ایک نئے فتنے کا ظہور

Jun 12, 2014

محمد آصف بھلّی

پاکستان میں ایک فتنہ تو پہلے سے ہی موجود تھا کہ ایک گروہ نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کی حیثیت سے معرض وجود میں نہیں آیا۔ یہ گروہ انتہائی بے شرمی، بے خوفی اور ڈھٹائی سے مسلسل یہ دعویٰ کرتا چلا آ رہا ہے کہ ”قائداعظمؒ کا ”نظریہ پاکستان“ صرف جغرافیائی سرحدوں پر مبنی تھا، بعدازاں عوام دشمن ملاﺅں اور آمروں نے اپنے غصب شدہ اقتدار کا نظریاتی جواز مہیا کرنے کے لئے نظریاتی سرحدوں کا جو نعرہ گھڑا اس کا قائداعظمؒ کی فکر سے کوئی تعلق نہیں“۔ پاکستان میں اس وقت نظریہ پاکستان کا سب سے بڑا علمبردار اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ادارہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہے جو ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں سرگرم عمل اور جادہ پیما ہے۔ ....
اقبالؒ کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
نظریہ پاکستان کے دشمنوں کو میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر مجید نظامی اور ان کے قریبی ساتھیوں کا پوری طرح جائزہ لے لیں۔ ان میں سے کوئی بھی نہ تو عوام دشمن ملاﺅں سے متاثر ہے اور نہ ہی یہ لوگ کبھی پاکستان میں فوجی آمروں کے حامی رہے ہیں۔ یہ سب لوگ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکارونظریات سے متاثر ہیں اور اسی لئے پاکستان کے نظریاتی محاذ پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے چوکیداروں کے دل محبت رسول سے سرشار ہیں کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ فروغ اسم محمد ہی سے پاکستان کی دھرتی منور ہو سکتی ہے۔ ....
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دو
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دو
نظریہ پاکستان کے دشمنوں کے سامنے جب نظریہ پاکستان ٹرسٹ والے عالی دماغ لوگ نظریہ پاکستان کے حق میں دلائل دیتے ہیں تو وہ کبھی کسی مولوی کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے استدلال کی بنیاد قائداعظمؒ کی تقاریر پر رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ قائداعظمؒ سے سوال کیا گیا تھا کہ ”مذہب اور مذہبی حکومت کے لوازم کیا ہیں؟ تو اس کے جواب میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ”جب میں انگریزی زبان میں RELIGION کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور محاورے کے مطابق لامحالہ میرا ذہن خدا اور بندے کے پرائیویٹ تعلق کی طرف جاتا ہے لیکن اسلام میں مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ملا اور نہ ہی مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے۔ البتہ میں نے قرآن مجید اور قوانین اسلام کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی۔ غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔ قرآن کریم کی اصولی ہدایات اور طریق عمل نہ صرف مسلمانوں کے لئے بہترین ہیں بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے لئے آئینی حقوق اور حسن سلوک کا جو حکم ہے اس سے بہتر کا تصور ممکن نہیں“۔
قائداعظمؒ کی ان تمام تقاریر اور پیغامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اسلام ہر شعبہ زندگی کے لئے مسلمانوں کو مکمل رہنما اصول دیتا ہے۔ پھر کیسے یہ ممکن ہے کہ قائداعظمؒ کاروبار مملکت سے اسلام کا کوئی واسطہ یا تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ قائداعظمؒ کیوں بار بار اپنی مختلف تقاریر میں قرآن کریم کا حوال دے کر یہ ارشاد فرماتے تھے کہ قرآن میں معاشرت، تجارت، معیشت اور سیاست سب کے لئے رہنما اصول موجود ہیں۔ یقیناً تشکیل پاکستان کے موقع پر قائداعظمؒ کے ذہن میں ایک اسلامی مملکت کے قیام کا واضح تصور موجود تھا۔ ا گر بانی پاکستانی حضرت قائداعظمؒ کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی سیکولر سٹیٹ کا تصور موجود ہوتا تو وہ بار بار اسلام اور قرآن کا حوالہ کیوں دیتے تھے۔ فروری 1948ءاہل امریکہ کے نام اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں بھی انہوں نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ”پاکستان کا آئین اسلامی اصولوں کا آئینہ دار ہو گا اور جمہوری انداز کا ہو گا۔ اسلام کے یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں ہر ایک کے ساتھ عدل و مساوات کی تعلیم دی ہے۔“ قائداعظمؒ کے ان واضح ارشادت کے بعد اصولی طور پر ان طبقوں کا منہ بند ہو جانا چاہئے تھا جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے جس میں کسی مذہب کا کاروبار مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا لیکن ڈھٹائی، بے شرمی، جھوٹ اور ہٹ دھرمی کا تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ اب میں اس فتنے کی طرف آتا ہوں جس نے حال ہی میں پاکستان میں جنم لیا ہے۔ سیکولر حضوات تو صرف دعوی کرتے ہیں کہ قائداعظمؒ پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے یعنی ان کے سیاسی پروگرام میں اسلام کا ریاست سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ نئے فتنے کے بانی اس جہالت کو پاکستان میں پھیلا رہے ہیں کہ ”ہندوستان تو ایک نام نہاد سیکولر ریاست ہے سیکولر ریاست کا حقیقی تصور پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ نے پیش کیا تھا اور اس کے بعد پاکستان کے علاوہ دنیا میں دوسرا کوئی ملک ایسا نہیں جسے حقیقت میں سیکولر ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔“
سیکولر طبقے کا پھیلایا ہوا فتنہ تو یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر نہیں بنایا گیا تھا لیکن نئے فتنے کا حد درجہ جاہلانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ حقیقی سیکولر ریاست مدینہ منورہ کی پہلی اسلامی ریاست تھی جس کی بنیاد حضور نبی کریم نے رکھی تھی۔ اس سے بڑھ کر حضور نبی کریم کے اسلامی ریاست کے تصور کی اور کیا توہین کی جا سکتی ہے کہ ان کی قائم کردہ مدینہ پاک کی پہلی اسلامی ریاست کو سیکولر سٹیٹ کا نام دے دیا جائے۔ سیکولر ریاست کا ایک معروف اور واضح مفہوم ہے کہ ایک ایسی ریاست جس میں سیاسی اور حکومتی امور سے مذہب کا کوئی تعلق ہو۔ اگر حضور نبی کی مدینہ منورہ میں قائم کی ہوئی پہلی اسلامی ریاست کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا تو پھر اور کس ریاست کا ہو سکتا ہے۔ کیا مدینہ پاک کی پہلی اسلامی ریاست میں حضور نبی کریم کی حیات مبارک میں اسلامی سزائیں نہیں تھیں، سود حرام نہیں تھا، زکوة کا نظام موجود نہیں تھا۔ نیکی کا حکم اور برائیوں سے روکنا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا تعلق انفرادیت کے مقابلہ میں اجتماعیت کے ساتھ نہیں تھا۔ اسی طرح خلافت راشدہ کے دور میں بھی اسلامی اور قرآنی احکامات کی حکمرانی نہیں تھی۔ کیا حضرت ابوبکرؓ کے دور میں زکوة نہ دینے والوں اور جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف باقاعدہ جہاد نہیں کیا گیا تھا۔ کیا ایسا اسلامی ریاست کی وجہ سے ہوا تھا یا سیکولر ریاست کی وجہ سے۔ کیا سیکولر ریاست میں قرآن کے احکامات کے مطابق سود کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا ایک سیکولر ریاست میں حکومت کی سطح پر زکوة کا نظام نافذ کیا جا سکتا ہے، کیا معاشرے میں جرائم کے تدارک کے لئے ایک سیکولر ریاست میں اسلامی سزاﺅں کا نظام اور اسلام کا نظام عدل نافذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان میں ایک منافقانہ اور نام نہاد سیکولر ریاست قائم کی گئی ہے۔ مگر یہ کہنا سراسر جہالت ہے کہ مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کی شکل میں ایک حقیقی سیکولر ریاست قائم کی گئی تھی اور اب پاکستان واحد ملک ہے جس کو حقیقت میں سیکولر ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کا حقیقی ماڈل کیوں نہ بنایا جائے۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست کا نام کیسے دیا جا سکتا۔ اس جہالت کا آخر کیا جواز ہے؟

 

مزیدخبریں