لاہور (کلچرل رپورٹر + خصوصی نامہ نگار) میڈیا کو آزاد ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ اسے ذمہ دار بھی ہونا چاہئے‘ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے‘ ان حالات میں غیر ذمہ دارانہ صحافت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے‘ ہمارے میڈیا کو ضابطہ اخلاق بنا لینا چاہئے‘ آج اس صحافت کی ضرورت ہے جو مولانا ظفر علی خان نے کی‘ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے دل سے خوف نکالا اور دشمن کے دلوں میں ڈال دیا‘ اگر وہ ہمارے دلوں سے خوف نہ نکالتے تو شاید پاکستان نہ بنتا‘ انہوں نے دلیرانہ اور ذمہ دارانہ صحافت کو عام کیا۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اور مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیر اہتمام تحریک پاکستان اور مولانا ظفر علی خان کی خدمات کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں کیا‘ صدارت سابق وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر نے کی۔ مہمانان خصوصی میں ماہر عالمی امور بیرسٹر مواحد حسین سید اور ڈین سپیریئر یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر مغیث الدین شیخ تھے۔ مقررین میں سیکرٹری جنرل مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ راجہ اسد علی خان‘ ترک سکالر کرتاش اور ماہر تعلیم ڈاکٹر راشدہ قریشی تھے۔ نظامت کے فرائض ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے انجام دئیے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان نے جرا¿ت مندانہ صحافت کی‘ آج کے میڈیا کو مولانا ظفر علی خان کے اسلوب کو اپنانا چاہئے‘ آج میڈیا میں ذمہ داری کا فقدان ہے‘ امریکہ افغانستان سے جلد نکلنے والا ہے‘ اس وقت ہمارے اہم اداروں افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کا بہت اہم رول ہو گا اس لئے ہمیں اپنے ان اہم اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا‘ ہمیں اداروں پر تنقید کی بجائے ذمہ دار افراد کو ٹارگٹ کرنا چاہئے۔ مواحد حسین سید نے کہا کہ آج 57 مسلم ممالک ہیں ان کے پاس بے تحاشہ دولت ہے لیکن ان میں دم خم نہیں‘ آج ہمارے ملک کا سربراہ ٹھیک نہیں تو ملکی حالات کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں‘ اگر ہم نے مولانا ظفر علی خان کے ورثے کو عام کرنا ہے تو ہمیں پڑھنے لکھنے کے علاوہ نئے آئیڈیاز پر کام کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے کہا کہ ہمارے اندر خدا کا خوف نہیں بلکہ امریکہ اور بھارت کا خوف ہے‘ کراچی کے واقعہ پر سب کو افسوس ہے لیکن اسے بار بار نہیں دکھانا چاہئے تھا‘ اس سے دنیا میں ہمارے اداروں کی بدنامی ہو رہی ہے‘ سول سوسائٹی کے نام نہاد دانشور نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ راجہ اسد علی خان نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار ”زمیندار“ کے ذریعے مسلمانوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ترک سکالر کرتاش نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان ایک عظیم مفکر‘ ادیب‘ سکالر‘ لیڈر اور صحافی تھے‘ ترک قوم کے لئے تحریک خلافت کے دوران ان کی خدمات کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں‘ مولانا ظفر علی خان مسلم اقوام کا عظیم سرمایہ تھے۔ ڈاکٹر راشدہ قریشی نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کے خلاف سازشوں کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ ابصار عبدالعلی نے کہا کہ آج ہم جب صحافت میں جس آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں اس کی داغ بیل تو سر سید احمد خان نے ڈال دی تھی لیکن مولانا ظفر علی خان نے جس نڈر اور بے باک انداز میں مصلحت اور نتائج کو خاطر میں لائے بغیر اس پر عمل کیا اور اسے صحافت کی پہچان بنایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب مجید نظامی اور نوائے وقت ویسی ہی اکائی ہیں جیسی مولانا ظفر علی خان اور زمیندار کی اکائی تھی‘ مشن جاری ہے مگر مشن کا ہدف بدل گیا ہے‘ اب پاکستان کو مفاد پرستوں‘ لٹیروں اور غیر ملکی آقا¶ں کے شکنجے سے نکال کر پاکستان کی تعمیر و تزئین کی راہ پر لانا ہے‘ ہم یہ ہدف ضرور حاصل کریں گے۔
سیمینار / ظفر علی خان
سیمینار / ظفر علی خان