کس بل بوتے پرکہتے ہو کہ تبدیلی آئےگی؟

صدر ممنون حسین شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کے لئے چین گئے جہاں دیگر ممالک کے سربراہان بھی آئے تھے۔ اس دوران مختلف چینلز پر جو کلپ چلے۔ انہیں دیکھ کر شدت سے اپنی کم مائیگی، بے بسی اور بے چارگی کا احساس ہوا۔ ہر ملک کا سربراہ پاکستانی صدر سے پہلوتہی برت رہا تھا۔ اس کا اندازہ لگا لیجئے۔ ہمارا کیا وقار ہے اور ہمارا کیا مقام بنا دیا گیا ہے۔ایک ایٹمی قوت سے ہاتھ ملانے میں ایک اُجڑا ہوا تباہ حال اور ہمارے ہی ٹکڑوں پر پلنے والا ملک افغانستان ہمیں نہ لگانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ حیرت ہے کہ ہم اتنے بے توقیر ہو گئے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ سب کیوں ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں ڈمی قیادت آتی ہے۔ جتنے لوگ الیکشن جیت کر آتے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد جاہل اور جعلی ڈگریوں پر آتے ہیں۔ اگر پاکستان میں میرٹ ہوتا تو ہمیں یوں شرمندگی، رسوائی اور بے عزتی نہ اُٹھانی پڑتی۔ پاکستان کی باگ ڈور ہمیشہ نااہل، لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو سب سے زیادہ امیر ہے جس نے جعلسازی سے اثاثے بنائے۔ لوٹ مار اور کرپشن کی۔ اس کے ہاتھ میں طاقت اور اقتدار آ گیا۔راتوں رات امیر ہونے والی ایک بڑی کھیپ الیکشن لڑتی ہے اور ملک کے سیاہ سفید کی مالک بن جاتی ہے۔ دنیا کاکوئی بھی انسان محنت اور ایمانداری سے کبھی راتوں رات امیر نہیں بنتا مگر اس ملک کونو دولتیوں نے لوٹ کر کھا لیا ہے۔ یہاں شروع سے ہی آوے کا آوا بگڑا رہا ہے۔ پاکستان کی جدوجہد کرنے والوں، پاکستان بنانے والوں اور ہجرت کرنے والوں نے جو قربانیاںدیں۔ پاکستان بننے کے بعد ایک بہت بڑے طبقے نے کلیم کے نام پر پاکستان میں بڑی بڑی جائیدادیں ہڑپ لیں جبکہ ان کا پاکستان کی تحریک و تعمیر میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ آج پاکستان بنانے والوں کی اولادیں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ حکومت کا فرض تھا کہ کم از کم تحریک پاکستان کے کارکنان کی اولادوں کو گھر دیتی۔ تحریکِ پاکستان کے ہر کارکن کے بچوں کو نوکریاں دیتی۔ اُنکے وظیفے مقرر کرتی لیکن اس ملک میں ناچنے گانے والیوں کے لئے فن کے نام پر ادارے بنے۔ کروڑوں روپے فنڈز دئیے گئے۔ شراب پی کر، جوئے کھیل کر اور ہر ملک سے ہار کر آنے والے کرکٹروں کو کروڑوں روپے، پلاٹ، فنڈز دئیے گئے۔ اُنکے اعزاز میں عشائیے دئیے گئے۔ تعلیم کے نام پر میٹرک اور ایف اے، بی اے کرنیوالے کم عمر بچوں کو لاکھوں روپے اور انہیں کئی کئی ممالک کے وزٹ کرائے جاتے ہیں۔ شاپنگ کے لئے لاکھ لاکھ روپے دئیے جاتے ہیں لیکن پاکستان بنانے والوں کو کبھی بیماری یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک لاکھ تو کیا، دس ہزار بھی نہیںدئیے۔ اس سے بڑی عداوت کیا ہو گی کہ اس ملک کے محسنوں کے لئے کبھی اس ملک کی حکومت نے کبھی کچھ نہیں کیا۔ آج جو بائیس کروڑ مسلمان آزادی سے جی رہے ہیں اور وہ لوگ جو اقتدا ر کے مزے لے رہے ہیں۔ وہ صرف ہمارے آباﺅاجداد کی قربانیوں کی وجہ سے ہے۔ 1947ءمیں وہ 2200 خاندان جو غریب یا متوسط تھے....آج ارب پتی انہی کی وجہ سے بنے ہیں۔ وہ ملک کے بہی خواہ تھے، وہ ایماندار اور جانثار لوگ تھے۔ اپنے وطن پر فدا تھے، ملک کی باگ ڈور انہیں ملتی تو وہ اپنے وطن کے لئے بہت کچھ کرتے اور آج پاکستان ترقی یافتہ ہوتا لیکن ملک لٹیروں کے ہاتھ میں آ گیا۔ کیا اس ملک میں کوئی ضابطہ¿ اخلاق نہ تھا کہ اس ملک کے حاکم صرف ایماندار اور تعلیمیافتہ لوگ بنتے۔ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کے لیے تعلیم کا خانہ تو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی کی آج بھی ڈگریاں چیک کرلیں۔ شاید دس فیصد ہی ایسے ہونگے جن کے پاس گریجوایشن یا پوسٹ گریجوایشن کی ڈگریاں ہونگی۔ باقی سارے میٹرک، انڈر میٹرک اور نان میٹرک ہونگے۔ جب جاہل طبقہ برسرِ اقتدار آئیگا تو ظاہر ہے کہ جگ ہنسائی کا بھی سبب بنے گا اور ملک میں کسی بھی قسم کی اصلاحات نافذ نہیں کر سکے گا۔ جب یہ لوگ اپنی جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر یا پھر رشوت دیکر ارکان اسمبلی، مشیر، وزیر وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدر بن جاتے ہیں تو ہمارے مقدر سو جاتے ہیں۔ ابھی سمیرا ملک کواجازت ملنے پر سخت افسوس ہوا کہ اگر ایک عورت اہل نہیں ہے لیکن محض اس لیے کہ وہ جاگیر دارنی ہے، اس کا سارا خاندان سیاست میں ہے۔ اُس کی ہر جگہ رسائی ہے۔ اُس نے جعلی ڈگری کے باوجود اجازت حاصل کر لی۔ اس سے ہماری اخلاقی سیاسی ثقافتی گراوٹ کا اندازہ کیاجا سکتا ہے۔ انصاف امیر غریب سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس فاروق بندیال کو راتوں رات ٹکٹ ملنے اور چودھری نثار کے لئے درخواست دینے کے احکامات پر ہوا مگراس سے بھی زیادہ شرمناک بات پی ٹی آئی کا غلام بی بی بھروانہ جیسی عورت کو ٹکٹ دینا ہے جو جاگیردار اور امیر کبیر عورت کے علاوہ سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اُس کی تعلیم میٹرک بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو عوام گزشتہ پینتیس سال سے پرکھتے آ رہے ہیں اور دونوں سے شدید مایوس ہیں لیکن عمران خان سے عوام کو بہت سی توقعات تھیں۔ افسوس صد افسوس کہ عمران خان نے عوام کو شدید مایوس کیا۔ پی ٹی آئی کی زیادہ تر ٹکٹیں لوٹوں میں تقسیم کی گئیں جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بدنام زمانہ افراد تھے جنہوں نے دونوں پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔ جن کی کرپشن اور اخلاقی گراوٹ کا زمانہ شاہد ہے لیکن عمران خان نے نوجوان طبقے، نئے لوگوں اورتعلیمیافتہ افراد پر امراء، خانوادوں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، کو ترجیح دی۔ لوٹوں کو فوقیت دی۔ جو اپنی سابقہ پارٹیوں کے وفادار نہیں، وہ عمران خان سے کیا وفاداری کریں گے۔ فصلی بٹیروں کو ٹکٹیں دیکر عمران خان نے جہاں اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔ وہاں عوام کی توقعات کا بھی خون کیا ہے جو سمجھ رہے تھے کہ عمران خان ایماندار اور تعلیمیافتہ قیادت سامنے لائیں گے۔ عمران خان نے جنرل نشستوں اور ریزرو سیٹوں پر جس اقربا پروری، سیاسی رشوت، وقتی فوائد، سفارشی ہتھکنڈوں اور من پسند افراد کو ترجیح دی ہے اس سے عمران خان پر جہاں شدید تنقید ہوئی ہے۔ وہاں عمران کی قیادت اور بصیرت کا پول بھی کُھل گیا ہے نیز عوامی سطح پرمایوسی بھی پھیلی ہے جب پڑھی لکھی، باشعور اور نوجوان قیادت کے بجائے ستر اسی سال کے بابے اسمبلیوں میں لائے جائیں گے اور عورتوں کی ایسی لاٹ لائی جائے گی جو رشوت، سفارش، ذاتی پسند، اقرباءپروری، چاپلوسی کی پیداوار ہو تو عمران خان کی ناکامی کے آثار ابھی سے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اقتدار مل بھی گیا تو مشکل سے چند مہینے میں عمران خان کی حکومت ناکام ہو کر پویلین کارخ کر لے گی۔ عمران خان کی ٹکٹوں کی تقسیم اور افراد کے چناﺅ میں وہی روایت قائم رہی جو دوسری پارٹیوں کا طریقہ ہے۔ اس سے عوامی سطح پر شدید بددلی پھیلی ہے۔ عمران خان کو جو لوگ تبدیلی کی علامت سمجھ کر خوش ہو رہے تھے، بُری طرح مایوس ہوئے ہیں اور اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں مخلص ، باشعور اور ایماندار قیادت کبھی ہی نہیں۔ سب کے سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ الیکشن کمیشن جو ابتک اربوں روپیہ ڈکار چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُس کا کیا ضابطہ¿ اخلاق ہے۔ وہ کب تک نکمے، نااہل، راشی، بے ایمان، جھوٹے، بددیانت، جاہل لوگوں کو کاغذات نامزدگی بانٹتا رہے گا۔؟ جاہل گنوار لوگ کب تک ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے؟ غریب یا متوسط طبقہ الیکشن کیوں نہیں لڑ سکتا؟ تعلیمیافتہ افراد ارکان اسمبلی اور وزیر مشیرکیوں نہیں بن سکتے؟ الیکشن کمیشن اور عمران خان بتائیں کہ جاہلوں، لٹیروں، راشیوں، چاپلوسوں کے ساتھ وہ ملک میں کیا تبدیلی لائیں گے....صرف یہ بتا دیں۔

ای پیپر دی نیشن