تمام موجدین جنت میں جائیں گے۔ حضرت نور محمد مہاروی کا یہ قول پڑھتے ہوئے جیسے میرے معدے میں تیزابیت بڑھ گئی، اور میں ذہنی خلفشار میں مبتلا ہو گیا۔ جنت تو مسلمانوں کی بلاشرکتِ غیر وراثت ہے۔ اگر اس میں بھی کم بخت کافر موجدین نے ہی جانا ہے۔ تو پھر ہم اپنی نوجوان نسل کو کس جنت کے لالچ میں ڈال کر اُنکے نوخیز جسموں کے چیتھڑے اُڑا رہے ہیں۔ ہم مسلمان تو مرمر کر جیتے ہی حوروں کی آس پر ہیں۔ اس جہان میں بھلے ہی ذلیل و خوار سہی اگلے جہان میں جنت کے مزے فقط ہمارے لئے مخصوص ہیں۔ سُو تحقیق، محنت اور ایجادات جیسے شوقِ فضول ہم نے غیروں کے حوالے ہی کر رکھے ہیں۔ وہ واشنگٹن میں بیٹھ کر بچوں کے ویڈیو کے ماﺅس گھما کر ڈرون کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے پر موت برسا سکتا ہے۔ ہماری پورے سال کی اُگائی ہوئی گندم کے پتے ”ایف 18“ فروخت ضرور کرتا ہے۔ لیکن اس کا ”چور سوئچ“ اپنے پاس رکھتا ہے تاکہ وہ اُگے بھی تو اُسکی مرضی سے اور وہ جب چاہے اِسے دُکان پر بکنے والا کھلونا بنا دے۔ ہم اپنی داڑھی کا خضاب اور دانتوں کا خلال تک بھی امریکی اور یورپی کمپنیوں کا خریدتے ہیں۔ کافروں کی بنائی ہوئی گھڑی کے بغیر نماز کے وقت کا تعین نہیں کرسکتے۔ کافروں کی بنائی موٹروں اور پمپوں کے بغیر وضو کا اہتمام نہیں کر سکتے۔ کافروں کے بنائے ہوئے ساﺅنڈ سسٹم کے بغیر اہلِ ایمان اذان تک نہیں دے سکتے۔ہمارے عربی بھائی تیل نکالنے کیلئے روسی ڈرل مشینوں اور امریکی کمپنی ”Total“ کے محتاج ہیں۔ اُنہیں اپنی اونٹنیوں کو خارش سے بچانے کیلئے آسٹریلین ماہرین کی مدد لینا پڑتی ہے، اور کھجوریں صاف کرنے اور آبِ زم زم کی مقدار بڑھانے کیلئے کافروں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ ہمیں لوٹا، تسبیح اور جائے نماز تک غیرمسلم بنا کر دیتے ہیں۔ تلخ دلچسپ حقیقت ملاحظہ فرمائیے کہ حلال گوشت تک غیراسلامی ملکوں کا پسند کرتے ہیں۔ پوری عرب دنیا میں ڈنمارک کا حلال گوشت فروخت ہو رہا ہے۔ ہم قربانی کے جانور تک کافر قوموں کی بنائی چھریوں سے ذبح کرتے ہیں۔ پاکستان کا شمار بہترین کپاس پید اکرنیوالے ممالک میں ہوتا ہے لیکن وطنِ عزیز میں سوتی کپڑے چین، فلپائن اور تھائی لینڈ کے بِکتے ہیں۔ حتیٰ کہ 65% اسلامی ممالک اسلامی معیار کا کمبوڈ تک نہیں بنا سکتے وہ بھی امریکی سٹینڈرڈ کا بِکتا ہے۔
اہلِ نظر نے مریخ پر پانی تلاش کر لیا ہے۔ جبکہ اس ضمن میں ہمارا ردِعمل وہی ہو گا جو چاند پر انسانی قدم رکھنے پر ہوا تھا۔ جو لاﺅڈ سپیکر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور وی سی آر کی ایجاد پر سامنے آیا تھا۔ ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے کبھی فٹ بال کا کھیل ناجائز قرار دے دیا تھا۔ جنہوں نے ریڈیو کو شیطانی آلے کا نام دیا تھا۔ میڈیکل کی کتابوں میں چھپی تصاویر تک وہ فحاشی قرار دیتے ہیں۔ جنہوں نے منی آرڈر کو جائز نہیں سمجھا اور آلہ صوت ومتکبر یعنی لاﺅڈ سپیکر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور اڑھائی سو سال تک چھاپہ خانہ جیسی ایجاد کو برصغیر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن آج .... جی ہاں آج عالمِ اسلام ان ”شیطانی سہولتوں“ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے آج ہمیں اس صورتِحال کا سامنا کیوں ہے؟ اس لئے کہ جب ہمارے حکمران محلات تعمیر کر رہے تھے، بیویوں کی قبروں پر آنسو بہا رہے تھے، راگ سے پانی میں آگ لگوا رہے تھے، حکیموں سے کُشتے بنوا رہے تھے۔ عین اُسی وقت یورپ کے حکمران درسگاہیں تعمیر کر رہے تھے۔ کارخانے، فیکٹریاں، لیبارٹریاں اور لائبریریاں بنا رہے تھے۔ جنگی جہاز ڈیزائن کر رہے تھے۔ کاش مغل بادشاہ نے چھاپے خانے پر پابندی نہ لگائی ہوتی۔ تو آج ہمارے تعلیمی ادارے بانجھ صحرا اور ڈگریاں تعلیمی اخراجات کی رسیدیں نہ بنتی۔ کاش شاہجہان نے تاج محل کی جگہ ”آکسفورڈ“ بنوائی ہوتی۔
آج دنیا کے ایک ارب 50 کروڑ مسلمانوں کے سر اپنے گھٹنوں پر نہ جھکے ہوتے۔
ہم کب تک یہ گردان کرتے رہیں گے کہ علم مومن کی میراث ہوتا ہے لیکن جب مومن علم کو دروازے سے ہی دھتکار دے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت علم کو کافروں کی دسترس سے دور نہیں رکھ سکتی۔ کیونکہ خدا صرف اور صرف جاگنے والوں کا خدا ہوتا ہے، اور سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے والوں کا نگہبان ہوتا ہے۔ وہ ہمارے سرہانے کامیابی اور فتح کے تھال اس لئے کیوں دھر دیگا کہ ہم مسلمان ہیں۔ جو لوگ فکری سطح پر لنگڑے، لولے ہوتے ہیں۔ وقت ان پر کبھی نہیں بدلا کرتا۔ راکھ سو برس بعد بھی راکھ ہی رہتی ہے۔ اس لئے احمد ندیم قاسمی کے بقول
علم بڑھتا ہے تو بڑھ جاتی ہے ہر چیز کی پیاس
پیاس ہی ہے اصل میں تاریکی دوراں کا چراغ
ہے اسی پیاس پہ شادابیءعالم کی اساس
جتنا ویران ہو شکم اُتنا مہکتا ہے دماغ
اس کالم کا آغاز موجدین کے جنت جانے کے ذکر سے ہوا تھا۔ اختتام پر اس حوالے سے ایک لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔ اہلِ دل نوحہ، آہ اور چیخ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ”ایک امریکی جنت میں مٹر گشت کر رہا تھا۔ اہلِ فردوس کو شدید غصہ آیا۔ انہوں نے امریکی کو روک کر پوچھا۔ تم بے دین، خدا کے احکامات کے منکر، تمہارا یہاں کیا کام؟ امریکی کندھے اُچکا کر بولا! ہوں تو میں دوزخی ہی لیکن یہاں جنت کا کمپیوٹر ٹھیک کرنے آیا ہوں۔“