آبادی کا عفریت 

ڈاکٹر منور صابر
دنیا میں سارا سال جو عالمی دن مناے جاتے ہیں ،ان میں آبادی کے عالمی دن کو سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو عالمی موسمیاتی تبدیلیاں،بلکہ تباہیاں شدید گرمی کی لہرکی شکل میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لی? ہوئے ہے وہ سب دنیا کی آٹھ ارب سے زائد آبادی ہے،جس میں سالانہ تقریبا آٹھ کڑوڑ کا اضافہ ہوتا ہے۔ابموسمیاتی تبدیلیوں وتباہیوں کا تعلق آبادی سے جوڑا جائے تو ہت آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی ہے۔جتنے زیادہ لوگ ہوںگے اتنی زیادہ آکسیج کی ضرورت ہو گی اور اسی کے ساتھ اتی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی ماحول مخالف گیس ھی پیدا ہو گی۔یہ س سے بنیادی پیمانہ ہے۔اسی بات کو آگے بڑھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بڑھتی آبادی کے لئے گھر ،سڑکیں اور دیگر تعمیرات کری پڑتی ہیں۔ایسا کرتے ہوئے زرخیز اور کاشت ہونے والی زمین جہا ں سبزہ اورہریالی ہوتی ہے اس کی کٹائی کری پڑتی ہے۔اس بات کو مزید آسانی سے سمجھنے کے لئے آپ پاکستان میں ہاﺅسنگ سوسائیٹیز کے اشتہارات سے اندازہ لگا لیں،جو دیگر اشتہارات میں سب سےنمایاں نظر آتے ہیں۔یاد رہے پاکستان سالانہ کل آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک چکا ہے۔اس سلسلے میں پہلا ملک بھارت ہے،جبکہ چین دوسرے نمبر پر ہوا کرتا تھا ،لیکن تقریبا دو سال سے چین کی آبادی میں سالانہ اضافہ نہ ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے ا ب پاکستان ،سرکاری اعداو شمار کے مطابق ،سالانہ ساٹھ لکھ کے قریب اضافے کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک چکا ہے۔
دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ،پانی کی کمی ،سموگ کی آفت جو اب چار ماہ تک طول پکڑ جاتی ہے اور گرمی کی شدت کا ذکر ہو تو سب سے تشویش ناک صورت حال جنوبی ایشیائ کی ہے۔اس میں تین بڑے ممالک بھارت،پاکستان اوربنگلہ دیش دنیا کے آلودہ ترین ممالک ہیں۔یہ بات آپ کسی بھی موسیاتی سائٹ پر جا کر،کسی بھی وقت چیک کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عالمی نشریاتی ادارے اور یونیورسٹیا ں اس خطرناک صورت حال کے متعلق خبردار کرتے رہتے ہیں۔اس سلسلے کی س سے نمایاں وارنگ یہ بتاتی ہے کہ صرف آلودگی کی وجہ سے جوبی ایشیاءکے لوگوں کی اوس زندگی کم ہونا شروع ہو چکی ہے۔حالیہ دنوں میں دہلی شہر کے متعلق جو خبریں آئیں،ان میں دہلی کے ایک علاقے کے درجہ حرارت کاباون ڈگری کی حد کو عبور کرنا ،ائر کڈشنرز کے کمریسیز کو آگ لگنا اور سب سے اہم وہ ویڈیو تھی جس میں دہلی شہر کے لوگ پانی لانے والے ایک ٹینکرکے پیچھے بالٹیا اٹھائے دیوانہ وار بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ واضح رہے ٹینکروں کے ذریعے ان علاقوں کو پای فرہم کیا جاتا ہے ،جہاں زیر زمین پانی ختم ہو چکا ہویا اتنی گہرائی پر ہو کہ اسے نکالا نہ جا سکتا ہو۔اب یہ ساری صورت حال براہ راست آبادی کی گنجایت سے منسلک ہوتی ہے۔ایسے شہروں میں رہائشی و کمرشل عمارتیں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ ان کے درمیان خالی جگہ نہیں بچتی ،اب جہاں خالی یعنی کچی زمین نہ ہو وہاں بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا،اسی وجہ سے ایسے شہروں میں زیر زمین پانی کی سظح مسلسل گرتی رہتی ہے اور آخر میں پانی ختم ہو جاتا ہے۔اس کے سب سےبڑی مثال جنوی افریقہ کا شہر کیپ ٹاﺅن ہے جہا ں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔اب اس طرح کی صورت حال والے شہر کو جو نام دیا جاتا ہے وہ CITY AOBONDOED ہے 
اب اس خطے کے پڑوس چین میں چلتے ہیں جو گزشتہ سال تک دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا،جس سے یہ درجہ بھارت نے چھینا ہے۔اس ملک نے 1979 میں انسانی تاریخ کا ایک سخت ترین فیصلہ کچھ یوں لیا کہ ایک جوڑا ایک بچہ کا قانون لاگو کر دیا۔اب باوجود اس کے کہ چین ایک کمیونسٹ ملک تھا اور یہ قانون ہت سخت گیر تھا اس کے باوجود کسی بھی مغربی طاقت نے اس پر تنقید کی بجائے اس فیصلے کو سراہا۔اب شماریات یہ بتاتے ہیں کہ اگر چین یہ قانون لاگو نہ کرتا تو اس کی آبادی میں پچاس کڑوڑ کا مزید اضفہ ہو چکا ہوتا اور یہ دو ارب کی آبادی کی طرف بڑہ چکا ہوتا۔اب ات کریں بھارت کی تو اس کی آبادی ایک ارب پنتالیس کڑوڑ کے قریب ہے اور اس میں سالانہ اضافہ ایک کڑوڑ ستر لاکھ کے قریب ہے۔بھارت میں مردم شماری 2021 سال میں ہونا تھی لیکن تا حال اھلی مردم شماری کا اعلان تک نہیں کیا گیا ،جس سے ایک بات کا اشارہ ملتا ہے کہ بھارت آبادی کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتا یا اس پر قابو پانے میں سنجییدہ سوچ نہیں رکھتا۔کچھ یہی حالات پاکستان کے ہیں۔جو کل آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور آنے والے سالوں میں انڈونیشیا ءسے آگے بڑہ کر دنیا کا چوتھا بڑا ملک جائے گا۔آزادی کے وقت موجودہ پاکستان دنیا کا چودہواں بڑا ملک تھا۔اس وقت اس خطے کی آبادی سوا تین کڑوڑ کے قریب تھی ،لیکن اس وقت صرف صوبہ پنجاب کی آبادی بارہ کڑوڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ہم اگر صرف بارہ کڑوڑ کا عدد لیں تو یہ دنیا کو بارہویں بڑے ملک ایتھوپیا کی کل آبادی کے قریب ہے۔یہاں ایک ذکر بہت ضروی ہے کہ بنگلہ دیش وہ ملک ہے جس نے اپنی آبادی پر بھرپور طریقے سے کچھ اس طرح قباو پایا ہے کہ علیحدگی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی موجودہ پاکستان سے تقریبا پچاس لاکھ زیادہ تھی لیکن اب اس کی کل آبادی سترہ کڑوڑ کے قریب ہے جو پاکستان سے آٹھ کڑوڑ کم ہے۔

وہاہے جس وجہ سے ترقی پزیر یا پسمادہ ممالک کے لوگوں کو وہاں ہجرت یا مستقل رہائش کی سہولت میسر آتی ہے۔ بعض مغربی ممالک کے علاوہ جنوی کوریا وہ ملک ہے جواپنی کم ہوتی آبادی کو بڑھانے کے لئے ترغیبات دے رہے ہیں۔لیکن وہ ایسی آبادی پر یقین کرتے ہیں جو استعداد رکھتی ہو ،نہ کہ صرف تعداد میں اضافہ کرے۔اب یہ تعداد اور استعدا د کا فرق جنوبی ایشیائ کے خطے کو سمجھے کی ضرورت ہے۔پاکستان ہو یا کہ بھارت ہر بچے کو بنیادی تعلیم تک رسائی ممکن نہیں۔صرف پاکستان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اڑھائی کڑوڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔بھارت کے نوبل انعام یافتہ لکھاری اور محقق امرتیا سین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ چالیس فی صد سے زائد پیدا ہوے والے بچوں کا وزن معیار سے کم ہوتا ہے ،اسی طرح چالیس فی صد سے زائد لوگوں کو ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں۔اب اس طرح کے حالات جس بھی ملک کے ہوں،وہاں آبادی میں مزید بڑا اضافہ مسائل کو اس حد تک بڑھا سکتے ہیں،کہ اس علاقے کی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔باقی امور کا تو پتہ نہیں اس علاقے کی آب و ہوا ،ہوا کی آلودگی ،پانی کی کمی اور موسمیاتی تباہیوں نے لوگوں کی زندگی کی سالمیت کو خطروں سے ضرو دو چار کر دیا ہے۔اس سے بھی خطرناک امر یہ ہے کہ ا ن مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کا بھی کو نام و نشاں نظر نہیں آرہا۔یاد رہے ماضی کی تہذیبو ں کا نام ونشاں آلودگی اور تعفن کی وجہ سے ہیمٹا تھا 

ای پیپر دی نیشن