(اداریہ .... سعید آسی)۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز محکمہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کے لائحہ عمل کی منظوری دے دی گئی جبکہ مختلف وزارتوں کو ختم کرنے اور ذیلی اداروں کو ضم کرنے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی گئی۔ اجلاس میں وزارت ہاﺅسنگ اینڈ ورکس کی سفارش پر پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرنے کا لائحہ عمل طے کیا گیا اور وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کیلئے پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ دیکھ بھال اور مرمت کے کام جاری رکھنے کیلئے ایسٹ اینڈ ویجیلینس مینجمنٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا جائیگا۔ پی ڈبلیو ڈی کے عملے کی درجہ بندی کے بعد متعلقہ وزارتوں میں منتقلی کی جائیگی اور گولڈن شیک ہینڈ سکیم عمل میں لائی جائیگی۔ تمام املاک کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی جائیگی اور ٹرانزیشن کا عمل دو ہفتے کے اندر اندر مکمل کیا جائیگا۔ اجلاس میں حکومتی حجم کم کرنے کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے پیش رفت پر کابینہ کو بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ امور کشمیر و گلگت بلتستان، ریاستوں اور سرحدی امور اور صنعت و پیداوار و قومی صحت کی وزارتوں کے غیرضروری ذیلی اداروں کو بند کرنے اور ضروری اداروں کی رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ عمل 12 جولائی تک مکمل ہو جائیگا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے محرم الحرام میں امن و امان کیلئے وزارت داخلہ اور صوبوں کے ساتھ مربوط رابطہ برقرار رکھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ سکیورٹی معاملات میں تعاون سے قومی اتحاد و یکجہتی کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ معاشی اہداف کے حصول کیلئے شفافیت اور خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ ہمیں معیشت کی سمت درست کرنے کیلئے کڑوے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہونگی۔ انکے بقول ڈاﺅن سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے کام میں سستی اور تاخیری حربے برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ ہمیں چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے میں پیش رفت یقینی بنانا ہوگی۔ ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور ریاستی انتظامی اداروں کے ماضی کے غلط فیصلوں اور انکی بنیاد پر اٹھائے گئے غلط اقدامات کے نتیجہ میں ہی آج ملک کو گورننس‘ توانائی کی پیداوار اور معیشت کے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ عوام خوار ہو رہے ہیں‘ ملک میں بے روزگاری اور بدامنی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ یوٹیلٹی بلوں کے بے مہابا بڑھتے نرخوں نے مزدوروں اور تنخواہ دار طبقات سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ نتیجتاً ان میں منافرت و بے چارگی کے پیدا ہوتے جذبات کسی اتھل پتھل والے طوفان کا پیش خیمہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ آج حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کیلئے عوام کو انکے ذاتی اور قومی معاملات میں مطمئن کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ قدرت نے تو فی الحقیقت اس ارض وطن کو بیش بہا وسائل اور زیرزمین اپنے قیمتی خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے۔ اگر ہماری حکومتی‘ انتظامی مشینری ان وسائل اور قدرت کے خزانوں کو قومی مفادات سے مطابقت رکھنے والی پالیسیوں کے تحت بروئے کار لاتی تو آج نہ صرف ہم اپنی معیشت کو سنبھالنے کیلئے آئی ایم ایف اور قرض دار دوسرے ممالک کے دست نگر نہ ہوتے بلکہ آج ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آبرومندی کے ساتھ کھڑے ہوتے۔
کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ پانی‘ گیس‘ تیل اور کوئلے کے قدرتی وسائل کو بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرکے ہم نہ صرف توانائی کی ملکی ضرورت پوری کر سکتے تھے اور عوام کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ قومی زراعت و صنعت کو بھی پروان چڑھا سکتے تھے بلکہ وافر بجلی‘ تیل، گیس برآمد کرکے قومی خزانے کو بھرنے والا زرمبادلہ بھی کما سکتے تھے۔ مگر ہمارے مفاد پرست اور قومی غیرت و حمیت سے عاری سیاست دانوں اور حکمران طبقات نے نہ صرف قدرتی قومی وسائل کو ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے بروئے کار لانے کی نوبت نہ آنے دی بلکہ ان وسائل کی لوٹ مار میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس مملکت خداداد کی پانچ دریاﺅں کا خزانہ رکھنے والی دھرتی کو اجاڑنے کیلئے ہمارے دشمن بھارت نے ملک میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازشوں کے جال بچھائے اور دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو متنازعہ بنا دیا جبکہ ہمارے منصوبہ سازوں نے ضرورت کے کسی دوسرے بڑے ڈیم کی تعمیر کی نوبت بھی نہ آنے دی۔ نتیجتاً وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کا مصرف بڑھا تو اسکی پیداوار کم ہونے کے باعث ملک میں توانائی کے بحران کا آغاز ہو گیا جو بڑھتے بڑھتے طویل لوڈشیڈنگ تک آپہنچا۔ اسکے باوجود ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ ریاستی انتظامی اداروں کو ہائیڈل پاور پراجیکٹس کو فروغ دینے کی نہ سوجھی اور اسکے برعکس انہوں نے نجی تھرمل پاور کمپنیوں کی خدمات حاصل کرکے تھرمل بجلی کی ترسیل انکے من پسند معاہدوں کے ساتھ انکے حوالے کر دی جنہوں نے ان معاہدوں کے تحت حاصل ہونیوالی اپنی بلیک میلنگ پاور کو بروئے کار لا کر بجلی کی پیداوار بڑھانے میں معاون بننے کے بجائے توانائی کا بحران مزید گھمبیر بنا دیا اور آج ملک اور قوم کو توانائی کے جس سنگین بحران اور عوام کو بجلی کے انتہائی ناروا اور ناقابل برداشت بلوں کا سامنا ہے‘ اس میں انہی تھرمل پاور کمپنیوں کا عمل دخل ہے جو دونوں ہاتھوں سے قومی خزانے کو بھی لوٹ رہی ہیں اور عوام کو زچ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں۔
اگر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہمارے حکمران طبقات کی قومی تعمیر و ترقی کی سوچ ہوتی تو وہ عوام کے حقوق و مفادات اور قومی خزانے کے محافظ بنے ہوتے مگر بدقسمتی سے ان طبقات کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہو سکی اور آوے کا آوا بگڑنے کا ہی کربناک منظر نامہ سامنے آتا رہا ہے۔ چنانچہ انتظامی اور ادارہ جاتی سطح پر بھی کرپشن‘ لوٹ مار‘ اقربا پروری اور اہلیت اور معیار کو پاﺅں تلے روندنے کی رقم ہوتی کہانیوں نے ملک کی معیشت کو ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ملک اور قوم کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر حکمران اشرافیہ طبقات نے کبھی اپنے مفادات و مراعات پر کوئی زد نہیں آنے دی اور آج بجٹ کے ذریعے عوامی اشتعال و منافرت کو بھڑکا کر بھی منتخب ایوانوں میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے عوامی نمائندگان نے اپنی سہولتوں‘ مراعات اور الاﺅنسز کو بیک زبان ہو کر بڑھاوا دیا ہے جبکہ وہ مفلوک الحال عوام سے مزید قربانی دینے کے متقاضی ہیں اور عوامی اضطراب کو بھانپ کر بھی رائٹ سائزنگ کی طرف قدم بڑھانا ان کیلئے مشکل ہو رہا ہے۔ جس گورننس میں ایک ایک محکمے کے تین تین نگران وزیر بنائے جا رہے ہوں اور وزارتوں اور قائمہ کمیٹیوں میں بھی مراعات یافتگان کی بھرمار ہو‘ اس گورننس میں حکومتی اخراجات کم کرنے کی طرف کوئی عملی قدم کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔
اب معیشت کو سنبھالنے کے نام پر منفعت بخش قومی اداروں کو بھی نجکاری کی جانب دھکیل کر اپنے لئے مزید کک بیکس کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور مختلف محکموں کو بند کرنے کی پالیسیاں طے کرکے مہنگائی کے مارے عوام کو بیروزگاری کے عفریت کی جانب بھی دھکیلا جا رہا ہے۔ کیا یہ قومی سطح کا لمحہ فکریہ نہیں کہ قومی معیشت کو نجی تھرمل اور رینٹل کمپنیوں کے شکنجے سے نکالنے کا اب تک کے کسی بھی حکمران کو خیال نہیں آیا حالانکہ اس ایک اقدام سے ہی ملک کے اندھیرے روشنیوں میں بدل سکتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ملک کو آسیب کے سائے سے نکالنا ہے تو اسکی معیشت کو چچوڑنے والی ہر آکاس بیل کو جڑ سے اکھاڑ کر دور پھینکنا ہوگا۔ مضطرب عوام اب اپنی زندگیوں میں بہرصورت آسودگی چاہتے ہیں جو اب کسی نعرے‘ کسی دعوے‘ کسی زبانی جمع خرچ والے حکومتی فیصلے سے ہرگز مطمئن نہیں ہوں گے۔ انہیں حقیقی ریلیف کی مستقل بنیادوں پر ضرورت ہے اور ایسا کوئی عملی اقدام ہی حکومتی گورننس پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔