پاکستان میں حقیقی شجرکاری کی ضرورت !

ارضیات کے ماہرین گزشتہ نصف صدی سے خبردار کرتے چلے آرہے ہیں کہ فضاءمیں بڑھتی ہوئی آلودگی زمین کی حدت میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ اس کے تدارک کیلئے تجاویز بھی دی گئیں لیکن صنعتی ترقی کے خبط میں مبتلا سرمایہ دار ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ظاہر کیے گئے خطرات کو ہوا میں اڑاتے ہوتے نہ صرف صنعتی ترقی کے نام پر صنعتی پیداوار کو باہمی مقابلے کی شکل دے کر اس میں مزید اضافے کاسلسلہ جاری رکھا بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے چکر میں ٹیکنالوجی میں بتدریج جدت لاکر فضائی آلودگی کے عمل کو تیز کردیا گیا۔ تاہم ارضیات کے ماہرین نے دنیا کو خبردار کرنے اور آنے والی خوفناک موسمیاتی تبدیلیوں کی بابت آگاہی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2010ء میں پاکستان شدید بارشوں اور سیلاب کی گھمبیر صورت حال سے دوچار ہوا توپاکستان میں نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے آنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی وفد میں شامل بدلتے موسموں پر نظر رکھنے والے ماہرین کے نمائندوں نے بتایاکہ پاکستان ان دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہونگے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ غیر معمولی بے موسمی بارشوں کے علاوہ گرمیوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے انسانی آبادیوں کے ساتھ ساتھ نباتات اور لائیو اسٹاک پر بھی اس کے منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عوام الناس اور حکومتوں کی سطح پر مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے باوجود اس کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ 
رواں برس موسم گرما میں درجہ حرارت میں اضافے نے عوام الناس کا جو حال کیا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ رہی سہی کسر بجلی کی قیمت میں اضافے نے پوری کردی ہے جس کے بعد عوام الناس کا جینا حرام ہوچکا ہے۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں جن خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں ،درجہ حرارت میں اضافہ کی صورت اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ 2022 ءکے زخم ابھی تازہ ہیں جب تباہ کن بارشوں نے پہلے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر بے پناہ تباہی مچائی۔ بعدازاں غیر معمولی بارشوں نے جنوبی پنجاب اور خیبرپختوانخواہ کو اپنی لپیٹ میں لے کر بڑے پیمانے پر سیلاب کو جنم دیا جس نے پنجاب اور وسطی سندھ کے لاکھوں ایکڑ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے کر وہاں آباد ہزاروں خاندانوں کو بے گھراور کھڑی فصلوں کو برباد کر دیا۔ موسمیاتی ماہرین ان بارشوں کی وجہ صوبہ کے پی کے میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کو قرار دے رہے ہیں جو پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب بھی ہے۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ سے جنگلات کا خاتمہ ، صوبہ بلوچستان میں درخت اگانے کا شعور نہ ہونا اور صوبہ پنجاب خاص طو رپر جنوبی پنجاب کے علاقوں میں جنگلات میں بتدریج کمی ان علاقوں میں بسنے والے انسانوں ، جانوروں اور زراعت کے لیے درجہ حرارت میں مزید اضافہ نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ 
اگر ہم برصغیر میں شجرکاری کے حوالے سے تاریخ پر نظر ڈالیں تو مغل سلاطین کا دور ہو یا اس کے بعد سکھوں اور تاج برطانیہ کا راج۔ اس پورے عرصہ کی تاریخ میں باغات و پارک اور ہر طرف بڑے تناور درختوں کی بہتات کے قصے پڑھنے کو ملتے رہے جس کے آثار آج بھی بعض شہروں میں نمایاں ہیں۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بدھ مت اور برہمن حکومتوں میں بہت سے مقامی درختوں کی بھگوان کی طرح پوجا کی جاتی رہی ہے۔ ہمارے خطے میں گرمی ماضی کے اس دور میں بھی اپنے پورے جوبن کے ساتھ جلوہ گرہواکرتی تھی جس کا توڑ ”ارجن برگد ، پلکن ، نیم ، شیشم اور پیپل ،،جیسے دیوقامت درختوں کی چھاﺅن سے کیاجاتا تھا۔ انگریز اپنے دور حکومت میں اگر چاہتے تو برطانیہ سے غیر سایہ دار درخت لاکر یہاں ان کی شجرکاری کر سکتے تھے لیکن انہوں نے بھی یہاں کے موسموں کو دیکھتے ہوئے مقامی درختوں کو فوقیت دی۔ 
پاکستان کے اندر جہاں بھی پرانی چھاﺅنیاں ہیں وہاں آج ہر طرف مقامی درختوں کے جھنڈ دیکھے جاسکتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پاک فوج نے ان چھاﺅنیوں کا نظام سنبھالا تو انہوں نے بھی شجرکاری کے حوالے سے مقامی درختوں کو ہی اہمیت دی۔پرانے درختوں کی حفاظت کی گئی اور ان میں ہرگزرتے موسم کے ساتھ اضافہ کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا بلکہ آج بھی کنٹونمنٹس کے دائرہ اختیار میں درختوں کو نمبر لگا کر دفتر میں ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور درخت کاٹنا جرم تصور ہوتا ہے۔ یہ قوانین ملک کے تمام اضلاع اور میونسپل ادارہ میں بھی موجود ہیں لیکن درختوں کی اہمیت باقی نہ رہنے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دریاﺅں ،نہروں، ندی نالوں اور اضلاع و صوبوں کو ملانے والی بڑی شاہراہوں پر لگے لاکھوں کروڑوں درخت کاٹ لیے گئے اور کسی نے اس کی پرواہ بھی نہیں کی۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ گرمی کا موسم زور پکڑتے ہی سوشل میڈیا پر درختوں کی اہمیت اور شجرکاری کی پرزور مہم کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کمشنر ،ڈپٹی کمشنر ،وزرا  اور مختلف محکموں کے سربراہان سے نمائشی پودے لگوا کر اخبارات میں اس کی خوب تشہیر کے ذریعے اس کو شجرکاری مہم کا نام دے دیا جاتا ہے جس کا مقصد شجرکاری کو تحریک کی شکل دینا نہیں بلکہ وزیروں مشیروں کی تشہیر ہوتا ہے۔ ورنہ اگر ہر سال موسم برسات میں بڑی سیاسی شخصیات اور ضلعی افسران کی طرف سے لگائے گئے پودوں کی تفصیل اکٹھی کی جائے تو ملک کا ہر شہر ،،باغ جناح ،،یا ”شالیمار باغ ،،کا منظر پیش کرے۔ جس میں مزید درخت لگانے کی جگہ ہی نہ ملے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے ہر ضلع وشہر میں شجرکاری کیلئے باقاعدہ ادارہ موجود ہے۔ جسے باغ بانی اور شجر کاری کیلئے اچھی خاصی رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر شہروں میں درخت نظر نہیں آتے اوراگر لگائے بھی جاتے ہیں تو وہ نمائشی قسم کے درختوں پر مشتمل ہوتے ہیں یہ سب دیکھ کر ذہنوں میں سوال ضرور اٹھتا ہے کہ شجرکاری کیلئے سرکار کی طرف سے سالانہ فراہم کیاجانے والا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ یہی حال عوام کا ہے۔ نئے گھر تعمیر کریں گے۔ ہاﺅسنگ سوسائیٹیوں میں بنگلے کھڑے کرنے کے بعد نمائشی پودے ضرور لگائیں گے لیکن ایسے مقامی درخت لگانے سے گریز کریں گے جو گرمی کی شدت میں کمی کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکیں کیونکہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا بنگلہ تناور درختوں میں چھپ کر بنگلے کے مالکان کی شان کو ڈھانپ دیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی طبقہ سوشل میڈیا پر شہریوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے دو یا تین مرلے کے گھروں اور تنگ گلیوں میں درخت لگائیں۔ تاہم اس حوالے سے اب تک کی کوتاہیوں کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ بدلتے موسموں کے اثرات سے عوام کومحفوظ رکھنے کیلئے شجرکاری کے نام پر ہرسال جاری مذاق بند کیا جائے اور شجرکاری کو ملک و قوم کی اہم ضرورت قرار دے کر سنجیدگی کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر حقیقی شجرکاری کی طرف توجہ دی جائے جو کہ دکھائی بھی دے۔

ای پیپر دی نیشن

عالمی یوم جمہوریت اور پاکستان 

جمہوریت آزاد،مضبوط اور خوشحال وفاقی ریاست کی ضمانت ہے۔جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق نظام ریاست کی تشکیل کا نظام ہے۔ یہ ...