شاہ است حسینؓ پادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
سردادنہ داددست دردستِ یزید
حقاکہ بنائے لاالہ ہست حسینؓ
تاریخ حق وباطل میں خیرہ شر کے لاکھوں معرکے برپا ہوئے۔ ہزاروں شہادتیں ہوئیں بالخصوص اسلام کا اولین دور لاتعداد عظیم شہادتوں سے لبریز ہے۔ تاہم یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ آج تک کسی اور شہادت کو اس قدر شہرت، قبولیت اورہمہ گیر تذکرہ نصیب نہیں ہوسکا جتنا حضرت امام حسینؓ کی شہادت کو ہواہے۔ ساڑھے تیرہ سو سال گزرجانے کے باوجود بھی شہادت امام حسینؓ کا ذکر زندہ وتابندہ ہے۔ اس کی شہرت اور تذکروںمیں آج تک کمی نہیں ہوئی۔ یہ پھیلتا ہی جارہاہے یہاں تک کہ حسینیت ہرطبقہ میں حق اور یزیدیت ہرطبقہ میں فتنہ وفساد کی علامت بن گئی ہے۔
اس فانی دنیا میں کسی کا بظاہر کامیاب نظرآنا اور اقتدار حاصل کرلینا اصل کامیابی نہیں۔ کافر، ظالم، فاسق وفاجر،منافق اور طاغوت صفت لوگ جو زمین پر نشہ اقتدار کے باعث اکڑ اکڑکرچلتے ہیں ان کا کچھ دنوںکےلئے کامیاب نظرآنا محض اس لئے کہ اللہ ان کو ڈھیل دیتاہے جب اللہ تعالیٰ کی گرفت کا وقت آتا ہے توپھر انہیں نیست ونابود کردیاجاتاہے اور ایسا ذلیل ورسوا کیاجاتاہے کہ آنے والی نسلوں میں ان کا نام نشان عبرت کے طور پر لیاجاتاہے۔
یزید بھی ان لوگوںمیں سے تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی عارضی اور فانی زندگی میں اقتدار عطا کیالیکن وہ نشہ اقتدار میں بدمست ہوکر اکڑ گیا اگرچہ وہ پہلے بھی کاہل،غافل اور لاپرواہ تھا،کھیل کود اور اوباش لوگوںمیں وقت گزارتا تھامگر مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد تو اس میں فرعونیت اور قارونیت جیسی بھیانک صفات پیدا ہوگئی تھیں۔ اس دنیا کی چند روزہ حکومت اور اقتدار کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرتے ہوئے خانوادہ رسول پرظلم وستم کی انتہاکی اور کربلاکے تپتے ہوئے ریگزار میں بھوک اور پیاس کی حالت میں اہل بیت نبوت اور ان کے انصار میں سے بہتر افراد کو شہیدکیاتھامگر اسی یزید پر یہ وقت بھی آیا کہ لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوئے اور بہتر افراد کے بدلے میں تقریباً ایک لاکھ سترہزار یزیدیوں کو قتل کیاگیا۔ یزید کہ جس نے مدینہ منورہ میں گھوڑوں اور اونٹوں کالشکر بھیجا تھا تین دن تک مسجد نبوی میں نمازیں اور جماعتیںمعطل رہیں۔اسی یزید پر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی اپنی قبرپر گھوڑے اور اونٹ باندھے گئے۔
اہل بیت نبوت کے افراد جب ایک ایک کرکے شہادت پاگئے تو آخر میں حضرت امام حسینؓ نے میدان میں آنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت زین العابدین جو اسوقت بیمار تھے، امام عالی مقام کے پاس آئے اور عرض کیا۔ اباجان! مجھ پر ایسی زیادتی نہ کیجئے میرے ہوتے ہوئے آپ میدان میں جائیں یہ مجھے گوارہ نہیںمیں بھی اپنے باقی بھائیوںکی طرح اپنے نانا جان کا دیدارکرنا چاہتاہوں۔میں بھی اپنی دادی جان کی بارگاہ میں سرخروہونا چاہتاہوں۔ اب شہادت کا جام پینے کی میری باری ہے۔ آپ نے فرمایا بیٹے تو میدان جنگ میں نہیں جائے گاکہ خانوادہ رسول کا ہر چراغ گل ہوچکاہے ہرپھول مرجھا چکاہے۔ اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیاہے مجھے تو شہید ہوناہی ہے اگر توبھی شہیدہوگیاتومیرے نانا کی نسل کیسے چلے گی؟ تجھے اپنے نانا کی نسل کی بقا کےلئے زندہ رہناہے۔
چنانچہ حضرت امام حسینؓ امام زین العابدین کو چھوڑکر خودمیدان کربلامیں اترے مقابلے میں آپ دیر تک یزیدیوںکو واصل جہنم کرتے تھے، پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچاہواتھا، حضرت علی شیرخدا کا یہ بیٹاتلوارلےکر جس طرف نکل جاتا یزیدی لشکرخوف زدہ بھیڑوںکی طرح آگے بھاگنے لگتا۔ آپ اپنی شمشیر تشنہ لب کی پیاس بے وفا اور موقع پرست کوفیوں کے خون سے بجھاتے رہے اور خود تلواروںاور نیزوں کے وار سہتے رہے۔
اس معرکہ کے دوران آپ کو بہت پیاس لگی۔ آپ نے پانی کےلئے دریائے فرات کا رخ کرلیامگر دشمن سخت مزاحمت کرنے لگا۔ اچانک ایک تیر آیا اور آ کے چہرہ کو زخمی کردیا۔ آپ نے تیرکھینچ لیا پھر ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے تو دونوں چلوخون سے بھر گئے۔ آپ نے اپنا خون آسمان کی طرف اچھال دیا اور خداکا شکر اداکرتے ہوئے کہا الہٰی تیرا شکوہ تجھی سے ہے، دیکھ تیرے رسول کے نواسے کے ساتھ کیا برتاﺅہورہاہے؟
اس کے بعد ثمر بن ذی الجوشن کوفہ کے تقریباً دس آدمیوںکو ساتھ لے کر حضرت امام حسینؓ کے خیمے کی طرف بڑھا۔ جہاں آپ کے اہل وعیال اور مال واسباب تھا۔ حضرت امام حسینؓ اپنے اہل خانہ اور قافلہ کی طرف آنے لگے تو شمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آپ کے اور آپ کے قافلہ کے درمیان حائل ہوگیا۔ میدان کربلامیں حضرت امام حسینؓ کے ساتھیوںمیں بہتر آدمی شہید ہوئے جنہیں اہل غاضریہ میں سے بنی اسد کے لوگوں نے دوسرے روز دفن کردیا۔خاندان نبوت میں سے جو افرادشہید ہوئے ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔
کربلاکے اس تپتے ریگزار میں آقائے دوجہاں کے اہل بیت پرجورو جفاظلم وستم کی انتہاکی گئی اس پر زمین وآسمان نے خون کے آنسو بہائے اورکائنات پر تاریکی چھاگئی۔اس المناک واقعہ سے خود حضور اکرمﷺ کی روح مبارکہ کو جو تکلیف پہنچی ہوگی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا۔ اس ضمن میں بہت سے ایسے واقعات رقم کئے گئے جنہیں پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںمگر ایمان متزلزل نہیں ہوتا۔
انسان کو بیدار توہولینے دو
ہرشخص پکارے گا ہمارے ہیں حسینؓ