سعودی عرب قطر تنازعہ خلیجی ممالک کے لئے نہیں پورے عالمِ اسلام کے لئے تشویش کا باعث جب کہ بین الاقوامی برادری کے لئے دلچسپ موضوع بنا ہوا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں تو یہی چاہتی ہیں کہ اسلامی ممالک آپس میں دست و گریباں ہو کر دنیا میں تماشا بنے رہیں۔ سعودی عرب اور قطر تنازعہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے، مصر میں جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے والی اخوان المسلمین کی حکومت کا 3جولائی 2013ء میں ایک خونی فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ مصر میں جمہوری حکومت کے خاتمے اور ایک اسلامی تحریک کو نشانہ بنائے جانے پر ترکی اور قطر نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔ اسی بناء پر قطر اور سعودی عرب میں 2014ء میں بہت سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ بعد میں مختلف ممالک کی ثالثی کے نتیجے میں حالات معمول پر آ گئے تھے۔ اخوان المسلمین مشرقِ وسطیٰ میں ایک منظم، مضبوط اور امن پسند جماعت ہے جو جمہویت پر یقین رکھتی ہے اور تشدد سے دور تک اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ 2012ء کے عرب بہاریہ میں جب مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو اخوان المسلمین جمہوری طور پر منتخب ہو کر آئی، محمد مرسی صدر بنائے گئے انہوں نے عالمِ اسلام کو متحد کرنے اور قرآن کے نظام کو نافظ کرنے کی تحریک چلائی۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں کہا کہ جو ہمارے اللہ اور ہمارے رسول کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ محمد مرسی کا یہ جملہ امریکہ کو برداشت نہیں ہو سکا، اخوان کی حکومت انہیں اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نظر آنے لگی اور یہ خدشہ ستانے لگا کہ کہیں مرسی عالمِ اسلام کو اکٹھا نہ کر لیں۔ اس طرح مشرقِ وسطیٰ سے انہیں بے دخل ہونا پڑ سکتا ہے اس لئے اخوانیوں کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
قطر کے خلاف سعودی عرب نے اپنے اس جارحانہ اقدام کی وجہ اخوان، حماس کی حمایت اور ایران سے تعلق بتایا لیکن ٹرمپ نے ٹوئیٹ کر کے سارا بھانڈا پھوڑ دیا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے۔ ٹرمپ کے بقول سعودی عرب نے قطر کے خلاف یہ سب ہمارے کہنے پر کیا ہے، قطر پر پابندی اسلامی انتہاء پسندی کے خلاف جنگ کی ابتداء ثابت ہو گی، ٹرمپ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ سعودی عرب ہمارے پڑھائے ہوئے سبق پر عمل پیرا ہے۔ادھر نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ خیالات نے ایک بار پھر ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دنیا کی بڑی قوت ہونے کے ناطے معاملے کو سلجھانے کی بجائے وہ سعودی عرب اور چار دیگر ممالک کے حق میں کھڑے ہو گئے ہیں جو اپنے پڑوسی ملک قطر کو الگ تھلگ کرنے اور ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جرمنی نے اپنے ردِ عمل میں امریکی صدر کو مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں ایک نئی جنگ شروع ہو سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں خلیجی ممالک کو کوشش کرنی چاہئے کے اپنے معاملات کو خود حل کریں اور اپنے ہاں کسی نئی آفت کو دعوت نہیں دینی چاہئے۔ حیرت کا مقام ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی کو کم کرنے میں معاون ہونے کی بجائے ایک گروپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، مصر ،بحرین اور یمن نے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات توڑنے کا قدم بہت وجوہات کی بناء پر اٹھایا ہے، ان میں سے کئی تو انتہائی معمولی نوعیت کی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ قطر کے ایران سے قریبی تعلقات ہیں جو کہ ان ملکوں کا حریف ہے۔ ادھر قطر ایران کے ساتھ بگاڑ نہیں سکتا ہے کیونکہ محلِ وقوع کے اعتبار سے قطر کے گیس کے ذخائر ایران سے متصل ہیں۔ ایران سے کشیدگی کی صورت میں یہ بات یقینی ہے کہ اس کی گیس ایران کی سر زمین سے نکال لی جائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ خام تیل کی قیمت دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اس کے مقابلے میں گیس کی ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور یہ ایندھن کا اہم ذریعہ بن رہی ہے۔ ایسی صورت میں ایران سے دوری اختیار کرنے کے نتیجے میںاس کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایران کو موقع نہیں دینا چاہتے اور انہیں ابامہ کی کامیاب پالیسی پر آگے بڑھنے سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
قطر بھی ڈٹا ہوا ہے اور وہ متعدد عرب ممالک کے ساتھ جاری کشیدگی پر خارجہ پالیسی تبدیل کرنے ہر تیار نہیں ہے۔ قطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے ان ممالک کے الزام کے بے بنیاد اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے چونکہ ہم ترقی کر رہے ہیں اس لئے ہمیں تنہا کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہم امن کا پلیٹ فارم ہیں دہشت گردی کا نہیں اور کبھی بھی اپنی آزاد خارجہ پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ قطر دنیا کی ایک اہم ریاست ہے، معاشی طور پر دنیا کا مضبوط ترین ملک کہلاتا ہے، وافر مقدار میں تیل اور گیس کے ذخائر اس کے اپس موجود ہیں۔ یہ تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے جب کہ ایک جانب سے اس کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں۔یہاں کی کل آبادی 27لاکھ ہے لیکن اس میں سے 24لاکھ غیر ملکی اور صرف تین لاکھ مقامی باشندے ہیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد 1916ء میں یہ ملک برطانیہ کے زیرِ انتظام آ گیا،1971ء جب برطانیہ کے تسلط سے عرب ریاستوں کوآزادی ملنا شروع ہوئی تو قطر نے متحدہ ارب امارات سے علیحدہ ایک آزاد عرب اسٹیٹ کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی، اسلامی قوانین کو ملکی آئین کا حصہ بنایا۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کے باوجود قطر حماس کا معاون رہا ہے، اخوان المسلمین کو شروع سے قطر کی اخلاقی حمایت حاصل رہی ہے، حسنی مبارک کے دور میں جب مصر کی سرزمین پر اخوانیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، اخوانی علماء کو پھانسی دی گئی تو ایسے وقت میں قطر نے اخوانیوں کا استقبال کیا، اپنے یہاں پناہ دی جن میں عالمِ اسلام کے عظیم اسکالر اور فقیہ علامہ یوسف الفرضاوی بھی شامل ہیں جو گزشتہ 40سالوں سے قطر میں مقیم ہیں۔ حالیہ دنوں میں عرب ممالک نے مشترکہ طور پر جن 50شخصیات اور 12اداروں پر دہشت گردی کے لئے سرمایہ اور قطر سے امداد لینے کا الزام عائد کیا ہے ان میں علامہ یوسف بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کی جانب سے عرب و مسلم دنیا کے اہم رکن قطر کے سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کے قطعی غیر متوقع فیصلے نے عالم اسلام کے اتحاد کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔امید ہے کہ ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ملک عرب دنیا میں ابھرنے والے اس تازہ تنازع کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب کوششیں کریں گے اور پہلے ہی سے کئی خانہ جنگیوں کی شکار مسلم دنیا کو کسی اور طویل بحران میں مبتلا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض عالمی طاقتیں مسلم امہ کو آپس میں الجھا کرمعدنیات، تیل کے ذخائر، سونے اور سمندروں پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ مسلم امہ کے لئے موجودہ بحران ایک کڑا امتحان ہے جس میں سرخرو ہونے میں ہی مسلمانوں کا مفاد ہے۔
؎
خلیجی تنازعہ مسلم امہ کے لئے کڑا امتحان
Jun 12, 2017