واشنگٹن (نیٹ نیوز+ اے پی پی) امریکہ نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے سکیورٹی کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کریں۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک سی ٹونر کی پریس بریفنگ کی مزید تفصیل کے مطابق انہوں نے کہا کہ امریکہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان قریبی تعلقات سے افغانستان سمیت سب کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو اس بارے میں کوئی احساس نہیں ہے کہ افغانستان میں مفاہمت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نیوکلیئرسپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کیلئے اپنا کیس خود 48 رکنی این ایس جی گروپ کے سامنے پیش کرے، پاکستان اور بھارت سے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے، طالبان کو بھی مفاہمتی عمل کا حصہ بننا چاہیے، امید ہے طالبان کو جلد احساس ہو جائیگا کہ افغانستان کو مفاہمت کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کو مزید حملوں کا اختیار دیا گیا ہے تاہم امریکی افواج کی بنیادی ذمہ داری افغان فوجوں کو ٹریننگ دینا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ پاکستان کی این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے میں مدد کیوں نہیں کررہا، مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی این ایس جی میں شمولیت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا جاتا ہے، کسی ایک ملک کی حمایت سے پاکستان کو این ایس جی کی رکنیت نہیں مل سکتی۔ بھارت بھی این ایس جی گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے، اگر پاکستان بھی جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کام کرنے والے گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو پاکستان کو 48 رکنی گروپ کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ مارک ٹونر نے کہا کہ وہ نریندر مودی کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور ہم سب کو اس کیخلاف ملکر کام کرنا ہوگا اور امریکہ اس حوالے سے اپنی کوشش کر رہا ہے۔کسی بھی ملک کی این ایس جی میں شمولیت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا جاتا ہے، کسی ایک ملک کی حمایت سے پاکستان کو این ایس جی کی رکنیت نہیں مل سکتی، بھارت بھی این ایس جی میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان کے این ایس جی میں شمولیت کے امکانات نہیں کیونکہ پاکستان کو امریکہ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔
امریکہ