اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + آن لائن) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجلی کا 500 ارب روپے گردشی قرض 60 روز یں ادا کردیا جائیگا (گردشی قرض اس رقم کو کہتے ہیں جو حکومت نے تیل بیچنے اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادا کرنی ہے) بجٹ مےں عوام پر کم سے کم بو جھ ڈالنے کی کوشش کرےں گے۔ بوجھ ڈالا بھی گےا تو بڑے لوگوں پر ہو گا، سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں میں پیشہ وارانہ اہلیت کی حامل انتظامیہ لائی جائیگی۔ سرمایہ کاروں کیلئے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائیگا۔ ہم شفاف رہیں گے اور احتساب کے لئے تیار ہوں گے۔ معیشت کی بحالی اور توانائی بحران کا خاتمہ ترجیحات ہیں۔کوئی ملک جی ڈی پی کے حساب سے آٹھ اعشاریہ نو فیصد ٹیکس کی شرح لیکر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پرانے قرضے چکانے کیلے آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ ملک کے ذمہ قرضوں کا بوجھ چودہ ہزار بلین روپے ہو چکا ہے جو کہ جی ڈی پی کے 62 فیصد کے مساوی ہے۔ یہ بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے برائے سال 2012-13ءکے اجرا کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔ اسحاق ڈار نے کہا رواں مالی سال 2012-13ءکے دوران زیادہ تر معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 4.3 مقرر کیا گیا جو 3.6 فیصد تک حاصل ہوا ہے۔ ایف بی آر کے ریونیو میں 350 ارب روپے کا شارٹ فال آئیگا۔ اےف بی آر رےونےو کا ہدف 2381 ارب روپے تھا جو حاصل نہےں ہو سکا فارن انفلوز کا ہدف 1.8 ارب ڈالر تھا جس مےں صرف 800 ملےن ڈالر آئے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 4.7 فےصد تھا جو کہ بہت زےادہ بڑا ہے اس بات کا خدشہ ہے کہ 30 جون تک 8.5 فےصد ہوجائیگا۔ وزےر خزانہ نے کہا کہ جی ڈی پی گروتھ کے لئے مائےکرو اکنامک چےلجنز ہےں اور عسکرےت پسندی کا مسلہ اس کے علاوہ ہے، ہمےں سٹرکچرل رےفارمز کرنا ہوں گے، معشےت کو درست راستے پر لانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو 3 فےصد رہی ہے جس ملک مےں آبادی 2.1 فےصد کی شرح سے سالانہ سے بڑھ رہی ہو اس مےں ےہ شرح نمو بہت ناکافی ہے، ملک مےں بےروزگاری اور غربت کے جو حالات نظر آتے ہےں اس کی وجہ بھی ےہی عناصر ہےں مسلم لےگ (ن) کی حکومت جی ڈی پی گروتھ بڑھا نے کیلئے قلےل، درمےانی اور طوےل المیعاد منصوبوں کیلئے کام کریگی۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کی شرح نمو بھی حاصل نہےں ہو سکی ہے، ہدف 4.1 فےصد تھا جو 3.1 فےصد حاصل ہوا ہے سروسز مےں ہدف 4.3 تھا حاصل 3.7 فےصد ہے سرماےہ کاری کاہدف 13.3 فےصد تھا جو 12.6 فےصد رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک مےں گذشتہ کئی سال سے بےروزگاری کا سروے نہےں ہوا ہے۔ 2010-11ءکے سروے کے مطابق بےروزگاری کی شرح 6 فےصد ہے وہ اس پر ےقےن نہےں رکھتے ہےں کےونکہ دو سال مےں حالات مخدوش ہوئے ہےں، توانائی اور لوڈشےڈنگ کی صورتحال سب کے سامنے ہے اور اس کی وجہ سے جی ڈی پی کا 2 فیصد ہر سال نقصان ہورہا ہے۔ وزےراعظم نوازشرےف کی نگرانی مےں توانائی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے کام کر رہے ہےں۔ اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا گذشتہ مالی سال 2012-13ءکے دوران ترقی کا کوئی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ مالداروں سے درخواست ہے کہ وہ خوشی سے ٹیکس ادا کریں اس سے ہی نیا پاکستان بنے گا۔ ٹیکس چوری روکنے کیلئے بجٹ میں سخت اقدامات کرینگے، اگر کوئی چاہے گا تو پھر بھی چوری نہیں کر سکے گا، قومی بچت کو فروغ دینگے، بجلی کی قیمت میں فوری طور پر چھ روپے یونٹ اضافہ نہیں کر سکتے، مرحلہ وار ایسا کرنا ہوگا لیکن عوام کو بتا کر کرینگے۔ گذشتہ حکومت کے دوران قرضوں میں ساڑھے سات ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، دہشت گردی کے نتیجے میں 80 سے 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے حقیقی اعداد و شمار نہ ہونے کے باعث اسے اقتصادی سروے میں شامل نہیں کیا۔ شماریات بیورو کو مکمل طور پر خودمختار بنائیں گے، پرانے قرضے ادا کرنے کیلئے نئے قرضے لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ منگل کو یہاں منصوبہ بندی کمشن کے آڈیٹوریم میں مالی سال 2012-13ءکا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالی نظم وضبط کے قانون کے تحت ملکی قرضہ جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زائد نہیں ہو سکتا لیکن گذشتہ حکومت کے پانچ سالوں کے دوران یہ قرضہ 62 فیصد تک پہنچ گیا جو اس قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اعداد و شمار تبدیل نہیں کرینگے اور اخراجات کو کنٹرول کیا جائیگا۔ آئندہ سال ترقی کی شرح 4.4 فیصد رکھیں گے اور اس کے بعد اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا، افراط زر 8 فیصد ہے اسے بھی کنٹرول کرینگے، اس مقصد کیلئے مالیاتی پالیسی سخت بنائی جائیگی ہم نے ماضی میں بھی سیمنٹ انڈسٹری کے حوالے سے جارحانہ اقدامات کئے تھے اور اب بھی کرینگے۔ مالیاتی خسارہ تین سالوں میں 4.5 فیصد سے نیچے لائینگے اور اسے اگلے سال ہی 2.5 فیصد تک لے آئینگے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے سب کو خوشی سے ٹیکس ادا کرنا ہونگے وزیراعظم محمد نوازشریف کی ہدایت پر ہم اخراجات میں 30 فیصد کمی کر رہے ہیں صرف اخراجات میں کمی سے کچھ نہیں ہو گا، نیا پاکستان بنانے کیلئے محصولات بھی بڑھانا ہونگی۔ اس مقصد کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لائینگے، ایف بی آر میں ایسا سسٹم لائینگے جس سے کوئی چاہے بھی تو ٹیکس چوری نہیں کر سکے گا ہم آئین، قانون اور رولز آف بزنس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرینگے اور تمام کام میرٹ پر ہو گا، سرمایہ کاروں کو ون ونڈو سہولت فراہم کی جائیگی کیونکہ آج سرمایہ کار ملک میں غیر یقینی صورتحال اور پانچ سو ارب سے زائد گردشی قرضے کے باعث سرمایہ نہیں لگاتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں ادائیگیاں ہی نہیں ہوئیں تو سرمایہ کاری کس لئے کی جائے۔ وزیراعظم نے نوازشریف نے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کا فیصلہ کیا ہے اس لئے ہمیں اپنے اخراجات کو کنٹرول اور وسائل کو بڑھانا ہو گا، قومی بچت کو فروغ دینگے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریلوے، پی آئی اے اور بجلی کمپنیوں سمیت دیگر اداروں میں اشتہارات کے ذریعے میرٹ پر تقرریاں ہونگی، ہم ایماندار اور ماہر لوگ لانا چاہتے ہیں صرف ایمانداری یا صرف مہارت سے ہی کام نہیں چلتا دونوں خصوصیات ضروری ہیں، ہم اداروں کے نقصانات ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان پر اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے اپنے پچھلے دور میں بھی سٹیٹ بنک اور دیگر اداروں کو خودمختار بنایا تھا اور اب شماریات بیورو کو خودمختار بنائینگے تاکہ وہ آزادی سے حقیقی اعداد و شمار جاری کر سکیں۔ اس حوالے سے اپوزیشن کے طور پر ہم نے قانون سازی کیلئے اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن قانون پر م¶ثر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہم قانون پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے اس ادارے کو مکمل طور پر آزاد بنائینگے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹیکس اور جی ڈی پی کے درمیان تناسب 8.9 فیصد ہے جو شرمناک ہے ہمارے دور میں یہ شرح 14 فیصد تھی اگر اسے برقرار رکھا جاتا تو آج ترقیاتی کام 360 کی بجائے 1460 ارب روپے کا ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے 2008ءمیں اپنے ارکان اسمبلی سے ججوں کی بحالی کیلئے جدوجہد کا حلف لیا تھا اور اب کرپشن کے خاتمے کا حلف لیا ہے تمام وزرا اور مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ کرپشن کیخلاف اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں جادوگر نہیں لیکن یقین دلاتا ہوں کہ نوازشریف کی طرف سے انتخابی مہم اور اس کے بعد قوم سے کئے گئے تمام وعدے پورے کرونگا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سال اور آئندہ سال بھاری قرضے ادا کرنا ہیں جن کی قسطیں ہم پر واجب الادا ہو چکی ہیں، سابقہ حکومت کے دور میں بھاری قرضے لئے گئے مگر خزانے میں کچھ نہیں چھوڑا گیا، پرانے قرضے ادا کرنے کیلئے اگر نئے قرضے لینا پڑیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت کے آنے سے قبل قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا جس میں پانچ سال کے دوران مزید ساڑھے سات ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت گردشی قرضہ ادا کرنے کیلئے بجلی کی قیمت میں چھ روپے یونٹ کا اضافہ کریگی تو انہوں نے کہا کہ حکومت عوام پر ایک ہی وقت میں بوجھ نہیں ڈال سکتی ہمیں انکم سپورٹ پروگرام سمیت دیگر غرباءکا خیال رکھنا ہو گا یہ کام مرحلہ وار ہو سکتا ہے لیکن ہم جو بھی کرینگے عوام کو بتا کر کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ سرکلر ڈیٹ کو روکنے کیلئے بھی سخت اقدامات کئے جائینگے، دہشت گردی کیخلاف جنگ سے پاکستان کو پہنچنے والے اقتصادی نقصان کے حجم کے بارے میں سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ وزارت کے لوگ چاہتے تھے کہ ہم اقتصادی سروے میں اس نقصان کی مالیت 125 ارب ڈالر بتائیں لیکن میں نے کہا کہ ہم کسی کو بیوقوف نہیں بنانا چاہتے ایک ہفتے پہلے صدر 80 ارب ڈالر کا ذکر کر رہے تھے اب اس میں فوری اتنا اضافہ کردیا جائے اسلئے ہم نے اسے سروے میں شامل نہیں کیا تاہم وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 سے 100 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت بننے سے قبل میں اپنی پارٹی کی طرف سے وزارت خزانہ اور ایف بی آئی کی جانب سے رابطے میں تھا اور ہم نے گذشتہ چار روز کے دوران بھی سخت محنت کی ہے میں اور میرا عملہ راتوں کو بھی نہیں سوئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کا بوجھ بڑے لوگوں پر ڈالا جائیگا اور عوام سے کیا گیا ایک ایک وعدہ پورا کرینگے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 14000 ٹیکسوں کے ہدف میں 350 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ مہنگائی کی شرح 9.5 فیصد رہے گی، معیشت کو ٹریک پر لانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ شدت پسندی کیخلاف جنگ نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا جس کا اندازہ 100 ارب ڈالر تک ہے تاہم اس سال کے صحیح اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے اسے اقتصادی سروے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
اسلام آباد (نمائند خصو صی) اقتصادی سروے برائے سال2012-2013ءمےں بتاےا گےا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو دشوارےوں کا سامنا رہا جےسے کہ توانائی کی صورت حال اور دےگر وجوہات کی بنا پر پاکستان مےں سرماےہ کاری شرح نمو دباﺅ مےں رہی، ملک کی جی ڈی پی کا حجم 7716ارب روپے ہو گےا، زرعی شعبہ جی ڈی پی کا 21.4فےصد رہی، زرعی شبعہ کی کارکردگی موسمی حالات کی وجہ سے کم رہی ،کپاس اور چاول کی پےداوار گر گئی، شبعہ تعمےرات مےں شرح نمو 5.2فےصد رہی، چنا کی پےدوار 673ہزار ٹن ہوئی، مرچ کی پےدوار مےں 218فےصد، آلو11 فےصد، مسورکی پےدوار 11.8فےصد اضافہ ہوا۔ زرعی قرضوں کی فراہمی مےں 17فےصد اضافہ ہوا، رواں سال کے دوران 231ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے اس مےں سے 123 ارب روپے کے قرضے تجارتی بنکوں اور 38ارب روپ کے قرضے زرعی بنک نے دئےے، خرےف کی فصل کے لئے پانی کی کمی 14فےصد کم رہی، صنعت اور کان کنی کے شعبہ مےں کاغذ اور گتے کی پےداوار مےں 21.97فےصد اور سٹےل کی پےدوار مےں13.2فےصد اضافہ ہوا، سےمنٹ کی پےدوار 6.08فےصد بڑھی، اےف بی آر نے مالی سال کے پہلے 10ماہ مےں 1505 ارب روپے رےونےو حاصل کےا۔ انکم ٹےکس کی مد مےں 553ارب روپے حاصل ہوئے۔ رواں مالی سال مےں سی پی آئی 5.8فےصد اوا اےس پی آئے 6.6فےصد رہا، سال کے دوران ٹماٹر اور چےنی کی قےمت مےں کمی واقع ہوئی۔ جولائی سے اپرےل کے عرصے مےں ملک نے20.1 بلےن ڈالر کی برآمدات کی، تجارتی خسارے مےں اس سال بہتری آئی اور ےہ خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے مےں 2.5فےصد کم ہوا۔ ملک کے ذمہ بےرونی قرضے 4831ارب روپے ہو گئے، مالی سال کے پہلے 9ماہ مےں 5.3ارب ڈالر قرضوں کی ادائےگی مےں خرچ ہوئے جس مےں سے 3.9ارب ڈالر اصل زر کی مد مےں ادا ہوئے، ملک مےں شرح خواندگی 58فےصد ہے، مردوں مےں شرح خواندگی عورتوں سے زےادہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان مےں تعلےمی اندراج مےں کمی آئی ہے۔ ملک مےں40.1ملےن بچے سکول جا رہے ہےں، ملک مےں صحت کے شبعہ مےں 1207ہسپتال ہےں اور 5382 ڈسپنسرےاں ہےں ، 160289 ڈاکٹر اور 12544 دانددان ساز اور 82199 نرسےں ہےں،1127 افراد کے لے اےک ڈاکٹر ہے، ملک مےں کل آبادی کا تخمےنہ 184.35ملےن ہے، عورتوں کی اوسط عمر66.5 اور مردوں کی اوسط عمر 64.6ہے۔ پنجاب مےں بےروزگار افراد کی تعداد1.94ملےن سے بڑھ کر 2.1ملےن ہو گئی۔ ملک مےں 263415کلومےٹر سڑکےں ہےں 2کروڑ دس لاکھ گاڑےاں ہے، رےلوے لاےن 7791 کلومےٹر ہے، اقتصادی سروے مےں تسلےم کےا گےا ہے کہ رےلوے بدترےن بحران سے گزر رہی ہے،2012مےں 8انجن اور92مسا فروں کی بوگےاں تھی، موبائل فون کی سروس ملک کے تقرےباً92 فےصد حصہ مےں پہنچ گئی ،گےس کی پےداوار1559ملےن کےوبک فٹ رہی، بجلی کے صارفےن کی تعداد21.70ملےن ہو گئی۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + اے پی اے) آئندہ مالی سال 2013-14ءکے لئے 1600 بلین روپے سے زائد خسارہ کے حامل 34 کھرب کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کر دیا جائےگا۔ چند روز قبل قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے یہ پہلا وفاقی بجٹ ہو گا جس میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے بڑے اقدامات کی توقع نہیں کی جا رہی ہے جبکہ سنگین معاشی حالات‘ بجٹ خسارہ کو قابو میں رکھنے اور مالیاتی نظم و ضبط قائم کرنے کے لئے متعدد ٹیکس اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ گاڑیوں‘ سگریٹ پر ٹیکس بڑھنے سیلز ٹیکس میں متعدد ایگزامشنز ختم کر دی جائیں گی۔ زیرو ریٹ کی سہولت سے استفادہ کرنے والے متعدد سیکٹرز کو معمول کی ٹیکس‘ جیم کے تحت لایا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار‘ قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر میں بجٹ کے نمایاں خدوخال بیان کریں گے جبکہ اس روز شام کو بجٹ سینٹ میں بھی پیش کر دیا جائے گا۔ بجٹ میں پنشنرز کو زیادہ ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے، پنشنرز کی پنشن میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہوں میں اضافہ کی متعدد تجاویز کابینہ کو پیش کی جائیں گی جن میں کہا گیا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 7 فیصد سے 15 فیصد تک بڑھائی جائیں تاہم اس سلسلہ میں حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ بجٹ میں خسارہ کا تخمینہ 1.62 ٹریلین لگایا گیا ہے جبکہ ترقیاتی مقاصد کے لئے وفاق نے 540 بلین روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لئے کنوینس الا¶نس میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بجٹ میں ریونیو بڑھانے کے لئے متعدد اقدامات کئے جانے کی تجاویز ہیں۔ ان میں صدر‘ سپریم کورٹ‘ ہائی کورٹ کے جج صاحبان‘ مسلح افواج کے سربراہوں کو ادا کئے جانے والے الا¶نسز پر ٹیکس کا استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ پائلٹس اور فلائٹ انجینئرز کو الا¶نسز پر حاصل ٹیکس استثنیٰ بھی ختم کرنے کی تجویز ہے۔ انعامی بانڈز پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ شادی ہالز‘ ہوٹلز پر 5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ تنخواہ دار افراد کے لئے انکم ٹیکس کی سلیب 6 سے بڑھا کر 11 کر دی جائے گی۔ گاڑیوں کی بکنگ پر 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ سیلز ٹیکس میں مختلف سیکٹرز کو زیرو ریٹ کی سہولت ہے بجٹ میں ختم کیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر ریونیو کا ہدف 2650 بلین روپے سے زائد مقرر کیا جائے گا جبکہ جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 4.4 فیصد مقرر کیا جا رہا ہے۔ 278 بلین روپے سروس ڈیلیوری کی مد میں مختص کئے جا رہے ہیں، بجلی اور دوسری مدات میں سبسٹڈیز کی فراہمی کے لئے 364 بلین روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ صوبوں کو فراہم کی جانےوالی گرانٹس رواں مالی سال میں 57 بلین روپے رہی ہیں، آئندہ مالی سال میں 54 بلین روپے رکھے جا رہے ہیں نان ٹیکس ریونیو کی مد میں ہدف 689 بلین روپے مقرر کیا جا رہا ہے۔ ویلتھ ٹیکس کے نفاذ کی تجویز ہے جبکہ ”فردر ٹیکس“ کے نام سے بھی ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ 2013-14ءمیں زرمبادلہ کے ذخائر 5.2 بلین ڈالر رہنے کی توقع ہے جبکہ ترسیلات کا ہدف 15.5 بلین ڈالر مقرر کیا جا رہا ہے۔ اے پی اے کے مطابق نئے بجٹ میں شادی ہالوں اور ہوٹلوں میں ہونے والی تقاریب کےبلوں پر پانچ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس، جائیداد کے کرائے کی آمدنی پر پانچ سے پندرہ فیصد تک ٹیکس لگانے کی تجویز تیارکی گئی ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس کے سلیب پانچ سے بڑھا کر گیارہ کرنے کی تجویز بجٹ میں شامل ہو سکتی ہے۔ غیر رجسٹرڈ افراد پر دو فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کی بھی تجویز ہے۔ ایک ہزار یونٹ سے زائد بجلی کے استعمال پر بھی دس فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق دفاع کے لئے آئندہ مالی سال 627 ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کیلئے پانچ سو چالیس ارب روپے مختص کرنے کی توقع ہے۔ بجٹ میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کا تخمینہ 475 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کےلئے گیارہ کھرب انچاس ارب روپے رکھے جائیں گے جبکہ رواں مالی سال دس کھرب اٹھائیس ارب روپے تھے۔