جے توں عقل لطیف ، کالے لکھ نہ لیکھ

Jul 12, 2024

اثرعلی چوہان

معزز قارئین ! پاک پنجاب کے ”پاکپتن شریف“ میں چشتیہ سلسلہ کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر حضرت بابا فرید الدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج کے 782 ویں سالانہ عرس کی پندرہ روزہ تقریبات جاری ہیں، سجادہ نشین دیوان مودود مسعود چشتی فاروقی صدیوں پرانی رسومات ادا کر رہے ہیں، گزشتہ روز بھی انہوں نے عرس مبارک کی نویں روز کی رسومات ادا کیں اور روایتی تبرکات شکر، مکھانے، چینی تقسیم کی، عرس کی تقریبات میں زائرین ، عقیدت مندوں، مریدین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ عرس کی بڑی رسم بہشتی دروازہ کی قفل کشائی پانچ محرم الحرام کو ہوتی ہے جبکہ عرس کی تقریبات 10 محرم الحرام تک جاری رہیں گی۔ 
 بابا فرید شکر گنج کی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ”آپ ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہ، سلطان غیاث الدّین بلبن (1266۔ 1286) کے داماد تھے۔ لیکن آپ نے اپنے سسر بادشاہ سے کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کی تھیں۔ بابا فرید شکر گنج نے اپنے کلام میں مسلمانوں اور عام انسانوں کی راہنمائی کے لئے بہت کچھ کہا اور لِکھا۔ سکھوں کے دوسرے گرو۔ گرو انگددیو جی نے بابا فرید شکر گنج کا کلام سِکھوں کی مقدس کتاب ”گرنتھ صاحب“ میں شامل کرلِیا تھا۔ پاکستان کے سماجی اور سیاسی حالات پر بابا فرید شکر گنج نے بہت پہلے بہت کچھ کہا تھا۔
” مادرِ ملّت سے ملاقات! “
مَیں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ”2 جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب سے کچھ دِنوں پہلے ضلع سرگودھا میں مادر ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج اور تحریک پاکستان کے نامور (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مرید احمد نے میری اور میرے صحافی دوست تاج الدّین حقیقت کی لاہور میں مادرِ ملّت سے ملاقات کرائی تھی اور اسی دِن، اسی وقت لاہور کے مرزا شجاع الدّین بیگ امرتسری (ریٹائر چیئرمین پیمرا مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب) اور پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور (گولڈ میڈلسٹ کارکن تحریکِ پاکستان) سے بھی مادرِ ملّت کی ملاقات ہوئی تھی۔ تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع الدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہوا شہید ہوا اور چودھری محمد اکرم طور نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا، پھر ان کے صاجزادگان پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور سعید آسی سے میری دوستی گہری ہوتی گئی۔ 
” پاکپتن شریف میں!“ 
1966ءمیں چودھری محمد اکرم طور نے مجھے پاکپتن شریف مدّعو کِیا اور وہ مجھے بابا فرید شکر گنج کے مزار مبارک پر بھی لے گئے۔ طورصاحب کو بابا جی کے بہت سے دوہے از بر تھے اور وہ بڑی محبت سے ان کی تفسیر کِیا کرتے تھے۔ اِسی طرح 1968ءمیں مرزا شجاع الدّین بیگ امرتسری مجھے بابا بلھّے شاہ کے مزار پر قصور لے گئے، ان دِنوں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کا اور ان کی پارٹی کے قائدین اور کارکنان کا نعرہ ”روٹی، کپڑا اور مکان“ تھا۔ بیگ صاحب اپنے ”دائرہ دوستاں“ میں کہا کرتے تھے کہ ”بھٹو صاحب نے یہ نعرہ بابا بلھّے شاہ کے اِس شعر سے حاصل کِیا کہ 
”منگ اوئے بندیا، اللہ کولوں،
گلّی‘ جلّی، کلّی!“
 یعنی۔” اے بندے ! تو اللہ سے روٹی، کپڑا اور رہائش کے لئے مکان مانگ“۔
”بابا فرید شکر گنج کے دوہے!“
معزز قارئین ! فی الحال مَیں ”روٹی“ کے مسئلے پر بابا فرید شکر گنج کے صِرف 2 دوہے پیش کر رہا ہوں۔ ایک دوہے میں آپ نے فرمایا کہ....
فریدا! روٹی میری کاٹھ دِی، لاون میری بھکّھ !
جنہاں کھاہدی چوپڑی، گھنے سہن گے دکھ !
یعنی۔ ” اے فرید! میری روٹی لکڑی کی ہے اور میری بھوک ہی میرا سالن ہے اور چپڑی روٹی (پراٹھے) کھانے والے ( امرائ، خاص طور پر بد عنوان لوگ (آخرت میں) بہت دکھ برداشت کریں گے“۔ دوسرے دوہے میں بابا جی نے اپنے حوالے سے غریب غرباءکو مشورہ دِیا کہ....
فریدا !رکھّی، سکھّی کھا کے، ٹھنڈا پانی پی!
دیکھ پرائی چوپڑی، نہ ترسائیں جی!
یعنی۔ ” اے فرید! روکھّی سوکھّی روٹی کھا کے اور ٹھنڈا پانی پی کر (زندگی بسر کر) لیکن دوسرے لوگ جب چپڑی روٹی کھارہے ہوں تو انہیں دیکھ کر اپنا جی نہ ترسا“۔ معزز قارئین! بابا فرید شکر گنج کا دَور اچھا دَور تھا، جب عام لوگوں کو کھانے کے لئے (روکھّی سوکھّی) روٹی مل جاتی تھی اور پینے کے لئے کنویں یا چشمے کا ٹھنڈا اور صاف پانی ؟ لیکن آج پاکستان میں غریبوں کے لئے اِس طرح کی نعمتیں کہاں؟
”شکر پڑیاں میں چلّہ گاہ! “ 
حضرت بابا شکر گنج نے اپنی حیات میں برصغیر پاک و ہند کے کئی صوبوں، اضلاع، شہروں اور دیہات کے (مقامات/ مکانات) پر ”چلّہ کشی“ کی تھی۔ اسلام آباد کے مرکز میں واقع پہاڑیوں ( پڑیوں ) پر بھی ”چلّہ کشی“ کِیا کرتے تھے تو اس کا نام بابا جی کے نام پر ”شکر پڑیاں“ پڑ گیا تھا۔ معزز قارئین! مجھے اپنے دوستوں چودھری محمد اکرم طور اور مرزا شجاع الدّین بیگ امرتسری کے ساتھ کئی بار حضرت بابا شکر گنج کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ 
”کالے لِکھ نہ لیکھ!“
معزز قارئین! "Four Pillers of the State" ( ریاست کے چار ستونوں) کا نظام بعد میں منظر عام پر آیا لیکن، بابا فرید شکر گنج نے -1 پارلیمنٹ (Legislature) -2 حکومت (Executive) -3 جج صاحبان (Judiciary) اور -4 اخبارات اور نشریاتی اداروں (Media) کو اپنے اِس دوہے میں پہلے ہی ہدایت کردِی تھی کہ
فریدا جے توں عقل لطیف، کالے لِکھ نہ لیکھ!
آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ !
یعنی۔ ”اے فرید! اگر تو باریک بین عقل رکھتا ہے تو”کالے لیکھ“ ( سیاہ تحریریں اور احکامات) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ“۔

مزیدخبریں