ہندو اکثریت والی کانگریس اور انگریز سرکار ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ مگر کیبنٹ مشن کو دھتکار کر نہرو اور پٹیل نے ہندوستان کے آخری بر طانوی وائسرئے مائونٹ بیٹن کو اس بند گلی میں لا کھڑا کر دیا تھا جس کے کنارے پر جناح کا مطالبہ پاکستان ہی رہ جا تا تھا۔ اور محمد علی جناح نے کیبنٹ مشن پلان مان کر خود بھی اس بات پر کمپرومائز کر لیا تھا کیونکہ اس طرح صوبوں کی خود مختاری کی صورت میں انہیں مسلمان اکثریت والے صوبوں میں اور مرکز میں مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی اس طرح نہ لڑنی پڑیگی جیسی انہیں 1937 کے الیکشن کے بعد ہر محاذ پر لڑنی پڑ رہی تھی۔
مائونٹ بیٹن کے پاس پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا ٹرمپ کارڈ تھا جس سے وہ آخر تک قائد اعظم کے ساتھ تقسیم کی سودے بازی میں اُلجھا رہا۔ کلکتہ کسی صورت پاکستان کو نہ دینے اور ساتھ میں گورداسپور ، انڈیا کے حوالے کر کے انڈیا کی کشمیر تک رسائی کو ممکن بنانے کی شیطانی سکیم،پاکستان کو کمزور کرنے کے علاوہ اور کیا تھا۔ اسکے باوجود اپنوں نے ہی قائد اعظم کو برطانوی ایجنٹ کہا۔ تصور میں لائیں وہ وقت ، جب ایک طرف جناح ، ہندو کانگریس اور اس میں شامل مولانا آزاد جیسے تقسیم کے مخالف لوگوں کے ساتھ اُلجھ رہے ہیں اور مائونٹ بیٹن انہیں کچا چبانا چاہتا ہے اوردوسری طرف جن مسلمانوں کے حقوق کیلئے وہ لڑ رہے ہیں ، مذہب کے نام پر تمام مسلمانوں کی قسمتوں کا فیصلہ کر نیوالے ملا حضرات بھی ہاتھ دھو کر قائد اعظم کے پیچھے پڑے ہو ئے ہیں کبھی انہیں کا فر ِ اعظم اور کبھی انگریزوں کا ایجنٹ کہہ کر دھتکارنے کی تلقین کر رہے ہیں اور تیسری طرف قائد اعظم کی بڑھتی ہو ئی عمر اور گرتی ہو ئی صحت بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان سب کے باوجود جناح نے وہ کر دکھایا جس کا کسی کو گمان تک نہ تھا۔ کیا کسی کو قائد اعظم کی نیت پر شک ہے ۔ جناح نے جنہیں گاندھی نے مشترکہ ہندوستان کا وزیر ِ اعظم بننے کی پیشکش کی تھی وہ پیشکش بھی دھتکار دی تھی۔ مائونٹ بیٹن نے جب گاندھی سے پوچھا کہ جب تم جناح کو وزیر ِ اعظم بننے کی پیشکش کر وگے تو کیا وہ اسے قبول کر لے گا۔گاندھی نے مسکرا کر کہا نہیں‘ یہ نہیں کہ جناح منافقت دیکھ کر منافق کو منافق نہیں کہتے تھے ، یہ نہیں کہ جناح ایک کٹر( یا پریکسٹنگ) مسلمان تھے ، یہ نہیں کہ جناح اتنے فولادی تھے کہ کبھی اپنے موقف سے پلٹے نہیں تھے۔۔ گھوکھلے اور سروجنی نائیڈو کے ہند و مسلم اتحاد کے سفیر ،لکھنو ء پیکٹ کے موجد ،جناح کیسے صرف مسلمانوں کے حقوق کی آواز بن گئے جو متحدہ ہندوستان پر یقین رکھتے تھے اور سر آغا خان کی قیادت میں ، شملہ وفد 1906ء جس میں 35 نمائندوں کے وفد نے مسلمانوں کیلئے الگ الیکٹوریٹ کا مطالبہ کیا تھا ، قائد اعظم ایسی کسی بھی تفریق کے حق میں نہ تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مایوس ہو کر واپس انگلینڈ چلے گئے تھے۔ مذہب کو سیاست سے دور رکھنے والے کو مذہب کے نام پر الگ ملک کا مطالبہ کرنا پڑا۔ 1937 کے الیکشن کے بعدیہ نوبت مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ہونے والی حق تلفیوں کو دیکھ کر آئی تھی۔ وہ اپنے ہند ومسلم اتحاد کے موقف پر بضد نہیں رہے تھے ۔ مسلمانوں کے مستقبل کیلئے انہیں خود کو بدلنا پڑا تھا۔ لیکن ایسا فیصلہ انہوں نے نہیں کیا بلکہ کٹا پھٹا پاکستان لینا قبول کیا ، جہاں انکی آخری سانسیں ایک ٹوٹی پھوٹی ایمبولینس میں پو ری ہوئیں۔ مائونٹ بیٹن کا ’’پاگل پاکستان‘‘ ایک ضدی انسان کی ضد کی وجہ سے بن گیا۔
آج اتنے سالوں بعد یہ پاکستان ایک ’’پاگل خان‘‘ کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ وہی خان جسے کبھی یہودی کا ایجنٹ اور کبھی برا شخص کہہ کر دھتکارا جاتا ہے۔ کہنے والے تو قائد اعظم کو بھی کیا کچھ کہتے تھے۔ کہنے والے کپتان کو بھی بہت کچھ کہا کرتے ہیں مگر ناشکرے پاکستانیوں کی خوش قسمتی ہے کہ پہلے انہیں جناح جیسا لیڈر مل گیا جس نے ان کیلئے آئینی لڑائی لڑ کر اپنا مطالبہ ہندو اور انگریز کی مرضی کے خلاف منوایا جنہوں نے یہ کہہ کر پاکستان کی تشکیل کو چار وناچار قبول کیا تھاکہ جلد ہی پاکستان ہندوستان سے واپس آملے گا ۔ پاکستان تو ٹوٹنے کے بعد بھی ہندوستان میں جا کر نہیں ملا ،تو ان کا یہ خواب بھی خواب ہی رہا۔ معاشی طور پر ضرب لگانے سے لیکر فوج اور بیور کریسی اور اداروں تک کچھ بھی نہیں تھا پاکستان میں اور لوگ کون تھے جو اوپر تھے ، کھوٹے سکے۔دوسری طرف ہندوستان کے حالات دیکھ کر وہاں مسلمانوں کی پسماندگی اور خوف میں گندھی زندگی دیکھ کر قائد کی بصیرت کو بار بارسلام کرنے کو دل کرتا ہے۔ پاکستان کوناکام کرنے کیلئے پہلے دن سے یہ کوششیں ، یہ نیتیں اور یہ بد دعائیں اور بد نظریاں شامل حال ہیں۔ آج پاکستان جس حال میں ہے اس میں ان سب کا کمال بھی ہے۔ یہ سازشیں ، ہمارے ہی فارن آفسز میں ، سول سروس میں ، صحافیوں میں ، سیاست دانوں میں اور دانشوروں میں زہر بن کر پھیلی ہو ئی ہیں۔۔ ہم جانتے ہی نہیں قائد کے پاکستان کو مارنے کیلئے کون کون کس کس روپ میں اسکی جڑوں میں زہر ڈال رہا ہے۔ میں لیڈر شپ میں جناح اور عمران کا مقابلہ نہیں کر رہی، میں ان بیرونی سازشوں ، بد نظریوں ، بددعائوں اور بد نیتیوں کا موازنہ کر رہی ہوں جو ہر اس انسان کے گرد گھیرا تنگ کر لیتی ہیں جو پاکستان کو بچانا اور اسے دنیا میں عزت کا مقام دلانا چاہتا ہے۔ ہمیں جمہوریت اور خاندانی شہنشایت میں فرق پہچاننا ہوگا۔ قائداعظم کی دلائی ہو ئی آزادی اور دو خاندانوں کی غلامی کے فرق کو پہچاننا ہو گا۔ پاکستان زندہ باد۔