سپریم کورٹ میں ملک ریاض کی طرف سے جمع کرائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینا غیر قانونی ہے ،ارسلان افتخار نے فراڈ اور بدعنوانی کی جو نیب قانون کے زمرے میں آتی ہے۔

ملک ریاض کی جانب سے بیاسی صفحات پر مشتمل تحریری بیان سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا
جس کے ساتھ شواہد،تصاویر، رسیدیں اور اہم دستاویزات منسلک کی گئی ہیں۔ بیان کے مطابق ڈاکٹر ارسلان اور ان کی فیملی نے پہلا دورہ دوہزار دس میں لندن کا کیا جس پر اٹھاسی لاکھ ساٹھ ہزار پانچ سو اناسی روپے خرچ آیا ارسلان نے پچیس سے انتیس جولائی دوہزار دس کو ہوٹل ڈی پیرس میں قیام کیا ارسلان کو مونٹی کارلو اسٹیٹ میں اعزازی مہمان کا درجہ دیا گیا ہوٹل میں قیام کے اخراجات کی دائیگی سلمان احمد کے بینک اکاؤنٹ سے کی گئی۔ لندن کے دوسرے دورے پر انسٹھ لاکھ سینتالیس ہزار سات سو چھبیس روپے خرچ کیے
ارسلان نے لندن ہلٹن کے کمرہ چوبیس سو تیرہ میں پچیس مارچ سے تین اپریل دوہزار گیارہ تک قیام کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ارسلان کو مختلف اقساط میں نقد بتیس کروڑ ستر لاکھ روپے ادا کئے گئے
ڈاکٹر ارسلان فراڈ اور بدعنوانی کے مرتکب ہیں جو نیب قانون کے زمرے میں آتا ہے ارسلان افتخار نے اپنا جرم چھپانے کے لیے جھوٹے اور گمراہ کن الزامات لگائے ملک ریاض کے مطابق سلمان احمد ان کا داماد ہے جس کا تعارف ارسلان افتخار سےاحمد خلیل نے کرایا۔ بیان کے مطابق ارسلان افتخار نے ان کے داماد کو بلیک میل کرکے رقم ہتھیائی اور چیف جسٹس کا بیٹا ہونے کی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا، ارسلان افتخار نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ سپریم کوٹ میں لگے بحریہ ٹاؤن کے کیسز میں ریلیف دلائیں گے لیکن وعدوں کے باوجود انہیں عدالت سے کسی کیس میں ریلیف نہیں ملا ملک ریاض نے اپنے بیان میں قانونی اعتراضات بھی اٹھائے ملک ریاض کے مطابق کیس سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوا اس لیے ازخود نوٹس لینا غیر قانونی ہے۔ تین ججز نے پہلے کیس سنا مزید سماعت اس سے کم تعدادوالے بینچ میں نہیں ہونی چاہییے معاملےمیں صدر، وزیراعظم،کوئی سیاسی شخصیت، جماعت اور ایجنسی ملوث نہیں عدلیہ اور اس کے ججوں کا مکمل احترام کرتا ہوں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ معاملے کو منظرعام پر لانے کا مقصد سپریم کورٹ کی توہین نہیں بلکہ بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے تفصیلات منظرعام پر لائے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن