انتقامی سیاست کو پروان نہ چڑھائیں

گزشتہ دنوں مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے ایم این اے جمشید احمد خان دستی کو صوبائی وزیر پانی وبجلی کے حکم پر گرفتار کرکے سنٹرل جیل مظفرگڑھ میں پابند سلاسل کردیا ہے ۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی ملاقات کیلئے آنے والوںجن میں شاہ محمود قریشی،جاوید ہاشمی ،عامر ڈوگر سمیت کئی اہم شخصیات کو ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے کی بلاوجہ بند کی گئی نہریں کھول کر کسانوں کو پانی مہیا کردیا ہے جو حکومت نے جمشید دستی کو منتخب کرنے والے غریبوں کسانوں کو سزا دینے اور انتقام لینے کیلئے بلاوجہ بند کر رکھی تھیں۔ اب جبکہ کپاس سمیت موسمی فصلوں کو پانی کی اشد ضرورت تھی پانی کی مصنوعی قلت کی وجہ سے نہ صرف کسان بدحال تھا بلکہ معیشت کو بھی شدید نقصان ہورہا تھا۔کیونکہ مظفرگڑھ کے دونوں قومی حلقوں میں وسیع وعریض علاقہ ہے جہاں لاکھوں ایکڑ قابل کاشت رقبہ ہے ۔قومی وملکی اور کسانوں ،مزدوروں کے مفاد میں جمشید دستی جو پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں نے بروقت اقدام کرکے انتقامی طور کئے گئے حکومتی اقدام کا توڑ کیا ہے جس پر جہاں کسانوں ،مزدوروں اورعام شہریوں میں نہ صرف خوشی کی لہر دوڑ گئی بلکہ ان کے اس اقدام کو سراہا گیا۔ جمشید دستی کو عرف عام میں 1122بھی کہا جاتاہے۔ان کے نزدیک ترستی خشک ہوئی فصلوں اور کسانوں کے آنسو پونچھنے کا یہی واحد اور فوری طریقہ تھا۔ جمشید دستی کی ذاتی تو کہیں بھی فصل کاشت نہیں تھی ۔گرفتاری سے جمشید دستی کی شہرت اور ان سے عوامی ہمدردیوں میں اضافہ ہوا ہے اور جمشید دستی کی طویل گرفتاری ان کی شہرت میں دن بدن اضافہ کررہی ہے ۔اگر یہ گرفتار ی کئی مہینوں تک رہی تو آئندہ الیکشن جس میں اب 9ماہ رہ گئے ہیں اس 9ماہ میں ان کی یقینی کامیابی پوری طرح پرورش پاجائے گی۔حکمرانوں اور سیاسی مخالفین کے پاس انتخابی نعرہ کوئی بھی عوام کو تاحال قبول نہ ہوگا۔مظفرگڑھ میں زیادہ تر غریب مزدور کسان ہیں جنہیں نواب،قریشی،گورمانی،دستی،گوپانگ،جتوئی جمشید دستی کی طرح نہ مل سکتے ہیں نہ ہی اپنائیت جتا سکتے ہیں ۔اس لئے جمشید دستی کی گرفتاری کا ہر دن بلکہ ہر لمحہ جمشید دستی کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوگا۔ممکن ہے جب یہ تحریر شائع ہو اس وقت تک صورتحال تبدیل ہوچکی ہو۔ان کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے ۔مظفرگڑھ اور دیگر اضلاع سے ان کے ووٹر زاور حامی مظفرگڑھ پہنچنا شروع ہوئے تو میڈیا کے ذریعے خبر چلی کہ جیل حکام نے ان سے ملاقات پر پابندی لگا رکھی ہے کسی کو ملنے نہیں دیا جارہا ۔اس کا حکومت کو یہی فائدہ ہوا ہے کہ جو دور دراز سے یا حلقہ سے لوگ جیل میں ان سے ملاقات کیلئے آنے کے خواہش مند تھے وہ مایوس ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ان کے دست راست چوہدری کرامت نے لوگوں کو فون کرکے روکا کہ آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔جن لوگوں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے انہیں بھی یہی کچھ کہاجس سے لوگوں میں مایوسی پھیلی اور وہ ملاقات کا شوق دل میں لئے گھروں میں ہی بیٹھ گئے ۔باوجود اس کے بڑی تعداد مسلسل مظفرگڑھ جیل کے چکر کاٹ رہی ہے۔ممکن ہے ان سے ملاقات کو مشکل بنانے کیلئے انہیں دوردرازجیل میں بھجوا دیا جائے ۔جیسے لاہور سے سیاسی ومذہبی قیدیوں کو میانولی، حیدرآبادقلعہ،مچھ جیل،بہاولپور،اڈیالہ،کوٹ لکھپت اور نیوسنٹرل جیل ملتان بھجوایا جاتا رہاہے۔ممکن ہے کوئی اس معاملے کی بڑھتی ہوئی سنگینی کوبھانپ کر جمشید دستی کی رہائی کا حکم بھی جاری کردے ۔حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ خوشامدیوں سے نکل کر ملک کو شدید بحرانوں سے نکالیں ۔نہ کہ انتقامی سیاست کو پروان چڑھائیں۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن