اب حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شد و مد سے تذکرہ کیا جا رہا ہے کالم لکھے جا رہے ہیں انڈیا کے ریٹائرڈ جنرل کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم نے جنرل نیازی کو ڈرا دھمکا کر سرنڈر کرنے پر مجبور کیا اس پر تو صرف لاحول ولا پڑھا جا سکتا ہے اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے 50 سال بعد حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کیوں یاد آرہی ہے دوسری جانب غیر ملکیوں کو خطوط لکھے جا رہے ہیں امریکی کانگرس کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی جا رہی ہے یہی لوگ 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد صمم بکم ہو گئے تھے اس وقت دوسری سیاسی جماعتوں کو 2018 کے الیکشن پر شدید اعتراضات تھے لیکن سب منافقت کا لبادہ اوڑھ کر سوئے رہے۔یہ بات تو طے ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کوئی بن سکتا ہے اور نہ ہی مشرقی پاکستان جیسا المیہ ہو سکتا ہے۔
آج 71والے حالات نہیں یہاں سب جاگ رہے ہیں کہ کس کے کیا ارادے ہیں۔ کس ریاست کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ تو انڈیا میں چھپی ہے اور یہاں پر کچھ چند حصے ہی عوام کے سامنے دیے گئے ہیں۔اب یہاں پر تور مروڑ کر صاحب بصیرت کبھی انڈیا میں چھپی ہوئی کتابوں کے اقتباس لے کر ان کا حوالہ دیتے ہیں اور کھبی یہاں دو چار نکات پڑھ کر گڈمڈ کر کے لکھ دیتے ہیں لیکن یہ سب کوششیں اور سازشیں رائیگاں جائیں گی۔ فوج کے خلاف پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔حصول آزادی کی تحریکوں سے جب برطانوی سامراج کی بنیادیں ہلنے لگیں تو ہندو اس خوش فہمی میں انگریزوں کے معاون بن گئے کہ ان کے جانے کے بعد پورے ہندوستان میں رام راج یعنی ہندو حکومت قائم ہوگی ہندووں کے ان عزائم کو اگے بڑھنے سے روکنے کے لیے مسلمان قائدین کو میدان عمل میں نکلنا پڑا اور نہ صرف ان کو بلکہ پوری قوم کو بیک وقت سامراجیوں اور ہندووں کے مقابلے میں بہت نازک مرحلوں سے گزرنا پڑا اور آخر کار ان کی کاوشیں اورقربانیاں حصول پاکستان پر منتج ہوئیں۔
پاکستان کا اساسی نظریہ اسلام ہے اسی نظریے پر مشرقی اور مغربی بازو میں بسنے والے مسلمانوں کا اتحاد تھا۔کسی نظریے پر ایمان رکھنے نے ان کو ایک ملت بنایا تھا۔ دونوں حصوں کہ مسلمانوں کا نعرہ ایک ہی تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔سرزمین پاکستان کے مشرقی بازو میں اغیار نے سازشیں کر کے سادہ لوح عوام میں احساس محرومی کا واویلا کر کے بغاوت پر اکسایا۔آخر کار 14 اگست کو مملکت پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی عظیم مملکت کو 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بنا دیا گیا اسکے تلخ حقائق کو سپرد قلم کرنا نہ صرف بہت مشکل ہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کے برابر ہے۔جب شیخ مجیب نے ہر معاملے میں ہٹ دھرمی دکھائی تو صدر یحییٰ خان نے تین مارچ 1971 کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کر لیا قیوم مسلم لیگ پییلز پارٹی نے مطالبہ کیا کہ اسمبلی سے باہر کوئی فیصلہ کرنے کے بعد اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ شیخ مجیب اسمبلی کے اندر اس لیے فیصلہ کرانا چاہتے تھے کیونکہ اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہونا تھا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صدر یحییٰ خان نے اجلاس ملتوی کر کے پارلیمانی گروپوں کے سربراہوں کو ڈھاکہ میں مذاکرات کی دعوت دی جس کو شیخ مجیب نے ماننے سے انکار کر دیا اور عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی بہاریوں اور ر مغربی پاکستانیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔23 مارچ 1971 کو پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا۔علیحدگی کی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے بغاوت کی صورت اختیار کر گئی جس کو بھارت کی مکمل پشت پنائی حاصل تھی۔ یحیی خان اس خوش فہمی میں تھے کہ شیخ مجیب کو وزیراعظم بنانے سے وہ چھ نکات میں کچھ لچک پیدا کریں گے اور ان کی صدارت کی حمایت کریں گے لیکن اس دوران عوامی لیگ متواتر باغیانہ سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہی۔ اعلی سرکاری افسران اور تاجر پیشہ لوگوں کو ساتھ ملا لیا جنہوں نے بھاری رقوم عوامی لیگ کی خواہش پر خرچ کی۔چیف سیکرٹری گورنر کی بجائے مجیب الرحمن کا حکم مانے لگ گئے۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ ایسٹ بنگال ریفلز۔ فوج اور پولیس نے مل کر اہم مقامات پر کنٹرول حاصل کر کے ہندوستان کی امداد طلب کرنے کا منصوبہ بنایا مگر صدر یحییٰ کو اس منصوبے کا علم ہو گیا اور جنرل ٹکہ خان کو سازش پر قابو پانے کے لیے گورنر بنا کر بھیجا۔جنرل ٹکا خان نے فوجی کاروائی سے جب مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تو مغربی پاکستان کے خلاف مزید رد عمل پیدا ہو گیا اور مرکزی حکومت عوامی حمایت سے محروم ہوتی چلی گئی۔ اس منصوبے کے تحت بھارت نے 50 ہزار گور یلوں پر مشتمل مکتی باہنی قائم کر کے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ادھر بین الاقوامی طور پر عوامی لیگ خود کو مظلوم ظاہر کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر پاکستانی حکمران ان کے مظالم سے دنیا کو اگاہ نہ کر سکے بھارت 1965 کی جنگ میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے تیاری کر رہا تھا اس کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ پاکستان کو دو لخت کر کے بدلہ لے لے اور یہ بدلہ اس نے لے بھی لیا۔
16 دسمبر 1971 کو بھارتی فوجیوں نے ڈھاکہ پر قبضہ کر لیا اور 17 دسمبر 1971 کو صدر یحیی نے حکم پر پاکستانی افواج نے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ آٹھ جنوری کو رات کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے شیخ مجید رحمان کو غیر مشروط طور پر رہا کر کے لندن بھیج دیا گیا جہاں پہنچ کر انہوں نے آزاد جمہوریہ بنگلہ دیش کا اعلان کیا۔اس کے بعد نئی دہلی میں اپنے محسنوں کا شکریہ ادا کر کے بنگلہ دیش پہنچے اور صدارتی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی گو کہ دسمبر 71 میں ہونی ہوئی لیکن اس کے جراثیم بہت پہلے سے موجود تھے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا چرچا
Jul 12, 2024