پہلا منظر: پارلیمنٹ کے تیار کردہ ”انتخابی فارم“ کے حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کا محترم شاہد حامد کو عجلت میں وکیل کر کے سپریم کورٹ جانا، سپریم کورٹ میں محترم شاہد حامد کا محترم چیف جسٹس کے پندرہ سوالوں کے جواب دینے کی استطاعت کا فقدان، نتیجہ؟ انتخابی فارم تو برقرار مگر ”بیان حلفی“ کی نئی مصیبت مسلط ہو چکی ہے۔ شاہد حامد کی آئینی مہارت اور اسپیکر قومی اسمبلی کی بے چینی۔ آئین طریق کار سے بے ہنگم احتراز؟ سپریم کورٹ میں اسپیکر اور اس کے وکیل کی اتنی بے عزتی؟ شاہد حامد کو کتنی فیس جناب اسپیکر نے دی ہے؟ اس کا پتہ معلوم ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا درد اگر ہے تو سردار ایاز صادق کو یہ فیس ذاتی جیب سے اب ادا کرنی چاہیے۔ قوم کے خزانے پر جمہوریت کا درد اور وکلاءکی فیسیں جمہوریت کی یہ ڈرامہ بازی اب بند ہونی چاہیے۔ شاہد حامد، زاہد حامد، بریگیڈئیر حامد کے دو لخت جگر وہ سیاسی مرغیاں جو کٹ کٹ ”ایک گھر“ میں اور انڈے ”دوسرے گھر“ میں دینے کی تاریخ سے مزین ہیں۔ عملاً اسپیکر کا منصب اپنا وقار محمود بیٹھا ہے کہاں جونیجو عہد کے اسپیکرز اور کہاں نواز عہد کے اسپیکرز؟ شاہد صاحب کی پرانی فیسیں؟
دوسرا منظر: کالا باغ ڈیم اور آبی وسائل کے جامد موضوع پر جناب چیف جسٹس کا جارحانہ مگر قومی مفاد کا ترجمان عمل۔ خورشید شاہ کا ردعمل کہ تین اسمبلیاں کالا باغ ڈیم مخالف قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ لہٰذا یہ ڈیم نہیں بن سکتا۔ ہمارا توجہ دلاو¿ نوٹس تین اسمبلیاں واٹر ماہرین اور وژن سے عوام اراکین پر مشتمل تھیں پھر کالا باغ کے متبادل آبی وسائل کا کونسا دروازہ کھولا؟ کیا ایسی اسمبلیاں اور جمہوریت قدم اور خزانے پر مسلسل بوجھ نہیں ہیں؟ خشک سالی مسلط اور جمہوریت اور نام نہاد اسمبلیوں کی قرار دادوں کی بات کیسی مضحکہ خیز ذہانت باتیں ہیں۔ خشک سالی اور قحط میں ایسی جمہوریت اور اسمبلیاں عوامی ریلے میں بہہ جائیں گی۔ ذرا ریفرنڈم کرا لیں کہ عوام کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟ خورشید شاہ جیسے نام نہاد نابغے صرف بلیک میل کر کے اپنی سیاست اور انتخاب کو آسان بناتے ہیں ورنہ ذوالفقار علی بھٹو تو اس ڈیم کے مخالف تھے نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو، مخصوص مطلب پرست خود غرض سیاست کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں اب پی پی پی (ن) لیگ کے مد مقابل مرد میدان ہی نہیں؟ جناب چیف جسٹس کا شکریہ کہ انہوں نے آبی وسائل کے قومی مسئلے پر عدالتی فعالیت کا آپشن استعمال کیا ہے کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے۔ بے شک میانوالی کو پختون خوا کا حصہ بنا دیں اور بے شک ڈیم کا کنٹرول سندھ حکومت کو دے دیں۔ امید ہے چوہدری اعتراز احسن قومی مسئلے کے حل میں مثبت کردار ادا کریں گے۔
تیسرا منظر: ماڈل ٹاو¿ن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے نام پر ملکیتی پارتی کا شو، چوہدری نثار علی خاں کو ٹکٹ سے محروم رکھنے کی کاوش کے طور پر پارلیمانی بورڈ اجلاس، درخواستوں، انٹرویوز کا ڈرامہ....ورنہ ماضی میں چوہدری تنویر نے سینٹ رکنیت کے لئے نہ درخواست دی تھی نہ ہی انٹرویو کے لئے حاضری دی۔ پھر بھی نوازشریف نے چوہدری تنویر کا نام اپنے قلم سے فہرست میں سب سے پہلے لکھ کر انہیں ٹکٹ دے دیا تھا چوہدری نثار علی خاں کو مبارک ہو کہ وہ ڈراموں بھری پارلیمانی جماعت کے مدمقابل ہیں۔ جو کچھ نوازشریف کے ساتھ چوہدری نثار علی خاں اب کر رہے ہیں یہی عزت نفس رکھنے والے خورشید محمود قصوری نے ماضی میں پارلیمانی اجلاس میں فوراً لکھ کر دیا اور جرات سے کہا ”یہ لو اپنی دی ہوئی سیٹ“۔ چوہدری نثار کو مبارک ہو کہ مستقبل کی مسکراہٹیں انہیں اہم بنا رہی ہیں۔ جبکہ پورے شریف خاندان کو قصئہ ماضی چیف جسٹس کے حکم پر شہباز شریف کے گھر اور ماڈل ٹاو¿ن میں (ن) لیگ کے سیکرٹریٹ کے سامنے سے بھی رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ کیا ابھی بھی کسی کو شک ہے کہ شریف اقتدار کا سورج ڈوب رہا ہے۔ ڈوبتے سورج کی افق میں بھی کچھ وزیراعظم مریم نواز کو بتا رہے ہیں؟ حیرت ہے کہ تین وزیراعظم ایک ہی گھر میں، گلہریاں اب پردھان ان اجڑے باغوں میں حضور، خوشامدی کالموں کا عہد بیت چکا ہے۔ عید کے بعد تو تلخ موسم زیادہ نمایاں ہونے جا رہے ہے۔ انتخابی التواءمنظر نامہ چیف جسٹس نے شریف خاندان کے زیر سماعت مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ گویا وسط جولائی میں فیصلے آئیں گے۔ وسط جولائی سورج گرھن پھر اگست میں سورج گرھن، گرھن کے حوالے سے علماءنجوم و افلاک کا اپنا موقف جبکہ علمائے نجوم ہندو بدھ مت کا دوسرا موقف مگر دونوں کے نزدیک شدید نقصان، ہمارا موقف جو آپ نے گرھنوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔ مگر جولائی و اگست میں ایک تو انتخابی عمل میں بیرونی مداخلتیں لازماً ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے نمایاں شخصیات کو بیرونی ایجنٹ قتل کریں جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں شہید کیا گیا تھا۔ تمام شخصیات اپنی حفاظت کریں۔ عید کے اجتماعات پر خصوصی حفاظتی بندوبست کی ضرورت ہے۔ انتخابی عمل نئی حکومت کے لئے بلکہ انتخابی عمل خراب کرنے کے لئے ہوگا کیونکہ (ن) لیگ میں تھاب گروپ اب حاوی اور شہباز شریف مغلوب ہیں۔ اگر 25 جولائی ہی کو انتخاب ہوئے تو رزلٹ کون مانے گا؟ ذرا بھٹو کے انتخابات اور اپوزیشن کی تحریک کو یاد کر لیں۔ اس دل دھلانے مناظر میں کیا عدلیہ اور فوج اپنا مثبت کردار ادا نہ کرے گی؟ لہٰذا 25 جولائی کے انتخابات ہوں تو مصیبت نہ ہوں تو مصیبت اگر مارشل لاءلگتا ہے تو یہ جولائی اگست کا موسم ہو سکتا ہے۔
آبی وسائل، پارلیمانی خودغرضی، انتخابی التوا
Jun 12, 2018