امید وار وں کا چناﺅ

نگران حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں، سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ اپنی اپنی جماعت کے امیدواروں کا چناﺅ کرنے میں مصروف ہیں۔ پی ٹی آئی اس ضمن میں بازی لے گئی ہے اور پہلے مرحلے میں انہوں نے قومی اسمبلی کی 272جنرل نشستوں کے لئے 173امیداروں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لئے بھی 290امیدوار قوم کے سامنے پیش کر دئیے ہیں۔پیپلزپارٹی جو کہ اب سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ہے اس نے سندھ سے اپنے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے جبکہ سوموار کو جناب زرداری لاہور پہنچے ہیں جہاں وہ اپنی نگرانی میں صوبہ پنجاب سے قومی وصوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا چناﺅکرینگے۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس کار خاص میں مصروف ہیں۔ مرکز اور پنجاب کی سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے دل ماڈل ٹاﺅن میں ایچ 180میں پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کر رہی ہے۔ مسلسل سات روز سے انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے۔35رکنی پارلیمانی بورڈ میں نواز شریف ، شہباز شریف ، راجہ ظفرالحق ، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال ، خواجہ سعد رفیق ، سردار ایاز صادق، پرویز ملک ، مریم نواز شریف ، حمزہ شہباز و دیگر شامل ہیں۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے مسلسل چھ چھ گھنٹے امیدواروں سے انٹرویو کیے ہیں۔ بسا اوقات اس بورڈ کے چند ارکان جن میں پرویز ملک ، سردار ایاز صادق ، خواجہ سعد رفیق شامل ہیں الگ سے بھی انٹریو لینے کی ذمہ داری ادا کرتے پائے گئے۔ غالباً اب کام تیزی سے نمٹانے کےلئے ایسا کیا گیا ۔ تاحال مسلم لیگ ن نے اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی حتمی فہرست تیار نہیں کی۔ لاہور کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ صدر مسلم لیگ ن لاہور پرویز ملک اور جنرل سیکرٹری لاہور خواجہ عمران نذیر سمیت سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اپنے حلقوں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ خواجہ عمران نذیر 2013میں جہاں سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے وہاں سے اس مرتبہ قرعہ فال سمیع اللہ خان کے نام نکلنے کو ہے۔ سمیع اللہ خان جینوئن سیاسی کارکن ہیں۔ 2002میں پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر اس حلقے سے رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری رہے، خاصے متحرک اور فعال تھے لیکن جناب زرداری پیپلزپارٹی کو ڈبو نے پر تل گئے تو انہوں نے کسی اور جماعت میں جانے کی بجائے حمزہ شہباز شریف کے ہاتھ پر بیعت کرنی بہتر سمجھی ۔ مسلم لیگ ن میں نئے آنےوالوں کو بمشکل ہی اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے لیکن اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمیع اللہ خان نے حمزہ شہباز کے دل میں بسیرا کر لیا اور انہیں ان کی سربراہی میں قائم پنجاب پبلک افیئرز یونٹ کا ممبر بنا لیا گیا۔ پرویز ملک جس حلقے سے 2013میں رکن قومی اسمبلی بنے وہاں سے اس مرتبہ مریم نواز شریف الیکشن لڑیں گی۔ 2002میں جب میاں نواز شریف جلا وطن تھے پرویز ملک نے ان کے حلقہ انتخاب این اے 120سابق اور موجودہ این اے 125سے الیکشن جیتا تھا لیکن 2008میں اس حلقے سے رکن پنجاب اسمبلی بلال یٰسین کو پروموٹ کرکے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوا دیا گیا جو انہوں نے بھاری اکثریت سے جیتا۔ بلال یٰسین اب بھی اس حلقے سے فیورٹ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہُما ان کے سر بیٹھتا ہے یا یہاں سے پرویز ملک یا سردار ایاز صادق کو لایا جاتا ہے۔ ایک اور دلچسپ حلقہ این اے 126 ہے جہاں سے میاں مرغوب احمد اور مہر اشتیاق دونوں قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ اسی حلقے کو دلچسپ اس لئے کہا ہے کہ یہاں سے 2008میں میاں مرغوب احمد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ نیچے صوبائی حلقے سے ایک طرف رانا مشہود اوردوسری طرف مہر اشتیاق رکن پنجاب اسمبلی چنے گئے جبکہ الیکشن 2013میں الٹا سرکل چل گیا۔ مہر اشتیاق رکن قومی اسمبلی اور میاں مرغوب انکے حلقے سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ دوسرے صوبائی حلقے میں حسب سابق رانا مشہود احمد خان منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ میاں مرغوب ، مہر اشتیاق کے ساتھ رانا مشہود بھی اس حلقے سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے خواہش مندہیں۔ لاہور کا سب سے بڑا سیاسی دنگل قومی اسمبلی کے سابق حلقہ این اے 125کے تین ٹکڑوں میں بٹ جانے والے حلقوں این اے 129، این اے 131 اور این اے 132میں ہونے والا ہے۔
این اے 129میں خواجہ سعد رفیق بمقابلہ عبدالعلیم خان ، این اے 131خواجہ سعد رفیق بمقابلہ عمران خان اور این اے132میاں شہباز شریف بمقابلہ منشا سندھو سیاسی دنگل ہوگا۔میاں شہبازشریف نے الیکشن 2013میں منشا سندھو کو بھاری اکثریت سے ہرایا تھا۔خواجہ سعد رفیق کے سابق حریف حامد خان کو پی ٹی آئی نے اس مرتبہ ٹکٹ سے محروم کر دیا ہے۔ سابق حلقہ این اے 118موجودہ این اے 123میں مسلم لیگ ن کے ریاض ملک سے شکست کھانے والی پی ٹی آئی کے حامد زمان نے طویل قانونی جنگ لڑی تھی اس مرتبہ وہ بھی اپنی پارٹی کی جانب سے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جبکہ مسلم لیگ ن کے ریاض ملک کو اپنے ہی حلقے کے سابق رکن صوبائی اسمبلی غزالی سلیم بٹ کی مخالفت کا سامنا ہے۔ بٹ صاحب ایم این اے کا ٹکٹ لینے کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک ریاض اگر صوبائی الیکشن نہ لڑنا چاہیں تو انکے بھائی کو لڑایا جائے یا پھر مسلم لیگ ن کے کسی کارکن کو یہاں آزمایا جائے۔ لاہور میں مسلم لیگ ن کے کھوکھر برادران ملک افضل کھوکھر اور ملک سیف الملوک کھوکھر نے خاصااثرو سوخ قائم کر لیا ہے
اب نہ صرف ملک افضل کھوکھر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے بلکہ انکے بھائی ملک سیف الملوک کھوکھر بھی ملحقہ حلقہ این اے 136سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیںجبکہ انکے صاحبزادے ملک فیصل سیف الملوک نیچے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ یہ صورت حال مسلم لیگ ن ضلع لاہور کے سابق صدر چوہدری عبدالغفور میو کو قبول نہیں‘ مشرف دور میں چودھری عبدالغفور میو مسلم لیگ ن ضلع لاہور کے صدر اور ملک افضل کھوکھر جنرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے ۔ ان دونوں کے درمیان اس دور میں بھی سیاسی کشمکش جاری رہتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف دور میں دیہی علاقے سے ملک افضل کھوکھر مسلم مسجد لوہاری ہو یا کوئی اور مقام خاصے بندے لے کر آتے تھے ۔ وہ ہمیشہ الگ سے اپنا جلوس بنا کر لاتے تھے جس پر انکے صدر چوہدری عبدالغفور چین بجبیں ہوتے ان کا موقف تھا کہ مل کر چلا جائے تو زیادہ قوت بنے گی۔ بہر حال ان دونوں کی لڑائی جب شدت اختیار کر گئی تو قائدین نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو صوبے میں لے جائیں۔ ملک افضل کھوکھر چونکہ صلح جو قسم کا بندہ تھا لہذا اسے صوبائی کا نائب صدر بنا دیا گیا وہاں سے کھوکھر برادران کی قسمت کا ستارہ چمکا
لوگ انہیں نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں لیکن ملک افضل کھوکھر کی شرافت مسلمہ ہے تاہم اس خاندان نے جب سیاسی طور پر پاﺅں پھیلائے تو وہاں کی بڑی کمیونٹی میو برادری کے سرخیل چوہدری عبدالغفور میو انکے سامنے آگئے ۔ کھوکھروں کا ستارہ چمک اورچوہدری عبدالغفور میوکاستارہ گردش میں آگیا۔2013میں ان کی جگہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن میاں شہباز شریف نے لڑا اور جب وہ نشست خالی کی تو اس پر چوہدری عبدالغفور میو کو لانے کی بجائے کسی اور کو ٹکٹ دینا مناسب سمجھا ۔
میاں نواز شریف نے چوہدری عبدالغفور کی دلجوئی کرتے ہوئے انہیں پاکستان ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا اعزازی ایم ڈی لگا دیا تاہم چوہدری عبدالغفور میواب این اے 136رائے ونڈ سے پارٹی ٹکٹ کا امیدوار ہیں۔ چوہدری غفور کا دعویٰ ہے کہ اس حلقے میں 50ہزار میو آباد ہیں جبکہ کھوکھروں کی تعداد ایک ہزار بھی نہیں ہے۔ وہ چار مرتبہ مسلم لیگ ن کی طرف سے رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔ شریف خاندان کے وفادار ہیں۔ ان کی ایک خوبی جس کے ہم بھی گواہ ہیں کہ مشرف کے آمرانہ دور میں جب مسلم لیگ ن کو بڑی تقریب منعقد کرنے کےلئے کوئی ہوٹل یا جگہ دیتا تھا اور نہ کوئی وڈیرا اپنے یہاں تقریب منعقد کرنے کی جرا¿ت کرتا تھا۔ اس دور میں چوہدری عبدالغفور میو نے اپنے مدنی فارم ہاﺅس میں مسلم لیگ ن ورکرز کنونشن ، یوم تکبیر کی تقریب سمیت یوتھ ونگ کا ملک گیر کنونشن رکھا۔ ان پروگراموں میں چیئرمین راجہ ظفر الحق اور اس وقت کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا سمیت مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت شرکت کرتی رہی جبکہ ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کےلئے چوہدری عبدالغفور میو کھانے ، چائے پانی کا بھی بندوبست کرتے تھے۔ اس دور میں بھی میو اور کھوکھر فاصلے پر دکھائی دئیے، اب مسلم لیگ ن کی قیادت کا امتحان ہے کہ اپنے دونوں پیاروں کو کس طرح ساتھ لے کر چلتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن