٹائی ۔ 5 جولائی کے حوالے سے میری نظر سے دو تحریریں گزریں ایک انکے صاحبزادے اعجاز الحق کی اور دوسری نامور صحافی ایڈیٹر اداریہ نوائے وقت جناب سعید آسی کی تھیں ۔ اعجاز الحق کی تحریر میں ان نکات کا ذکر کیا گیا ہے جو 5جولائی کا سبب بنے ، بہ حیثیت شہید ضیا الحق کے صاحبزادے انکا فرض تھا اور ہے کہ وہ اپنے والد کے حوالے سے عوام کے ذہنوںکے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کریں۔ محترم سعید آسی کی غیر جانبدرآنہ تحریر قاری پڑھیں تو برادر اعجاز الحق کی تحریر میں دی گئی وجوہات اور محترم سعید کی تحریر میں دی گئی وجوہات میں مماثلت ہے ۔ برادر اعجاز الحق لکھتے ہیںملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے پانچ جولائی 1977پر اپنی رائے دوں، مگر خیال آیا کہ اسے تعصب کی نگاہ نہ سے دیکھا جائے، تاہم جہاں ملکی دفاع اور قومی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے اور پھرجب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے تو پھر بحث کیسی؟۔ 1985کی منتخب قومی اسمبلی نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے۔ پانچ جولائی 1977کا قدم کیوں اٹھایا گیا؟ جواب تلاش کرنے کیلئے سیاست کے طالب علموں کو آئین کے مطابق حکومت اور اس کے آئینی فرائض کا جائزہ لینا چاہئے جس سے ان تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔آئین کہتا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو بلا امتیاز روزگا دینا ریاستی فریضہ ہے لیکن بھٹو صاحب کے پورے دور میں زندہ رہنے، روزگار کے حصول اور مخالفین سے زندہ رہنے کا حق چھین لینے کا اختیار،حکومتی سرپرستی میں صرف پیپلزپارٹی کے کارکن کے پاس ہی تھا، روزگار کے
سارے در صرف انہی پر کھلے تھے، راشن ڈپو ان کے نام الاٹ تھے، ملکی سیاست کاعالم یہ تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہ تھے، انتظامی مشینری مارچ1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بعد عوامی احتجاج کی صورت میںمفلوج ہوچکی تھی، امن و امان کا شدید مسئلہ پیدا ہوچکا تھا۔ بھٹو صاحب نے 1975 میں ہی، ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا، ۔ انتخابات ہوئے اور بھٹو صاحب کی بلا مقابلہ کامیابی کے اعلان کےبعد ان کی کابینہ کے بیشتر وزراءبھی بلامقابلہ کامیاب قرار پائے، 155نشستوں پر پیپلز پارٹی کی کامیابی ہی اصل میں خطرے کی گھنٹی تھی، ملک میں رد عمل بہت شدید تھا اور پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن کمیشن توڑنے، فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں از سر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا اور دھمکی دی کہ اگر14مارچ تک مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ملک گیر تحریک چلائی جائیگی، بھٹو اور ضیاءالحق کے اچھے تعلقات کے باوجود جنرل ضیاءالحق اور انکے رفقاءاس نکتہ پر اتفاق کرچکے تھے کہ حکومت کو عوامی حمایت حاصل نہیں رہی،فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم کو بتادیا جائے کہ عوام میں ان کی حکومت کے بارے میں بہت غصہ اور ردعمل ہے، یہ بھی فیصلہ ہوا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی۔جنرل ضیاءالحق کا حکومت کیلئے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تھے اور حالات کی درستی چاہتے تھے۔ سعید آسی صاحب کی پر مغز تحریر میں سیاست دانوںکو 5جولائی یاد دلاتے ہوئے کہاہے کہ 47سال بعد بھی کیا سیاست دانوںنے اس پر غور کرتے ہوئے کچھ ایسا کیا کہ ملک میں پھر 1977ءکی تاریخ نہ دھرائی جائے ؟ کچھ نہ ہوا اور ملک میں 1977جیسا ہی 12اکتوبر 1999ءبھی آگیاچونکہ 1977 سے سیاست دانوں اقتدار کی ہوس میں اس سے سبق نہ لیا ۔سیاست دانوں نے اپنے مفادات کیلئے کبھی ان سانحات پر توجہ نہ دی ۔5جولائی اور 12اکتوبر والے آج بھی جبکہ وہ اقتدار کی ہوس میں شیر و شکر ہیںمگر اصلاح کے کوئی اثار نہیں۔ اسی دوران سیاست میں اب تو ایک مافو ق الفطرت سیاس دان اور انکی جماعت بھی آگئی ہے جو دن ہو رات جھوٹ ، گالم گلوچ سے سیاسی فضاءکو سخت نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہے ( یہ الفاظ میرے ہیں سعید آسی صاحب کے کالم میں نہیں ) اب 47 سال قبل والے پانچ جولائی سے کچھ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ گئی ہے۔ اور آپ تو خود ایک دوسرے کے اتحادی بن کر بھی پانچ جولائی کی کسی مشترکہ تقریب کی اب بھی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تو آپ پانچ جولائی اور 12 اکتوبر کا اعادہ نہ ہونے دینے کا عزم کیونکر باندھ پائیں گے جدہ فیم میثاق جمہوریت میں داخل دفترہے وقت ضرورت نکال لیا جاتا ہے ۔ ،محترم سعید آسی کی تحریر میں سیاست دانوںکیلئے بہت سی تجاویز ہیں مگر اگر سیاست دانوںکے ہاں اپنی ناک سے آگے دیکھنے کا کوئی روآج نہیں ۔ انکی یہ منافقت ملک کے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ پی آئی اے ہو اسٹیل مل ان دونوںکو ’جمہوریت “ نے ہی تباہ کیا ۔ وجوہات چاہے 5جولائی والی ہوںیا 12اکتوبر والی دونوں ہی میں مماثلت والی ہے اور یہ وجوہات آج بھی موجود ہیں اب مسئلہ رہ گیا ہے ذولفقار علی بھٹو کو کسی دباﺅ کے تحت پھانسی دینے کے مکروہ فیصلے کا ، جسے 47 سال بعد ہمارے قانون دانوںنے غیر قانونی قرار دیا ہے ۔ایک فلم میں میںنے ایسا تاخیری فیصلہ دیکھا تھا جس میں مقدمہ کے فیصلہ قتل ہونے والے کی قبر میں دفن کردیا تھا ۔