اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں نیب سے متعلق متفرق مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہر وقت نیب کی مائیکرو مانیٹرنگ نہیں کی جاسکتی، اگر کوئی للو پنجو بھی نیب کو کسی بدعنوانی کی اطلاع دے تو اسے ایکشن لینا چاہیئے، ایک شخص کرپشن کی نشاندہی کررہا ہے اور پانچ سال نیب اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتی اور کہتی ہے کہ اس شخص کا معاملے سے کوئی تعلق نہیں اس کا کوئی حق متاثر نہیں ہو رہا وہ لوکس سٹنڈائز پر پورا نہیں اترتا؟ اگر اگرایسا کرنا ہے تو احتساب کے اس ادارے کو بند ہی کردےا جائے ،ہم کسی کو بھی بے ایمانی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ،فائلیںخود بولتی ہیں ، اگر کام نہیں کر سکتے تو ملک میں افسر شاہی کو ہی ختم کردیں،ہمارے لئے تشویش کا باعث یہ چیز ہے کہ جو کام نیب کے کرنے کے ہیں، وہ عدالت کو کرنا پڑ رہے ہیں ،یہ نہیں ہونا چا ہیئے کےا اب عدالت ڈنڈے لیکر نیب ہی کے پیچھے دوڑتی رہے ؟ہر سرکاری افسر عوام کا خادم ہے حاکم نہیں اگر کسی کو کوئی ایسی غلط فہمی ہے تو وہ دور کرلے۔ نیب کے لا افسر نے رپورٹ پیش کی جس میں لکھا تھا کہ درخواست گزار لوکس سٹینڈائی(استحقاق) پر پورانہیںاترتا ہے ،جس پر جسٹس جواد نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انہوںنے 5سال قبل آپ کو درخواست دی تھی اوراب آپ کہہ رہے ہیں کہ ان کا لوکس سٹینڈائی نہیں ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ ہم 184(3)کے تحت نوٹس لیں، ٹیکس دینے والے شہری کو کہہ رہے ہیں کہ اس کا استحقاق ہی نہیں ہے حالانکہ ان کے ٹیکسوں سے میری اور آپ لوگوں کی تنخواہیں بنتی ہیں۔
سپریم کورٹ