بھارت کی طرف سے میانمار کی طرز پر پاکستان کی سرحد کے اندر فوجی کارروائی کرنے کی دھمکی پر فوجی ہیڈکوارٹر میں کور کمانڈروں کے اجلاس میں ملک کی سرحدوں کے تحفظ کا ہر قیمت پر دفاع کرنے اور کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پاکستان کیخلاف بھارتی سیاستدانوں کے عزائم ناکام بنائے جائینگے۔ کسی بھی مہم جوئی کا دندان شکن جواب دیا جائیگا اور ہر قیمت پر ملک کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ کیا جائیگا۔ قبل ازیں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اپنے بیان میں کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان اور کشمیر کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم علاقے میں امن اور استحکام کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کیلئے مسئلہ کشمیر کا کشمیریوں کی خواہشات کیمطابق حل ہونا ضروری ہے۔
آرمی چیف نے کشمیر کے مسئلے پر جو موقف اختیار کیا ہے کشمیریوں اور پاکستان کا درینہ موقف یہی ہے۔ انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت پر واضح کیا ہے کہ وہ متنازعہ علاقہ کے بارے میں دعویٰ کرنا چھوڑ دے۔ آرمی چیف کے اس بیان کو پوری کشمیری قیادت نے خوش آمدید کہا ہے اور اسے کشمیریوں کی آواز کہا ہے کیونکہ اس سے قبل بھارتی وزیر دفاع نے نئی دہلی میں ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ دہشتگردی کا جواب دہشتگردی ہی دیا جائیگا۔ اب بھارت میں ممبئی طرز کا کوئی حملہ ہوا تو جواب میں دہشتگردوں کو استعمال کرینگے۔ یہ بیان بھارت کے بحیثیت اداروں کی عکاسی ہے کیونکہ گذشتہ ہفتوں سے پاکستان عالمی سطح پر یہ کھل کر کہہ چکا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے بھارتی ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔ بھارت خاص منصوبہ کے تحت پاکستان میں صورتحال کو خراب کر رہا ہے۔
میڈیا اطلاعات کیمطابق بھارت نے متحدہ جہاد کونسل اور حزب لمجاہدین کے رہنماء سید صلاح الدین کا نام عالمی دہشتگرد افراد کی فہرست میں درج کرانے کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سید صلاح الدین کے خلاف بھارت اقوام متحدہ میں معاملہ اٹھانے کی کوشش میں ہے تا کہ ان کیخلاف مالیاتی اور سفر سمیت دوسری عالمی پابندیاں عائد کرائی جا سکیں۔ اس سے قبل بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے لشکر طیبہ نامی عسکری تنظیم کو بدنام کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں مختلف کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی تعداد میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں مزید فوجی دستے مقبوضہ وادی کشمیر میں بھیجے گئے ہیں۔ حقیقت میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد علامتی طور پر ہی موجود ہے۔ مسلح جدوجہد سے بہت بڑھ کر کشمیری آزادی کی سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن بھارتی حکومت کشمیریوں کو پر امن احتجاج ، مظاہروں کی اجازت نہیں دیتی۔ سیاسی رہنمائوں کو سال کے بیشتر دن قید میں رکھا جاتا ہے ، احتجاجی مظاہرین کو فورسز کے ذریعے تشدد، فائرنگ اور قید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کے اس شرانگیز بیان سے یہ حقیقت سامنے آ گئی ہے کہ بھارت اس خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کیلئے پاکستان کو ہر صورت عدم استحکام سے دو چار کرنے کیلئے بے تاب ہوا جا رہا ہے خواہ اس کیلئے اسے کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ بھارت میں انتہا پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں موجود ہیں جو وہاں ہندو راج قائم کرنے اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو غلام بنانے یا ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔
جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے نہ صرف بھارت کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کی سلامتی کو لا حق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ بھارت کے اندر بھی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہو گئی ہیں۔ موجودہ بھارتی حکومت کے اب تک کیے جانیوالے اقدامات اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ پورے خطے میں رام راج قائم کرنے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے پر تول رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے نریندر مودی جدید ترین اسلحے کے حصول کیلئے مختلف ملکوں کے دورے کر رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کو خوفزدہ کرنے کیلئے اسلحے کے ڈھیر لگانے میں بھارتی حکومت کا جنون عالمی سطح پر آشکار ہو چکا ہے۔ حیرت ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ سمیت کسی بھی عالمی طاقت نے بھارت کے اس جارحانہ رویے کی مذمت نہیں کی ۔ جب کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دے رہا اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور بھارت کیخلاف جنگ کرنا ان کا بنیادی حق ہے ۔ کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد آزادی کو دہشتگردی سے تعبیر کرنا بہت ہی زیادتی ہے۔ اصولی طور پر اقوام متحدہ کو بھارت کے اس بیان پر جو کہ دہشتگردی کا اعتراف ہے دہشتگرد ملک قرار دینا چاہیے نہ کہ حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنیوالے کشمیریوں کو۔ شاید بھارت سے آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی اب بھارتی وزیر دفاع کے دھمکی آمیز بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو مزید ہوا دیکر اسے داخلی سطح پر کمزور کرنا چاہتا ہے اور کوشاں ہے کہ یہاں کبھی امن قائم نہ ہو۔
پاکستانی حکومت بار ہا یہ واضح کر چکی ہے کہ وہ دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ میں ملوث نہیں جہاں تک ممبئی حملوں کا تعلق ہے تو وہ اس سلسلے میں تمام حقائق منظر عام پر لانے کیلئے بھارتی حکومت کیساتھ ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا گیا ۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان لاتعداد مسائل کا شکار ہیں۔ یہاں غربت ہے، جہالت ہے، بے روزگاری ہے جس کی وجہ سے فی کس آمدنی اور لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطہ ترقی کی دوڑ میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہماری ترجیح ہونا چاہیے! تاہم ایسا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔