محمد نوید اسلام
اُردو زبان کی کہانی اسلامی ثقافت کے ایک بے حد درخشاں باب کی ترجمانی ہے۔ اسلامی فتوحات اور مفتوحہ ممالک پر‘ نیز اسلامی اثرات کی عالمگیری پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ مذہب اور تمدن کی مانند مسلمانوں نے مفتوحہ ممالک پراپنی زبان کو مسلط کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں کے مذہب، تمدن اورزبان نے مفتوحہ علاقوں پر جو دور رس، گہرے اور مستقل اثرات قائم کیے ان میں کسی قسم کے جبر و تشدد کو دخل نہ تھا۔
یہ زبان مختلف علاقوں اورمختلف ادوار میں مختلف ناموں سے منسوب ہوتی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اُردو ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب لشکر ہے اور اسے لشکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ چوں کہ مغلوں کی افواج میں کئی زبانیں بولنے والے سپاہی تھے ان کے اختلاط سے ایک نئی زبان وجود میں آگئی۔
زمانے کے اوراق تیزی سے پلٹ کر ہم ساڑھے تین صدیوں بعد یوسف خاں حاجب کی سیاسی جوڑ توڑ پر مبنی کتاب ”مقدس دانش“ (۲۷۰۱) میں لفظ اُردو کو دو مختلف معانی میں استعمال ہوتا دیکھتے ہیں۔
وہ ایک الگ ”اُردو“ کے رہنے والے تھے۔ (شہر)
موت نے بڑے بڑے ”اُردو“ اور ملک اُجاڑ دئیے۔ (شہر)
دنیا قید خانہ ہے اس کی محبت میں مت گرفتار ہونا بلکہ ایک بڑے، اُردو اور ملک کی جستجو کرنا تاکہ چین سے رہ سکو۔ (محل شہر‘ دارالحکومت)
شاید بہت سے لوگوں کے لئے ”مقدس دانش“ میں اُردو کا لفظ شہر کے معنی میں استعمال نیا ہو لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی میں اُردو کے نام سے ایک صوبہ ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس صوبے کے دارالحکومت کا نام بھی اُوردو ہے اسی طرح پاکستان کی سرحد کے قریب واقع چینی شہر کاشغر کا منگول نام ”اُردو قند“ ہے۔
منگولوں نے لفظ اُردو ترکی زبان سے مستعار لے لیا اور اسے محل کے معنوں میں برتنے لگے۔ جدید منگولیائی لغات اب بھی اس لفظ کے معنی محل ہی بتاتی ہیں چوں کہ منگول خانہ بدوش تھے اور اپنی زندگیوں کا بیش تر حصہ خیموں میں گذارا کرتے تھے۔ لفظ اُردو خیمہ یا کیمپ کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔
ہندوستان میں لفظ اُردو کے استعمال کی چند قبل از مغل دور مثالیں مل جاتی ہیں۔ تاہم ظہیر الدین بابر کے وقت یقینا لفظ اُردو کا استعمال عام ہوچکا تھا حتیٰ کہ خود بابر نے اسے اپنی تزک میں لکھا ہے۔ اکبر کے دور میں اس لفظ کے مرکبات عام استعمال کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ”اُردوئے معلی“، ”اُردوئے علیا“، ”اُردوئے بزدک“، حتیٰ کہ ”اُردوئے لشکر“ تمام مرکبات میں اُردو کا مطلب شاہی کیمپ ہے۔
عہد ساز ماہر لسانیات اور شاعر خان آرزو اپنی لغت، ”نوادرِ الفاظ“ (۷۶۷۱ءتا ۲۵۷۱ئ) میں لکھتے ہیں ”ہم جو ہند کے باسی ہیں اور اُردوئے معلی میں رہتے ہیں، اس لفظ سے آشنا نہیں ہیں۔“
امیر خسرو (۳۵۲۱ءتا ۵۲۳۱ئ) نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب، غرة اکمال‘ (۴۹۲۱ئ) کے دیباچے میں لکھا ہے کہ مسعود نے تین زبانوں میں دواوین چھوڑے ہیں۔ فارسی، عربی اور ہندوی (جمیل جالبی ۴۸۹۱ئ) ’غرة کمال‘ ہی میں خسرو اپنی زبان کے بارے میں یوں سخن طراز ہیں۔
من ترکِ ہند و ستانیم، من ہندوی گویم چوں آب۔
(میں ہندوستانی ترک ہوں۔ میں ہندوی پانی کی طرح بولتا ہوں)
کیا جانوں لوگ کہتے ہیں کس کو سکونِ قلب
آیا نہیں ہے لفظ یہ ہندی زباں کے بیچ
وہ اُردو کیا ہے یہ ہندی زباں ہے
کہ جس کا قائل اب سارا جہاں ہے
(میر تقی میر)
مراد شاہ، نامہ¿ مراد ۸۸۷۱ء(جمیل جالبی ۴۸۹۱ئ)
مصحفی فارسی کو طاق پر رکھ
اب ہے اشعار ہندوی کا رواج
(شیخ ہمدانی مصحفی)
یہی نہیں بلکہ اُردو کے لیے لفظ ہندی کا استعمال بیسویں صدی میں بھی موجود ہے اور وہ علامہ اقبالؒ کے ہاں، جو اپنی فارسی شاعری کے دفاع میں فرماتے ہیں:
گرچہ ہندی در عذوبت شکر است
طرز گفتار دری شیریں تر است
(اگرچہ ہندی، ذائقے میں شکر ہے فارسی کا طرز گفتار شیریں تر ہے)
(علامہ اقبال، اسرار خودی ۵۱۹۱ئ)
مختصر یہ کہ وہ زبان جسے ہم آج اُردو کے نام سے جانتے ہیں۔ انیسویں صدی میں اور اس سے پہلے ہندی کے نام سے جانی جاتی رہی ہے۔
ہندی یا ہندوی کے بعد اُردو کے لیے لفظ ریختہ مروج ہوا۔ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جو ریختن مصدر سے ہے۔ جس کے معنی ہیں بنانا، ایجاد کرنا اور نئے سانچے میں ڈھالنا اس کے معنی گرے پڑے اور تعمیر کے بھی ہیں۔ اُردو مختلف بولیوں کا مرکب بھی تھی گری پڑی بھی تھی اور ایک نئی ایجاد بھی تھی۔ اسی مناسبت سے اسے ریختہ کہا گیا (لسانیات، زبان اور رسم الخط، ڈاکٹر محمد اشرف کمال)
ریختہ کا لفظ سب سے پہلے امیر خسرو نے استعمال کیا۔ ولی، سراج اورنگ آبادی، میر تقی میر، مصحفی اور غالب نے بھی اُردو زبان کے لیے لفظ ریختہ کا استعمال کیا۔
البتہ مصحفی کو ہے ریختہ میں دعویٰ
یعنی کہ ہے زباں داں اُردو کی وہ زباں کا
ریختہ کہ تمہیں اُستاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ملا وجہی نے سب رس میں اسے زبانِ ہندوستانی لکھا۔ گارساں دتاسی اور گلکرسٹ نے بھی اسے ہندوستانی کا نام دیا ہے۔ ابو الفضل نے بھی آئین اکبری میں اُردو کے لیے ہندوستانی کا لفظ استعمال کیا ہے۔
عام طور پر اُردو کو ترکی زبان کا لفظ کہا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اُردو ترکی کا نہیں بلکہ اصل میں سنسکرت زبان کا لفظ ہو۔ وہ یوں کہ پرانی ترکی میں ایک لفظ پایا جاتا ہے ’اُرتا“ جس کے معنی ہیں مرکز۔ یہ لفظ بعد میں تبدیل ہوکر ”اوردو“ ہوگیا اور محل یا دارالحکومت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ اب ملاحظہ ہو کہ سنسکرت کا لفظ ’ہردے‘ (دل) نہ صرف صوتی بلکہ معنیاتی اعتبار سے بھی ترکی ’اُدثا‘ اور ’اوردو‘ سے مشابہ ہے۔ جوں کہ سنسکرت ترکی سے زیادہ قدیم زبان ہے۔
الغرض تو یہ تھی اُردو کی کہانی۔ یہ غالباً دنیا کی واحد زبان ہے جو اول تا آخر بدگمانیوں، استعماری سازشوں، ریشہ دوانیوں اور شکوک و شبہات کی زد میں رہی ہے۔ اس کا آغاز نزاعی، اس کا ارتقاءغلط فہمیوں کی دھند میں لپٹا ہوا مذہبی، علاقائی اور قومی تعصبات سے آلودہ اور اس کا رسم الخط متنازع ہے۔
شان الحق حقی کہا کرتے تھے کہ اُردو زبان کی ہمہ گیری، وسعت اور مٹھاس کا کیا کہنا۔ یہ وہ زبان ہے جس نے دنیا کی تین عظیم زبانوں کا دودھ پیا ہے۔ سنسکرت، عربی اور فارسی۔ غالباً اسی دودھ نے اُردو میں وہ قوتِ مدافعت بھی پیدا کردی ہے کہ مندرجہ بالا تمام اڑچنوں کے باوجود اس زبان کا ارتقاءقابل رشک اور اس کا مستقیل تابناک ہے۔ دنیا میں کوئی اور زبان ایسی ہو تو بتائیے۔
نوٹ: (اس مضمون کی تیاری میں دیگر کتب کے علاوہ زیف سید کے مضمون لشکری زبان سے بھی استفا دہ کیا گیا ہے۔)