برطانوی انتخابات پھر HUNG PARLIMENT کا شکار ہو گئے

برطانوی عوام کو اس مرتبہ یہ ہرگز اندازہ نہ تھا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی کنزرویٹو پارٹی کو عام انتخابات میں اس قدر زوردار سیاسی دھچکے سے دوچار ہونا پڑے گا کہ بڑے بڑے سیاسی بُرج الٹ جائیں گے۔ ووٹروں کو یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ لیبر پارٹی بعض حلقوں میں ٹوری پارٹی پر سبقت لے جائے گی۔ ہا¶س آف کامن میں 326 نشستیں جیتنے کے لئے LIBRAL DEMOCRATE‘ UXIP‘ اور دیگر کئی چھوٹی سیاسی پارٹیوں نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر تینوں بڑی پارٹیوں سمیت کوئی پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت اس بار بھی حاصل نہ کر سکی۔ تھنک ٹینک اور سیاسی مبصرین ٹوری پارٹی کی BRIXIT کے حوالہ سے کارکردگی پر پہلے ہی یہ پیشگوئی کر چکے تھے کہ پارٹی اپنا ووٹوں کا ہدف پورا نہیں کر پائے گی جبکہ EXIT POLE انہی امکانی نتائج پر کئے گئے عوامی سروے میں بھی یہ PREDICTION شامل تھی کہ ٹوری پارٹی اس مرتبہ بھی اکیلے حکومت نہیں بنا پائے گی۔ چنانچہ امکانی نتائج کے بارے میں کیا یہ سروے درست نکلا حالانکہ گذشتہ انتخابات میں EXIT POLE کی پیشگوئی درست نہ تھی۔ کنزرویٹو پارٹی نے ان انتخابات میں 318 سیٹیں جبکہ لیبر پارٹی نے 262 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ہاﺅس آف کامنز کی ووٹنگ کے لئے برطانوی عوام نے 650 ارکان منتخب کرنے کے عمل میں تقریباً 4 کروڑ 69 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں نے حصہ لیا جبکہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں 5 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر اس مرتبہ زیادہ تھے۔ برطانیہ بھر میں قائم 40 ہزار پولنگ سٹیشنوں پر ووٹنگ کا عمل صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک جاری رہا۔ ووٹ ڈالتے وقت پولیس کا خوف نہ فراڈ اور ہیرا پھیری کا ڈر، نہ کوئی سیاسی کیمپ‘ نہ کوئی تعطیل‘ نہ دفتر بند، لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج میں مگن رہے کچھ نے کام پر جانے سے قبل اور بعض افراد نے کام سے واپس آ کر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اپنی پسندیدہ پارٹی کے امیدوار کو میں نے اپنا ووٹ اپنے بزرگ دوست ریٹائرڈ کیپٹن فریڈ کے ہمراہ جن کا قیام پاکستان کے حوالہ سے ”ولایت نامہ“ میں اکثروبیشتر ذکر بھی کرتا رہتا ہوں مقامی پولنگ سٹیشن پر ڈالا۔ فریڈ کو اردو پر چونکہ خاصی دسترس حاصل ہے اس لئے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے اپنی پارٹی کے امیدوار کو دیئے ووٹ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا کہ کیپٹن فریڈ برطانیہ کو آج بھی ”گریٹ برٹن“ تصور کرتے ہیں جبکہ میرا ان سے یہ اختلاف ہے کہ برطانیہ اب united kingdom ہے برطانوی قدروں اور وضع داریوں کو وہ جوانی میں چونکہ دیکھ چکے ہیں اس لئے ہماری بحث کا اصل نقطہ عوام کی فلاح وبہبود ہوتا ہے۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد یہ جاننا کہ ووٹ کس پارٹی کے امیدوار کو دیا؟ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں آپ کو یہاں بتانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہماری پاکستانی سیاست میں مائع لگے کڑک شلوار کُرتے اور واسکٹیں زیب تن کئے لفظ ”انشاءاللہ کامیاب“ کے بینروں تلے بلدیاتی اور قومی انتخابات لڑنے والے امیدواروں اور جعلی ڈگریوں کے زور پر اسمبلیوں تک پہنچنے والے ”عوامی خدام“ جن میں اراکین اور وزراءکی بھاری تعداد شامل ہے کو معلوم ہی نہیں کہ پارٹی ووٹ کی اہمیت اور اس کا احترام کیا ہے؟ ہمارے پولنگ مراکز پر اکثر و بیشتر چونکہ ”گلو¶ں بھٹوں“ اور ”ماجوں گاموں“ کا کنٹرول ہوتا ہے اسلئے ریٹرننگ افسران اور پریذائیڈنگ افسران کی ذمہ داریوں پر بھی ہم دھاوا بول دیتے ہیں اور یوں جعلی ووٹوں سے ایسے امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں جنہیں بعض حالتوں میں سیاست اور جمہوریت کا سرے سے ادراک ہی نہیں ہوتا۔ برطانوی قانون کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل کسی دوسرے شخص پر یہ ظاہر کرنا کہ ووٹ وہ کسے ڈالنے جا رہا ہے ایک جرم ہے جس پر 5 ہزار پونڈ تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے....؟ اسی طرح پولنگ سٹیشن کے اندر سلفیاں لینا درست نہیں۔ آپ کا پالتو کتا اور بلی پولنگ سٹیشن میں آپ کے ہمراہ جا سکتے ہیں مگر اس شرط پر کہ آپ کا کتا یا بلی انتخابی عمل میں کوئی خلل نہ ڈالیں۔ اس طرح معذور اور اپاہج افراد کو ووٹ کاسٹ کرانے کے لئے پولنگ مراکز میں خصوصی PUSH CHAIR راستے بنائے جاتے ہیں تاکہ معذوروں کو ووٹ ڈالنے میں کسی مشکل یا دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ BY POST ووٹ کی پہلے ہی سہولتیں موجود ہیں۔ ٹوری پارٹی بڑی پارٹی ہونے کے ناطے ا نتخابات میں اکثریتی ووٹ تو اب حاصل کر چکی ہے مگر حکومت بنانے کے لئے اسے ابھی مزید ووٹوں کی ضرورت ہو گی تاہم برطانیہ کی یہ حکومت HUNG PARLIMENT ہی ہو گی۔ معلق پارلیمنٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی اکیلی مطلوبہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکی۔ برطانوی جمہوریت کی ایک اور خوبصورتی یہ بھی ہے کہ WRITTEN CONSTITUTION نہ ہونے کی بنا پر معلق پارلیمنٹ کا فیصلہ بھی کثرت رائے سے ہی کیا جاتا ہے۔ HUNG PARLIMENT چونکہ ایک انتہائی الجھا مگر وسیع موضوع ہے اس لئے اس میں مخلوط حکومت بھی بن سکتی ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں میں سے ایک جماعت دوسری چھوٹی جماعت کے ووٹوں سے اقلیتی حکومت بھی قائم کر سکتی ہے۔ ٹوری پارٹی جو 310 سیٹیں حاصل کر چکی ہے اسے پارلیمنٹ بنانے کے لئے اب مزید 8 سیٹوں کی ضرورت ہو گی۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم ٹریسامے نے شمالی آئرلینڈ کی DEMOCRATIC UNIONIST PARTY کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا ہے۔ D.U.P سے اگر ٹوری پارٹی کا اگراتحاد ہو گیا تو شمالی آئرلینڈ کی اس پارٹی میں GIVE+TAKE کو نظرانداز کرنا ممکن نہ ہو گا۔ فی الحال یہ کہنا کہ ٹوری پارٹی واقعی حکومت بنا سکے گی۔ یا پھر لیبر پارٹی کے سربراہ جیری کورین دیگر پارٹیوں سے اتحاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ قبل از وقت ہے کہ ہینگ پارلیمنٹ یا مخلوط حکومت بنانے کے لئے دیرپا لائحہ عمل تیار کرنے میں ابھی وقت درکار ہو گا تاہم زیادہ امکان یہی ہے کہ ٹوری پارٹی کچھ لو اور دو کے فارمولے کے تحت شاید ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی سے اتحاد کر لے۔ دیگر برطانوی شہروں کی طرح وسطی لندن میں بھی ٹوری پارٹی کو پہلی بار شدید سیاسی دھچکا لگا کہ دو انتہائی اہم سیٹوں پر لیبر نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انتخابات میں مجموعی طور پر 56 بھارتی نژاد جبکہ 30 پاکستانی نژاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ جن میں سے 12 امیدوار کامیاب ہوئے جن میں 9کا تعلق لیبر پارٹی اور 3 کا تعلق ٹوری پارٹی سے ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ منجیت سنگھ پگڑی پہننے والے سکھ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔ دوسری جانب برطانوی وزیراعظم ٹریسامے نے اعلان کر دیا ہے انتخابات میں سادہ اکثریت کے باوجود وہ نئی حکومت بنائیں گی۔

ای پیپر دی نیشن