نجی پاور کمپنیوں اور گردشی قرضے کا گورکھ دھندہ

بجلی کے ناقابل برداشت بلوں سے بلبلائے عوام اب جان چکے ہیں کہ ان پر نازل ہوئے عذاب کا اصل سبب نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے ہیں۔ لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے ان کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران رابطے ہوئے تھے۔ بالآخر چند منصوبوں پر معاہدے ہوگئے۔ وہ معاہدے کسی بھی صورت منصفانہ نہیں تھے۔ حکومت کو مگر ان پر آمادگی کا اظہار کرنا پڑا کیونکہ وہ اپنے تئیں فوری بنیادوں پر بجلی پیداکرنے کا کوئی منصوبہ چلانے کے معاشی اعتبار سے قابل ہی نہیں تھی۔
منافع خور سرمایہ کاروں کو بجلی پیدا کرنے کو مائل کرنے کے لئے فیصلہ ہوا کہ ان کے لگائے کارخانوں کو ان کی (Capacity)کے مطابق قیمت ادا کی جائے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر وہ سو یونٹ روزانہ پیدا کرنے کی صلاحیت /قوت کے حامل ہیں تو حکومت چاہے ان سے پچاس یونٹ ہی خریدے تب بھی سرمایہ کار کو سو یونٹ کی قیمت ادا کی جائے گی۔ بات فقط یہاں تک محدود رہتی تو شاید ہم کسی حد تک محفوظ رہتے۔ وعدہ یہ بھی ہوا کہ نجی شعبے میں بجلی پید کرنے والوں کو ان کے فراہم کردہ یونٹوں کی قیمت امریکی ڈالروں میں ادا ہوگی۔
نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو شدید تنقید کی لپیٹ میں رکھا۔ غلام اسحاق خان نے اسے برطرف کرتے ہوئے کرپشن کے جو الزامات گنوائے ان میں یہ معاملہ بھی نمایاں رہا۔ بعدازاں نئے انتخابات کے تحت نواز شریف ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹے تو ان کے چہیتے محتسب -سیف الرحمن- نے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کی زندگیاں اجیرن بنادیں۔ کئی نامور صنعت کار گھرانوں کے فرزند احتساب کے شکنجے سے گزارے گئے۔ ان میں سے کوئی ایک شخص بھی لیکن یہ بیان دینے کو آمادہ نہ ہوا کہ اس نے فلاں حکومتی شخصیت کو اپنے لگائے منصوبے پر رضا مندکرنے کے لئے اتنی رقم بطور کمیشن ادا کی تھی۔ یہ بات سمجھنے میں نواز شریف جیسے کاروباری شخص کے مشیروں کو بہت دیر لگی کہ پیداواری صلاحیت- کھپت نہیں- کی امریکی ڈالروں میں ادائیگی قابل رشک ترغیب تھی۔ اس کے ہوتے ہوئے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کو حکومت کے ناز نخرے اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ حکومت بلکہ بذات خود بجلی کی کمی سے حواس باختہ ہوئی ان کے منت ترلے کرنے کو مجبوری تھی۔
بحث کی خاطر مگر تسلیم کرلیتے ہیں کہ بے نظیر حکومت کے دوران نجی شعبے کو بجلی پیدا کرنے کی جانب راغب کرنا ایک ناقص فیصلہ تھا۔ یہ تسلیم کرلینے کے بعد سوال مگر یہ بھی اٹھانا لازمی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کے بعد آئی حکومتوں نے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کیوں جاری رکھی۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب میں آج تک نہیں ڈھونڈ سکا۔ نجی شعبے میں بجلی کے کارخانے لگتے چلے گئے اور بالآخر وہ مقام آگیا کہ ہماری سرکار ان کے واجبات ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہی۔ گردشی قرضے کا پہاڑ کھڑا ہونا شروع ہوگیا۔
گردشی قرضے کا یہ پہاڑہی2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو غارت کرنے کا اصل سبب تھا۔ اس کی حکومت 2011ء سے 2013ء تک نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کو بروقت ادائیگی کے قابل نہ رہی تو ملک بھر کے ہر بڑے شہر اور قصبے میں لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے زندگی کو اجیرن اور کاروبار کو ٹھپ کرنے لگے۔ اسی باعث 2013ء میں تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کے بعد نواز شریف نے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اپنی اولیں ترجیح ٹھہرایا۔ اسے ختم کرنے کو ڈٹ گئے۔
لوڈشیڈنگ سے نجات کی خاطر چین کے ساتھ سی پیک معاہدے کے بعد بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کو سرگرم توجہ کا مرکز بنایا گیا۔ چینی سرمایہ کار بجلی پیدا کرنے کی جانب مائل ہوئے تو برق رفتاری سے بالآخر لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی۔ لوڈشیڈنگ سے نجات نے مگر ہمیں ایک اور عذاب کی جانب دھکیلنا شروع کردیا۔ نام ہے اس کا گردشی قرضہ جس کی ادائیگی کے لئے تقریباََ ہر مہینے ہمارے گھروں میں آئے بجلی کے بل گراں سے گرانقدر ہورہے ہیں۔ عوام کے دلوں میں لہٰذا بتدریج یہ خواہش جاگزیں ہورہی ہے کہ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہوئے منصوبوں کا ’’حقیقی جائزہ‘‘ لیا جائے۔ا س ضمن میں کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل بجلی پیدا کرنے والوں کو اس امر پر آمادہ کیا جائے کہ وہ حکومت کے ذمے واجب قرضے کو طویل المدت بنیاد پر ہوئے معاہدے کے تحت اقساط میں وصول کریں تاکہ صارفین بجلی کے بلوں کے حوالے سے تھوڑا ریلیف محسوس کریں۔
کاروباری دنیا میں بے بس ولاچار عوام کی خواہشات مگر سودمند ثابت نہیں ہوتیں۔ پاکستان جیسے ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کے محتاج ہیں۔ نجی شعبے میں پیدا ہوئی بجلی کی اپنی مرضی کی قیمت امریکی ڈالروں میں وصول کرنے کے عادی سرمایہ کاروں پر ہاتھ ڈالا گیا تو غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو نظرانداز کرنا شروع ہوجائیں گے۔
معاملہ اگر چند نجی سرمایہ کاروں تک محدود رہتا تو شاید ہم صبر کے گھونٹ پی لیتے۔ بدقسمتی سے بجلی کے بلوں کی صورت نازل ہوئے عذاب کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ابلتا غصہ اب پاکستان کے ’’دیرینہ ترین دوست- عوامی جمہوریہ چین- کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں گہری دراڑ ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے۔ہمارے میڈیا میں بتدریج ایسے مضامین شائع ہورہے ہیں جو یہ پیغام اجاگر کررہے ہیں کہ بجلی کی قیمت کے حوالے سے پہاڑ کی صورت اختیار کرتے گردشی قرضے کا سب سے بڑا حصہ چین کو ادا کرنا ہے۔
میرے لئے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ پاک چین دوستی کو زک پہنچانے کیلئے کوئی ’’سازش ہورہی ہے۔ یہ خواہش اگرچہ بہت تیزی سے عوام کے وسیع تر حلقوں میں اْکسائی جارہی ہے کہ پاکستان کو چین سے نہایت سنجیدہ انداز میں رجوع کرنا چاہیے۔ چینی قیادت سے درخواست ہوکہ وہ خود کو پاکستان کا ’’حقیقی دوست‘‘ ثابت کرنے کیلئے چینی سرمایہ کاروں میں سے بجلی پیدا کرنے والوں کو واجب قرضہ سرکاری طورپر ادا کردے اور بعدازاں انہیں ادا کردہ رقم کو پاکستان سے آسان اقساط میں وصول کرتی رہے۔ جو خواہش فطری طورپر ابھری یا سازشی نیت سے پاکستانی عوام کے دلوں میں ابھاری جارہی ہے وہ نظر بظاہر سادہ اور قابل عمل نظر آتی ہے۔ اس پر عمل ہو یا نہیں پاک-چین دوستی کے دشمن اور نقاد ہمارے عوام کی اکثریت کے دلوں میں یہ تاثر جاگزیں کرنے میں خوفناک حد تک کامیاب ہوچکے ہیں کہ بجلی کے بلوں کی صورت ان پر نازل ہوئے عذاب کا اصل سبب کوئی غیر نہیں بلکہ ہمارا یار عوامی جمہوریہ چین ہے۔

ای پیپر دی نیشن