اسلام آباد(نمائندہ خصوصی+نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں گذشتہ روز وفاقی بجٹ پر عام بحث جاری رہی۔ بحث میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اسکی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے حصہ لیا۔ اپوزیشن ارکان نے بجٹ پر نکتہ چینی کی اور تجاویز پیش کیں۔ تحریک انصاف کے علی محمد خان نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکسوں پر زور ہے جب تک منی بجٹ کا عفریت ختم نہیں کیا جاتا تو بحث بیکار ہے۔ رمیش کمار نے کہا کہ صوبوں کی ترقی پر توجہ دی جائے۔ افراط زر 4.5 فیصد ہے جبکہ تنخواہیں 7.5 فیصد بڑھائی گئی ہیں۔ حکومت کی اچھی باتوں کی حمایت کرنی چاہئے۔ سلمان بلوچ نے کہا کہ حکومت نے عوام دشمن بجٹ پیش کیا گیا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بجٹ سے قبل بڑھ گئیں۔ گوہر ایوب خان نے کہا کہ حکومت کی آزمائش اور بجٹ کے اثر کا تجزیہ بیلٹ بکس سے ہوتا ہے۔ منڈی بہا¶الدین کے الیکشن میں عوام نے شیر پر نشان لگا کر مسلم لیگ ن کو کامیاب کیا۔ بجٹ کو اعتماد کا ووٹ عوام نے دیا ہے۔ تنخواہوں کے معاملہ میں ہمیشہ صوبوں سے مشاورت ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ نے جو اضافہ کیا یہ گیارہ یا بارہ فیصد ہو گا۔ دھرنا کی وجہ سے سرمایہ کاری پر منفی اثرات ہوئے۔ مزمل قریشی نے کہا کہ بجٹ عوامی نہیں ہے۔ عوامی نمائندوں کا بجٹ بنانے یا منظور کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ حکومت اس وقت کارکردگی دکھا سکتی ہے جب ادارے درست طور پر کام کریں۔ ادارے سیاسی و جمہوری حکومتوں کے دور میں بہتر کام کرتےہیں۔ سیاسی حکومت ایٹم بم کو سامنے لائی، ہمیں دوست اور دشمن کو سمجھنا چاہئے۔ افتخارالدین نے کہا کہ بجٹ میں کامیابیاں اور ایشوز دونوں موجود ہیں۔ پاک چین اکنامک کوریڈور بڑی کامیابی ہے۔ صاحبزادہ محمد یعقوب نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے مسائل ورثہ میں ملے ہیں تاہم ملک کے قرضے بڑھ گئے ہیں۔ ملک میں شرعی معاشی نظام رائج کیا جائے۔ سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ بیرونی امداد پر انحصار کم کیا جائے۔ چیزیں سستی کی جائیں۔ ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے۔ پیر بخش جونیجو نے کہا کہ حکومت نے معیشت کو برے حالات سے نکالا۔ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے۔ نواب علی وسان نے کہا کہ صوبوں میں نفرت پھیل رہی ہے۔ جب حقوق نہیں ملیں گے تو یہ ہوتا ہے۔ سندھ کے حقوق کو نظرانداز نہ کیا جائے۔تعلیم کی ایمرجنسی لگائی جائے۔ جے یو آئی (ف) کی نعیم کشور خان نے کہا کہ بجٹ پیش ہونے سے دو تین ماہ قبل اس پر بحث ہونی چاہئے تاکہ ایوان کی رائے کے مطابق بجٹ بنایا جا سکے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے دوبارہ سروے کرانا ضروری ہے۔ فاٹا کے لوگوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے اور بیت المال کا دفتر بھی کھولا جائے۔ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے ہائیڈرو منصوبے شروع کئے جائیں۔ تحریک انصاف کی ڈاکٹر مہرالنساءشیریں مزاری نے کہا کہ یہ امیروں کا بجٹ ہے نیکٹا غیرفعال ہے۔ 60 فیصد سے زائد قرضوں کی پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کے اجلاس میں آرمی چیف نے بھارت کو جواب دیا تو حکومت میں کچھ جان آئی ورنہ اس سے پہلے حکومت بالکل خاموش تھی، خارجہ پالیسی پر حکومت کو سنجیدگی اختیار کرنا ہو گی۔ عمر ایوب نے کہا کہ کالا باغ ڈیم متنازعہ معاملہ ہے لیکن 2035ءمیں پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ ہے جس کیلئے اے پی سی بلا کر اے این پی سے خصوصی مشاورت کرکے کالاباغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا چاہئے۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ 2015-16ءکو خوشنما الفاظ اوراعدادوشمار کا گورکھ دھندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 7 ارب روپے کے قومی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان جیسے چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ تمام بڑے ترقیاتی منصوبے پنجاب میں دئیے گئے ہیں۔ حکومتی ارکان نے بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستان معاشی طور پر اپنے پا¶ں پر کھڑا ہو گیا ہے۔
اسلام آباد (وقائع نگار+نیوز ایجنسیاں) سینٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران ارکان نے کہا کہ کم سے کم تنخواہ کو 20 ہزار کیا جائے، ملازمین کی تنخواہ 15 فیصد تک بڑھائی جائے، ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے، بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو روکا جائے، خیبر پی کے کیلئے پیکج کی فراہمی حکومت کا مثبت اقدام ہے، صحت و تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ دو سال میں بیروزگار افراد میں 15 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے، خیبر پی کے میں پیکج کی فراہمی اور سولر ٹیوب ویلز اور تعمیراتی صنعت کے لئے اقدامات حکومت کی احسن کوشش ہے۔ سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ پٹرولیم لیوی سے افراط زر میں اضافہ ہو گا، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، بجلی کی قیمت بھی بڑھنے کا امکان ہے، ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے ورنہ ہم قرضوں پر ہی انحصار کرتے رہیں گے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ بلوچستان کے لئے 16 سکیموں میں سے 14 سکیمیں ایک ارب سے بھی کم رقم کی ہیں، اس سے بلوچستان میں ترقی پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ کم سے کم تنخواہ کو 20 ہزار کیا جائے، ملازمین کی تنخواہ 15 فیصد تک بڑھائی جائے، بلوچستان کو بھی خیبر پی کے کی طرح ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے، ہم میٹرو بس منصوبے کے خلاف نہیں مگر اس پر لاگت زیادہ ہے۔ آئی این پی کے مطابق سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی میزانیہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے وزیروں کے لئے نئی گاڑیاں خریدی گئیں، ان کے لئے عبوری الاﺅنس منظور کیا گیا۔ زرعی قرضوں کے لئے 600 ارب روپے بڑھائے گئے جو خوش آئند ہے۔ حکومتی سینیٹرز کا کہنا تھا کہ بجٹ متوازی ہے دھرنے کی وجہ سے 4 ماہ تک ملک میں صورتحال متاثر ہوئی اچھی چیزوں کی تعریف بھی کرنی چاہئے۔