اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور مقامی زبانوںکی ترویج سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو اس حوالہ سے پیشرفت کے لئے 2جولائی تک مہلت دے دی ہے جبکہ حکومت پنجاب کو پنجابی زبان سمیت علاقائی زبانوں کی ترویج سے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جسٹس جواد برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سےاسی مصلحت ہے تو بتا دےا جائے، عدالت کو یہ بھی بتاےا جائے کہ عمل درآمد نہ کرنے والے ذمہ دار لوگ کون ہیں؟ اردو زبان میں عدالتی نوٹسز کے اجراءسے کم پڑھے لکھے لوگوں کا فائدہ ہوگیا ہے، جب کسی ان پڑھ شخص کو انگریزی زبان میں کوئی عدالتی نوٹس جاتا ہے تو وکیل حضرات اس سے محض اس کا ترجمہ کرنے پر ہی 5سو سے5ہزار روپے لے لیتے ہیں ، آئین کے مطابق اردو کو سرکاری زبان بنانے کے راستے میں کونسی سیاسی مصلحت آڑے آرہی ہے؟ ماسوائے صوبہ پنجاب تینوں صوبے خیبر پی کے، سندھ، بلوچستان تو پہلے ہی اس حوالہ سے اپنا اپنا کام مکمل کر چکے ہیں، کیا پنجاب کا کوئی کلچراور زبان نہیں ہے؟ وفاق اور صوبوں نے ایسا کلچر بنایا ہے کہ تمام لوگ ان پڑھ ہی رہیں، وفاق بتا دے کہ آئین کی پاسداری کرنی ہے کہ نہیں؟ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پورا ملک ایک زبان پر متفق ہو جائے تو اردو تمام زبانوں کا خوبصورت گلدستہ ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بابا بلھے شاہ، لعل شہباز قلندر، خواجہ غلام فریدکے کلمات، فارسی، پنجابی اردو میں ہیں انگریزی میں نہیں، ہر قوم نے اپنے کلچر اور زبان کو محفوظ کےا ہے ہمارے برزگوں کے کلمات تو گرونانک کی کتابوں میں بھی محفوظ ہیں، اردو ایک جاذب زبان ہے اس میں دیگر زبانوں کے الفاظ آکر جذب ہوجاتے ہیں، سوموٹو سپریم کورٹ نے لےا تو یہ بھی پنجابی کا لفظ بن گےا، کسی گاﺅں میں ان پڑھ کے پاس جاکر سوموٹو کا نام لو تو وہ سمجھ جائے گا کہ آپ سپریم کورٹ سے آئے ہیں اور وہ اپنی شکاےات پر کارروائی کی درخواست کرے گا، اب دو تین سال سے میں بھی عدالتی فیصلے اردو میں لکھ رہا ہوں شروع میں مشکلات تھیں مگر اب بہتری آگئی ہے، سیکرٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس پر پوری کابینہ کو اعتماد میں لینے کے لئے ان کی وزارت نے اس حوالہ سے سمری تیار کرلی ہے لیکن اس وقت اسمبلی میں بجٹ اجلاس چل رہا ہے جیسے ہی بجٹ اجلاس ختم ہو گا سمری کابینہ کے سامنے پیش کر دی جائے گی جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ یہ آئینی تقاضا ہے ،کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت کو آئینی تقاضا پورا کرنے کے لئے بھی کسی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے؟ عدالت نے حکومت پنجاب کی جانب سے پنجابی زبان کے فروغ کے حوالہ سے کسی قسم کے بھی اقدامات نہ کرنے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ کابینہ کیا فیصلہ کرتی ہے اس سے سروکار نہیں، آرٹیکل 251 پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کروائیں گے۔ صوبائی اور علاقائی زبانیں ہمارا قومی ورثہ ہیں جن کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے عوام کے پیسوں سے وجود میں آنے والی حکومت اور عوام کے تنخواہ دار ادارے اب ان کو زبان کی سہولت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ سوائے پنجاب کے باقیوں نے قانون بنا لیا ہے۔ پنجاب کہتا ہے کہ اردو چلنے دیں صوبائی نمائندے موجود ہیں۔ پنجاب حکومت کہتی ہے کہ پنجابی کو ماریں گولی اردو میں کام چلنے دیں۔ یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔ پنجابی ہماری زبان ہے ہمارے لئے مشکل ہو گی۔
سپریم کورٹ اردو کیس