’’RABBLE ROUSER‘‘

Jun 12, 2015

مسرت قیوم

خدا کی قسم جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہ پھینک دیں، ہم ہار نہ مانیں گے۔ پاکستان کی حفاظت کیلئے میں تنہا لڑوں گا۔ اس وقت تک لڑوں گا۔ جب تک میرے ہاتھوں میں سکت اور میرے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔ مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر کبھی کوئی ایسا وقت آجائے کہ پاکستان کی حفاظت کیلئے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت میں ہتھیار نہ ڈالیں اور پہاڑوں، جنگلوں، میدانوں میں اور دریائوں میں جنگ جاری رکھیں۔
یہ فرمان ’’حضرت قائداعظم‘‘ نے بہادر افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ایک نحیف، بیمار شخص کے عزم کے آگے ’’برصغیر‘‘ کا نقشہ بدل گیا مگر جب ہم پر دشمن کی یلغار کا وقت آتا تو بہادرانہ موقف، صوالی سیاست کو دیمک کھا چکی تھی۔ مودی نے برملا اعتراف کیا کہ ’’مشرقی پاکستان‘‘ توڑنے، بنگلہ دیشن بنوانے میں انڈیا کا کردار ہے۔ ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ تحقیقات کی گئیں۔ سب میں دوش انڈیا کو دیا گیا مگر عالمی فورم پر پہلی مرتبہ اعترافی جرم منظر عام پر آیا۔ لگتا ہے مودی نے روشن انڈیا کی تصویر کو دھوئیں میں ڈبونے کی قسم کھا رکھی ہے تبھی زبان و عمل سے اشتعال انگیزی پھیلا رہا ہے۔ مودی کو یاد رکھنا پڑیگا کہ وہ ایک صوبے کا ’’وزیراعلیٰ‘‘ نہیں بلکہ ایک بڑے ملک کا ’’وزیراعظم‘‘ ہے اس کی ہر بات، حرکت کو نہ صرف نوٹ کیا جاتا ہے بلکہ جوابی رد عمل بھی ہوتا اور جب بات ہو ’’ایٹمی ہمسائے‘‘ کی تو پھر ’’پکوڑے‘‘ لفافے میں بند رکھنے سے باسی ہو جاتے ہیں۔ تازہ ہوا ضروری ہو جاتی ہے۔ بقول پسپا ہوتی ہوئی سپاہ تو جب مکمل شکست کا یقین آجائے تو وہ اصول، ضابطے، جنگی قوانین اور اخلاقیات کو روندتی ہوئی بے غیرتی کے قانون پر چل نکلتی ہے۔ اب جبکہ ہمارے وجود کو لاحق خطرات کم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ تو انڈیا کیسے خاموش بیٹھ سکتا تھا۔ وفاقی وزراء نے بجا فرمایا کہ پاکستان ’’میانمار‘‘ نہیں۔ سری لنکا کے بعد اب بھارت برما میں گھس گیا ہے اور برملا دھمکی دی ہے کہ ہم پاکستان پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ دشمن مذموم عزائم کی تکمیل میں شکست کا زخم زبان درازی کی شکل میں دے رہا ہے۔ خطے میں امن کی خواہش اور حصول کی کوششوں کو جان بوجھ کر ناکام بنانے پر تلا ہوا، ہمسایہ، اب دشمنی بغض کے پرانے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ پاکستانی سفارت کار کو ویزہ دینے سے انکار کے علاوہ ایک اہلکار کو جاسوسی کے الزام میں ملک بدر کر چکا ہے۔ عددی طاقت، حساس وقت تھا مگر نظریاتی لحاظ سے محاذ کی گرمجوشی ’’مسلمانان ہند‘‘ کی متحدہ قوت، اتنی بڑی طاقت تھی کہ سب پلان، عزائم خاک میں مل گئے۔ ان مخدوش حالات میں ایک لاغر شخص تن تنہا دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا اعلان کرسکتا ہے۔ تو آج کون سی رکاوٹ مانع ہے۔ آج کی تصویر میں ہمیں ایک ’’ایٹمی سپاہ کے سپہ سالار‘‘ کی گھن گرج سنائی دیتی دے رہی ہے کہ مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کے عزائم کو شکست دینگے۔ یقینا دینگے۔ ’’آرمی چیف‘‘ کی للکار میں پوری قوم کی آواز شامل ہے۔ ہم نے پہلے کالم میں تجویز کیا تھا کہ پاکستان عالمی برداری، کو مسئلہ کی سنگینی، انڈین مداخلت کے شواہد سے آگاہ کرے اور بغیر تاخیر کئے ’’سلامتی کونسل‘‘ کا دروازہ کھٹکھٹا دے۔ قومی سطح پر حرکت دیکھی تو جا رہی ہے۔ ہندو ذہن کی ایک اپنی ساخت ہے۔ یہ ساخت کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ مجموعی ’’انڈین ہندو ریاست‘‘ کی ہے اسلئے ’’مودی‘‘ کو چاہئے کہ وہ انڈیا کا نام بدل کر ’’ہندوریاست‘‘ رکھ دے۔ ہندو نیشنل ازم نے برسوں پرانی ’’ٹالسٹائی‘‘ کی بات دوبارہ پڑھوادی کہ ’’گاندھی‘‘ گمراہ کن سازش ہے۔ (Rabble Rouser) ’’مودی‘‘ دنیا پر غلبے کا خواب بن رہا ہے۔ کھربوں ڈالرز اسلحہ کے گودام بھرنے پر صرف کرنیوالا اس خبر کے پڑھنے سے محروم ہے کیا کہ ایک غریب خاندان نے ساڑھے چار ہزار روپے میں بچہ بیچ دیا۔ غربت ہمارے ہاں بھی ہے۔ اس طرح کے واقعات سرحد کے اس جانب بھی ہوتے رہتے ہیں مگر ہم ’’ہمسایوں‘‘ کو ڈرانے، سرحدوں کے اندر گھسنے کی فضول حرکات میں پڑنے کی بجائے اپنے وسائل بڑھانے اور مسائل کم کرنے کی سعی تو کر رہے ہیں۔ اسی لئے تو دشمن چاروں جانب سے ہمیں گھیر نے کے چکر میں ہے۔ اقتصادی راہداری اور دہشت گردی کی ختم ہوتی جنگ کو اپنے دل کا روگ بناکر ’’بدمست سانڈ‘‘ کی سی حرکیات میں مشغول ہے۔ ہندو ازم نری سازش کا دوسرا نام ہے اور ہر ’’ہندو‘‘ گمراہ کن سازش ہے۔ جیسا باپ ویسا پوت، ہمارا ہمسایہ نہ جغرافیائی حدود کے تقدس پر قائم ہے اور نہ ہی دوسرے ممالک کے اندرونی امور میں ناجائز، ناروا مداخلت روکنے پر آمادہ، انڈین مہم جوئی کی سوچ خطے کو ایک بھیانک ایٹمی جنگ کے قریب لے جا رہی ہے۔ انڈین لیڈر شپ، میں قیادت کی تمام صفات نا پید ہیں صرف نام کے لیڈر، عالمی طاقتوں کو دیکھنا چاہئے کہ اس ٹائپ کی قیادت صرف گلی، محلوں کے مسائل حل کرواسکتی ہے۔ پورے خطے کو ’’ابتدائی جماعت‘‘ کے طالب علموں کے اوپر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پراکسی وار ایک بہت بڑے سانحہ کوجنم دے سکتی ہے۔ عالمی برداری ’’انڈیا‘‘ کو نہ صرف سمجھائے کہ وہ اعتدال توازن کے دائرے میں واپس آئے بلکہ قابو کریں۔ پاکستان کمزور نہیں اورنہ ہی اب1971ء والے حالات ہیں۔ ہماری فوج پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم لڑی میں بندھی ہوئی ہے۔ قوم اور دانشور اس معاملہ میں جذباتی اور یکسو ہیں کہ اب انڈیا کی کسی دھمکی، بزدلانہ کارروائی کو برداشت نہیں کرنا۔ بھارت سے پر امن تعلقات کی خواہشات اب ہمسائے کی بلیک میلنگ، گھنائونی وارداتوں کے بھاری پتھر تلے کچلی جاچکی ہیں امن ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے مگر آزادی، قومی خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ اقوام متحدہ اپنے مردہ جسم میں طاقت کا انجکشن لگوالے تو شاید دنیا کا ایک وسیع علاقہ متوقع تباہی سے محفوظ ہو جائے۔ ’’داعش‘‘ کے لوگوں کو پاکستان لانے اور ڈرٹی بم دینے کے بیانات آگ لگانے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمسایوں کے معاملات میں اپنی گندی سازشوں کی تکمیل اور مداخلت کو فخریہ انداز میں بیان کرنے والے ملک کے متعلق ’’اقوام متحدہ‘‘ کو غافل نہیں رہنا چاہئے۔ اس پرخطر لمحہ میں ہم سب کو اندرونی تنازعات بھول کر بیک آواز دشمن کو جواب دینا چاہئے۔ رنگ برنگے پرچموں کو سرنگوں کر کے ایک سبز ہلالی پرچم کو متحدہ ہاتھوں سے بلند کردیں۔ کیونکہ دشمن گمراہ کن سازشی ہے۔

مزیدخبریں