بڑا کٹھن ہے خزاںکے ماتھے پرداستانِ گلاب لکھنا

اللہ کا قانون ہے کہ جب ہر شاندار جگہ پر یادگار بلند عمارتیں بلا ضرورت انتہائی مضبوط اور کاریگری سے بنائی جائیں اور یوں لگے کہ ہمیشہ یہی رہنا ہے تو بظاہر تو معیار زندگی بڑا بلند ہو جاتا ہے مگر معیار انسانیت اتنا گر جاتا ہے کہ لوگوں پر ظلم اور استبداد کی گرفت شدید ہو جاتی ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ ظالم بستیاں ہم مٹا کر نئے لوگ لے آتے ہیں۔مال اور بیٹوں پر فخر کرنا دنیا کی زیبائش ہے ،ختم ہو جائے گی۔ لوگوں کی فلاح کیلئے اچھے عمل کئے تو یہ دنیا و آخرت میں کام آئیں گے۔ اچھے اعمال کا آغاز پاکیزہ گفتگو سے ہوتا ہے جس کی مثال ایسے پاکیزہ پھل دار درخت سے دی گئی جس کی جڑیں پکی اور شاخیں آسمان تک پہنچ جاتی ہیں اور جو اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے۔یہ کسی بھی قوم یا فرد کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ اپنے کردار میں اندازِ گفتگو کیلئے پاکیزہ کلمات چنتے ہیں یا کلماتِ خبیثہ مگر یاد رکھیے کہ حدیثِ مبارک ہے کہ ’بندے کو زبان کی تیزی سے بڑھ کر اور کوئی بری چیز نہیں دی گئی؛پھل دار درخت کی طرح ایک فائدہ مند انسان بننا قوموں کو تعلیم و تربیت سے نصیب ہوتا ہے۔تعلیم تو علم کے چشموں سے حاصل ہوتی ہے اور تربیت چلتے پھرتے رول ماڈل رہنما و¿ں سے سیکھی جاتی ہے۔ رہنماءوہ نہیں ہوتا جو اپنے پیچھے پیرو کاروں کی اکثریت چھوڑ جاتا ہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو اپنے پیچھے اعلیٰ درجے کے کئی رہنماءاپنی تعلیم و تربیت سے پیدا کر کے رخصت ہوتا ہے ۔عوام اور درباری ہمیشہ اپنے بادشاہ کے سٹائل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے غصے سے محسنِ انسانیت کا نامہ مبارک پھاڑ ڈالا اور صوبہ یمن کے گورنر سے کہا کہ مدعی نبوت کو میرے حضور پیش کیا جائے۔ دوتوانا جوان یمن سے آئے اور گورنر یمن کا خط آپ کو پیش کیا۔ سیرت نگاروں نے ان کے نام بابویہ اور خر خسرہ لکھے ہیں۔یہ ویاں کے دستور کے مطابق داڑھی منڈائے اور مونچھوں کو متکبرانہ اندار میں بل دیتے ہوئے آئے۔نبی اکرم نے پوچھا کہ متکبرانہ انداز کی تعلیم تم نے کہاں سے حاصل کی؟ بابویہ نے کہا ؛ ہمارے بادشاہ کا یہی طرز ہے اور ہم سب اسی کو محبوب رکھتے ہیں؛ آپ نے فرمایا کہ ہمارے مالک نے تو یہ حکم دیا ہے کہ باوقار زندگی اختیار کریں، داڑھی بڑھائیں اور مونچھیں ترشوائیں، مغرور شخص اللہ کو پسند نہیں؛ ۔ آج سارے پاکستان میں جو بدتمیزی کا ایک طوفان پھیلا ہوا نظر آ رہا ہے یہ یہاں کے لیڈران کا کمال ہے۔ اس کے سب سے پہلے اثرات تو ان کے درباریوں، وزیروں اور مشیروں میں نظر آتے ہیں۔ ان کی آل اولاد کا رویہ اور انداز گفتگو اپنے بزرگوں کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔بعض اوقات تو یہ درباری اور اولاد ساری حدوں کو کراس کر کے اپنے بڑوں کیلئے شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس کی مثال چند دن پہلے ایک اخباری اشتہار کے ذریعے مشہور گدی نشیں کے معذرت نامہ کی اشاعت عام ہے۔ نہال ہاشمی کا بھی یہی حال ہے۔ اس نے کبھی کسی پاکیزہ گفتگو والے سے تربیت حاصل ہی نہیں کی۔مزے کی بات یہ ہے قوم کو ” غلط طرز عمل“ کے راستے پر لگانے والے سارے مشہور رہنماءہیں ۔ سب کی عالمی شہرت ہے۔ عمران خان،نواز شریف، شہباز شریف۔ آصف علی زرداری۔الطاف حسین۔ ان کی ریکارڈیڈ تقریریں تاریخ کا حصہ رہیں گی۔وژن یہ ہوتا ہے کہ لیڈر دور اندیش ہوتا ہے۔ نظر مستقبل پر ہوتی ہے۔ اگلی جنریشن کو مستقبل کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے بغیر tolerance آ ہی نہیں سکتا۔یہ قانون خضر علیہ سلام نے قران میں لکھا گیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ تم کیسے صبر کر سکتے ہو جب کہ تمھارا علم ان باتوں پر محیط نہیں ہے؛۔ تعلیم سے روشنی اور راہ متعین ہوتی ہے اور تربیت سے عمل بنتا ہے۔عمل ہی سے پھر جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہوگا۔
کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ” یہاں زمین سے بڑی چیز جو نظر آتی ہے وہ آسمان ہے۔ مگر اندھیرا چند مربع فٹ پر بھی نافذ ہو جائے تو اپنی وسعت اور پھیلاو¿ میں آسمان سے زیادہ ہے؛ ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اس ملک میں اندھیرے چاہتے ہیں یا روشنی۔آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پاکیزہ گفتگو اور کھانا کھلانا دین ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے جو ہمارے لیڈروں کو قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال ؒ کی تقاریر سنا سکے۔ایک ایک لفظ عمل کے قابل ہے۔مذہبی لیڈران بھی کبھی احسن رول ماڈل نہ بن سکے۔ ان کے ہاں بھی سونے چاندی کی چمک نے کمال دکھایا ہوا ہے۔ کیا حضرت علی ؓ کا انہوں نے یہ قول نہیں سنا؛ اے پہلے سونے اور سفید چاندی ! تمھیں فریب دہی کیلئے کسی اور کو پسند کرنا ہوگا؛ مذہبی ماڈل بھی پاکیزہ گفتگو کے حامل نہیں ہیں۔ حسنِ سلوک کی سخت کمی نظر آتی ہے۔ لوگ ان کے رویہ سے مایوس نظر آتے ہیں مگر گنے چنے چند لوگوں کے۔اخلاق بڑی طاقت ہے۔ دنیا کی عظیم قوموں میں جب یہ وصف ختم ہو گیا تو یہ قومیں بھی ختم ہو گئی۔ اقبال ؒ کہتے ہیں؛
بکشائے لب کہ قند فراوانم آرزو است
بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزو است
باتیں تو خوشبو جیسی بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کی شیرینی اور پاکیزگی کے اثرات زیادہ گہرے اور فائدہ مند ہوتے ہیں۔ آج جو سڑکوں پر، بازاروں میں یا گھر کے اندر تلخی پھیلتی جا رہی ہے وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں تیزی سے بدل جاتی ہے۔ قومی رہنماو¿ں کو اپنی ذاتی ایمپائر کو وسیع تر کرنے کے بجائے عام لوگوں کے مستقبل کو بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔ شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات۔

ای پیپر دی نیشن