پرویز خٹک نے 190 ملین پاﺅنڈ کیس میں بیان ریکارڈ کرا دیا۔
”ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے“۔ بالآخر سابق وزیر دفاع نے عدالت میں بلائے جانے پر حاضر ہو کر 190 ملین پاﺅنڈ کے گھپلے کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کی دھمکی اور دباﺅ کو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ بڑھکیں لگانے والے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ میں ان کو اور وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب وہی بات ”مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری“ بے شک پرویز خٹک دھان پان سے ہیں مگر انہوں نے نہایت وزنی کہہ لیں یا بھاری بیان دیکر ثابت کر دیا ہے کہ بہادری بے خوفی کا تعلق جسامت سے نہیں‘ دل سے ہوتا ہے۔ اور پرویز خٹک نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بڑے دل والے ہیں۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے موٹے سے ڈرو مت اور پتلے سے لڑو مت۔ بہرحال اب عدالت میں خٹک جی نے جو بیان دیا ہے‘ وہ تو پی ٹی آئی کے بانی اور کارکن ہی نہیں‘ وزیراعلیٰ خیبر پی کے پر بھی گراں گزرا ہوگا کیونکہ یہ مکمل انکے بیانیئے کیخلاف ہے اور مخالفین تو اس پر شادیانے بجائیں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا والے اس پر کیا ری ایکشن دینگے۔ وہ آسانی سے یہ معاملہ ہضم نہیں کر پائیں گے۔ یوں چاند ماری کافی عرصہ جاری رہ سکتی ہے۔ اب خطرہ اس بات کا بھی ہے کہ پرویز خٹک سے شہ پا کر اس وقت کی کابینہ کے کسی اور رکن میں بھی سچ کہنے کی ہمت پیدا نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو کہیں وہ بھی سچ بول کر شہزاد اکبر کے پلان اور اس وقت کی حکومت سے اسکی منظوری کا تذکرہ اسی طرح نہ کردیں جیسا پرویز خٹک نے کیا ہے۔
لعل شہباز قلندر کے توشہ خانے سے کروڑوں کے زیورات چوری۔
اب تو جناب مزارات کے توشہ خانے ،مسجد کا چندہ بکس ہو یا مزارات کے نذرانہ بکس‘ کچھ بھی لوٹ مار کرنے والوں سے محفوظ نہیں۔ حکومت کا خزانہ ہو یا بنکوں کے لاکرز یا گھروں کی تجوریاں‘ سب لگتا ہے لوٹنے والوں کی دسترس میں ہیں۔ لوٹنے والے ہر جگہ بڑی آسانی سے ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ہزاروں لوگ سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر آتے ہیں‘ لاکھوں روپے نذرانہ‘ چندہ بکسوں میں ڈالتے ہیں‘ کئی لوگ تو منت مراد پوری ہونے پر سونے اور چاندی کے زیورات بھی چڑھاوے کے طور پر وہاں چڑھاتے ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہاں نذرانہ چڑھائے جانے والے ڈیڑھ کلو سونے اور چالیس کلو چاندی کے زیورات جو لاکرز میں رکھے گئے ہیں وہ نقلی ہیں‘ اصلی زیورات ہڑپ کر لئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اینٹی کرپشن والے تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ چمتکار کیسے ہو گیا۔ اصل زیورات خودبخود کیسے نقلی زیورات میں تبدیل ہو گئے۔ اس سلسلے میں منیجر اوقاف اور دو دیگر ملازمین کو دھرلیا گیا ہے۔ تحقیقات ہو رہی ہیں کہ سونا پیتل کیسے بن گیا۔ بات تو محکمہ اوقاف کی زیرنگرانی مزارات کی ہے جو سجادہ نشینوں‘ گدی نشینوں کے تصرف میں ہیں‘ وہاں تو کیا نقدی کیا سونا‘ سب کچھ انکے پاس ہی رہتا ہے اور وہ لوگ اندرون و بیرون ملک دورے کرکے بھی لاکھوں روپے‘ ڈالر اور پا?نڈ کما لیتے ہیں۔ اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہوتا۔ اب اوقاف والوں کی بھی چالاکی دیکھیں کس طرح انہوں نے اصل زیورات کی جگہ نقلی زیورات جمع کرائے۔ وہ سنیارا بھی پکڑا گیا ہے جس سے ان زیورات کی جانچ کرائی گئی تھی اور اس نے انہیں اصل قرار دیا تھا۔
مجھے حکومت دیں‘ 300 یونٹ بجلی فری ملے گی‘ بلاول۔
یہ خواہش کس کے دل میں نہیں مچلتی ہوگی کہ اسے وزیراعظم بنا دیں۔ ایک ریڑھی والے سے‘ دکاندار ، ٹیکسی ڈرائیور یا مزدور سے بھی بات کریں اور اس سے کہیں کہ آپ کو اگر وزیراعظم بنا دیا جائے تو آپ کیا کریں گے۔ اسکے جواب میں وہ ایسے ایسے دعوے کرینگے کہ افسانوں کو بھی شرم آئے گی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بلاول نے تو صرف یہ کہا ہے کہ وہ 300 یونٹ تک بجلی فری کر دیں گے ورنہ باقی لوگ تو دودھ و شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ نظام سقہ نے تو صرف چام کے سکے چلائے تھے‘ اسے بھی صرف ایک دن کی حکومت ملی تھی۔ ہمارے نظام سقے تو آج کے ”حشیشن“ کی طرح ہیں۔ یہ تو دن کو رات اور رات کو دن بنا سکتے ہیں اور دنیا میں کھلی آنکھوں سے جنت کے مزے کراسکتے ہیں۔ یہ ہمارے عوام ہی ہیں جو کھلی آنکھوں سے انکے جال میں پھنس جاتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں کہ جیسا انہوں نے کہا ہے‘ وہی ہوگا مگر دیکھ لیں جو کہا‘ کیا ہوتا ہے۔ وہ سب ایک فریب ثابت ہوتا ہے اور کوئی وعدہ ایفا نہیں ہو پاتا۔ کوئی بھی آجائے وہ اس وقت تک عوام کو دکھائے جانے والے خوابوں میں رنگ نہیں بھر سکتا جب تک قرض کا کشکول ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی اداروں اور ملکوں کے محتاج ہیں ورنہ عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوئی راہ نکل ہی پائے۔ اگر صرف بجلی بلوں سے ناجائز ٹیکس ختم کر دیئے جائیں اور اشرافیہ کے بڑے بڑے بنگلوں‘ کوٹھیوں‘ فارم ہاﺅسز اور پلازوں‘ مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں استعمال ہونے والی بجلی مہنگی کی جائے تو عوام کو فری بجلی دینے کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔
پاکستان کرکٹ میں سرجری شروع‘ رزاق اور وہاب فارغ۔
یہ عجیب سرجری ہے کہ دو ملکی آفیشلز کو نکال کر انکی جگہ دو غیرملکی کوچز کو سلیکشن کمیٹی میں شامل کرلیا گیا ہے۔ شاید اس امید پر کہ یہ دونوں غیرجانبدار ہونگے۔ عبدالرزاق اور وہاب ریاض کے بعد اب دیکھنا ہے کہ نشتر اور کس کس پر چلے گا۔ دوسری طرف شاہد آفریدی بھی اس معاملے میں خاصے سرگرم ہیں۔ وہ فوری طور پر ساری ٹیم کی سرجری چاہتے ہیں۔ خاص طور پر وہ کپتان بابراعظم کو کئی بار موقع دینے پر برہم ہیں اور اب انکے حوالے سے بھی میڈیا پر کافی بول رہے ہیں۔ اس طرح کہیں وہ اپنے داماد شاہین آفریدی کیلئے مشکلات نہ پیدا کردیں کیونکہ سرجری بورڈ کے ارکان کے مطابق انکے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ بیرونی دوروں میں قواعد کی پرواہ نہیں کرتے اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ اب اس وقت جن لوگوں کے ہاتھ میں جراحی آلات ہیں‘ انکی اپنی قابلیت بھی کہیں دا? پر نہ لگ جائے کہ جس پر ہاتھ ڈالا جائیگا‘ اسکے حامی خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے‘ ہر دور میں کرکٹ کے کھلاڑیوں میں گروپنگ رہی ہے‘ سلیکشن کمیٹیاں پسند و ناپسند پر چلتی تھیں۔ اس وقت خواہ شاہین آفریدی ہو یا بابراعظم‘ دونوں کرکٹ کی دنیا کے نامور کھلاڑی ہیں۔ لوگ بھی انہیں کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ پسند نا پسند یا گروپ بندی کی آڑ میں ان کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے پی سی بی کے کرتا دھرتاﺅں کی سرجری بھی ضروری ہے جو خود کو بالاتر سمجھتے ہیں۔
جمعة المبارک ‘ 5 محرم الحرام 1446ھ ‘ 12 جولائی 2024
Jul 12, 2024