ویلڈن وزارت ِ اطلاعات پنجاب

 پنجاب کی سیاسی تاریخ میں دو نام ایسے ہیں جنہوں نے عوام دوست پراجیکٹس اور صوبے کی ترقی کے حوالے سے بطو وزیراعلیٰ خود کو منوایا۔ ان میں سے پہلا نام میاں شہباز شریف کا اور دوسرا چوہری پرویز الٰہی کا ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اس وقت کے پاکستان کے مالی اور سیاسی حالات اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں متذکرہ بالا وزرائے اعلیٰ کو نسبتاً نارمل حالات میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن مریم نواز کو جس قدر غیر معمولی مشکل حالات میں وزارت ِ اعلیٰ ملی ہے اس کا اندازہ ہر باشعور پاکستانی کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو مخالفین بھی تسلیم کرنا شروع ہو چکے ہیں کہ مریم نواز کی بطور چیف منسٹر پنجاب ہر ممکن کوشش ہے کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود عوام کو ریلیف دیا جائے۔ آٹے دال کی قیمتیں ہوں یا سولر سسٹم کی سہولت۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے جو بن پڑ رہا ہے وہ کر رہی ہیں۔ محکموں کی سطح پر ہر وزارت کو واضح طور پر ہدایات جاری کی جاچکی ہیں کہ افسری اور اختیارات کے مزے لینے کی بجائے کئیر اینڈ سپورٹ کا کلچر پیدا کیا جائے۔ ایک سیاسی لیڈر کی ذمہ داری بھی یہی بنتی ہے کہ عوام کے بھاری ٹیکس سے چلنے والا نظام عوام کی خدمت کرتا نظر آئے۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ایم پی ایز کو نوازنے کے لیے وزیروں کا جم ِ غفیر اکٹھا کرنے کی بجائے بہت سوچ سمجھ کر اور اہلیت دیکھ کر ذمہ داریاں سپرد کی ہیں۔ عظمیٰ بخاری کو بطور دبنگ سیاسی لیڈر کون نہیں جانتا۔ لیکن ایڈمنسٹریشن کرنا یقیناً ایک مختلف کام ہے اور پھر بطور وزیر اطلاعات عوام اور میڈیا کو فیس کرنا اور وزارت کے معاملات بھی دیکھنے یہ ایک مزید مشکل کام ہے لیکن بہت کم وقت میں انہوں نے خود کو ایک قابل اور محنتی وزیر ثابت کر دکھایا ہے۔ عظمیٰ بخاری کی بطور وزیر اطلاعات بہترین کاردگی کی بنیاد پر اب ان کو وزارت ِ ثقافت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ملک کی بیوروکریسی سے موزوں اور قابل افسروں کو تلاش کرنا بھی کچھ کم جان جوکھوں کا کام نہیں۔ جو نئے سیکریٹریز کے کامیاب انتخاب کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ 
 مریم نواز شریف یقیناً پچھلے تمام ادوار پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہر معاملے میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہیں۔ 
احمد عزیز تارڑ جیسے دیانت دار ، شفاف اور قابل افسر کی بطور سیکریٹری انفارمیشن اور سلیم ساگر جیسے لائق افسر کی بطور ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات تعیناتی اور محترمہ سائرہ رشید کی بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمرا تعیناتی لائق ِ تحسین ہے۔ بینش فاطمہ ساہی پہلے سے ہی پوری دلجمعی سے پلاک کو پورے پنجاب کی ثقافت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں خاقان حیدر غازی جیسے اعلیٰ تخلیق کار اور پنجاب رنگ ریڈیو ایف ایم 95 کی ذہین اور فعال پروڈیوسر شاذیہ سعید کی تخلیقی اور مخلصانہ اسسٹینس بھی حاصل ہے۔ شاذیہ سعید میرے استاد محترم سعید آسی صاحب کی دختر نیک اختر ہیں۔ اس خاندان کا پاکستان میں دیانتدارانہ اور سچی صحافت کے شعبے پر احسان ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے معتبر صحافی سعید آسی صاحب کے شاگرد ہیں جن کے قلم کی وجہ سے آج اس دور زوال میں بھی صحافت کا وقار قائم ہے۔ اگرچہ سعید آسی اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے شاعر ہیں لیکن پنجابی زبان میں ان کو موضوعات اور ان کے برتاﺅ کے لحاظ سے میاں محمد بخش کے قبیلے کا شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں میری بھیتجی شاذیہ سعید کی اپنی محنت اور قابلیت اپنی جگہ اور ان کے خاندان کا کنٹریبیوشن بھی کسی سے کم نہیں۔یہ ٹیم بھی اب نئے جوش و جذبے سے کچھ کر دکھانے کے لیے بہت کچھ نیا کرنے کا آغاز کر چکی ہے۔ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں جب نگران حکومت کے دور کے وزیر ِ اطلاعات و ثقافت کی آئے دن کی محکمانہ اکھاڑ پچھاڑ سے پورے محکمے میں خوف و ہراس کی فضا نے افسران و ملازمین کی ناک میں دم کیے رکھا لیکن وزارت ِ اطلاعات و ثقافت کی موجودہ ٹیم نے آتے ہی لوگوں کو سکھ کا سانس مہیا کرنے کے لیے معاملات کو اکھاڑنے پچھاڑنے کی بجائے سنوارنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ 
 صحافی کالونی جس کے بہت سارے انتظامی معاملات کھٹائی میں پڑے ہوئے تھے اور ایسے ایشوز جو عرصہ دراز سے نظر انداز ہوتے چلے آ رہے تھے ، موجودہ حکام نے ایک ایک کر کے ایڈریس کرنا شروع کردیے ہیں۔ اسی طرح ڈی جی پی آر کے معاملات کا تعطل ایڈریس کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ ڈی جی پی آر کے اندر بیٹھے عمال کے صوابدیدی اختیارات تھے۔ اب یہ اختیارات سیکریٹیریٹ نے ان سے لے کے معاملات کو خود دیکھنا اور نمٹانا شروع کردیا ہے۔ اخبارات اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے مدتوں کے رکے ہوے بل جن کی اماو¿نٹ کروڑوں میں تھی ان کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ ثقافت کے معاملات کو ازسر ِ نو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ پنجاب آرٹ کونسلز سمیت ، پلاک اور الحمراءجیسے تمام اداروں کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ ثقافتی پروگراموں کو نئے ویڑن اور جوش و جذبے سے ترتیب دیا جائے جس میں جینوئن بزرگ شعراءاور فنکاروں کو عزت و احترام سے نوازا جائے جبکہ نئے اور باوقار نوجوان شعراءاور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ الحمراءآرٹ کونسل اور پلاک میں بڑے تعمیری اور مثبت پروگرامز کا آغاز پورے جوش و خروش سے کردیا گیا ہے۔ الحمراءکی طرف سے منعقد کیے جانے والے موسیقی کے گھرانوں کے پروگرام ، بانسری کے کنسرٹ اور خواتین مشاعرے کی گونج پوری دنیا میں سنی جارہی ہے۔ 
 وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری ، سیکریٹری احمد عزیز تارڑ اور شاعر ِ اخلاص و وفا سلیم ساگر پر مشتمل ٹیم اپنے اداروں کے افسران کی ان معاملات میں بھی جس طرح حوصلہ افزائی کر رہی ہے یہ بہت اہم ہے ورنہ گزشتہ دنوں الحمراءمیں ایک ” جینز پہنا کرو “ فیم شاعر کو میر اور غالب کا ہم پلہ شاعر بنا کے پیش کیا گیا۔ ان ادبی نابالغ شعراءکے پیچھے پرائیویٹ کمپنیوں کی سپانسرشپ ہوتی ہے جنہوں نے نئی نسل کے ایک بڑے حصے کو بستر اور جینز کے شاعری کے نشے پر لگا کے ان کے ذوق کی تربیت کی بجائے ان کو چھچھورے پن پہ لگا دیا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ لوگ سننا یہی چاہتے ہیں۔ یہ صرحاً جھوٹ ہے۔ لوگ ہمیشہ اچھا سننا اور خوبصورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ 
وزارت اطلاعات و ثقافت کی طرف سے کی جا رہی کوششیں دیکھ کر صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ انہیں پورا احساس ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا ویژن ایکشن میں ٹرانسلیٹ کرکے دکھانا ہے۔ وزیراعلیٰ محترمہ نے ہر شعبے میں بہتری کے اقدامات جس سنجیدگی اور تیز رفتاری سے کیے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سابق نگران حکومت کی طرف سے کی گئی غیر آئینی تقرریوں کا جائزہ بھی لیا جائیگا اور جن کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی ہے ان کا ازالہ کیا جائیگا۔ سیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ بات سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ جن حالات میں مریم نواز شریف نے وزارت ِ اعلیٰ سنبھالی ہے وہ کسی طرح سے بھی ایک بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں تھی لیکن اس خاتون ِآہن نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ عوام کی خدمت کا تصور سچ کر دکھانا ہےاور آئندہ سیاسی سفر والد ِ محترم ،چچا اور پارٹی کی نیک نامی کے زور پر نہیں بلکہ اپنی ذاتی قابلیت اور پرفارمنس کی بنیاد پر طے کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...