قارئین اپ میں سے بیشتر میری اس بات سے اتفاق کرینگے کہ اکثر اوقات جب کبھی حْسن کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو اس ضمن میں تشبہیہ اور استعارہ کے طور پر جس چیز کا سب سے زیادہ نام لیا جاتا ہے وہ چاند ہوتا ہے۔ چاند کے حْسن کا نظارہ کرنا ہو تو کبھی آدھی رات جب خاموشی ہر چیز کو اسطرح اپنے سحر میں لے لیتی ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ انسان کے اپنے سانسوں کی ارتعاش ہی کہیں فضاء میں اگ نہ لگا دے ایسے میں کھلے آسمان پر تیرتے چاند کا نظارہ کیجئے گا چکوری کا عشق تازہ نہ ہو جائے تو پھر کہیے گا۔ رومان پروری میں اس سے بھی آگے حسن کے اِس دیوتا کو رنگوں میں دیکھنے کو دل کرے تو پھر کبھی رات کے پچھلے پہر کھلے آسمان کی بجائے ٹھہرے پانیوں پہ چاند کے عکس کو دیکھیئے گا پھر جو کیفیت ہو اسکو ایک دفعہ ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کیجئے گا۔ اسے چاند کے حْسن کی جادو گری ہی کہہ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے چاند جوبن اور جوانی پکڑتا ہے ویسے ویسے دنیا کی ہر صنف انسان سے لیکر چرند پرند میں عشق اور مستی اسقدر زور پکڑتے ہیں کہ اسکے حْسن کے سحر میں آوارگی انکو ان انتہاؤں پر لی جاتی ہے کہ اس عشق مستی اور سرور میں یہ اپنے اپ پر قابو نہیں رکھ سکتے اور ایسے میں خود سے بھی بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ مزے کی بات چاند کے حْسن کی یہ واردات صرف ذی روح تک ہی محدود نہیں ہزاروں طوفانوں کو اپنی آغوش میں چھپانے والا اور خاموشیوں پر راج کرنے والا پْر سکوت سمندر بھی چودھویں کی رات لاکھ جتنوں کے باوجود اسکے حْسن کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتا اور اپنی فطرت کے برعکس دیوانوں کی طرح بپھر جاتا ہے۔ جیسے اوپر عرض کر چکا کبھی نیلے آسمان پر تیرتے چاند یا ٹھہرے پانیوں میں چاند کے عکس کا نظارہ کیجئے گا اور اسے ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کیجئے گا ۔میں یہ کوشش کئی بار کر چکا لیکن حسن کے اس بْت کو کینوس پر اتارنے یا تراشنے کیلئے نہ ہی رنگ ملے اور نہ ہی الفاظ۔ میں کیا اس دنیا کے بڑے بڑے شاعر اور نثر نگار بھی اس میدان میں بے بس پائے گئے اور کوئی بھی وہ کیفیت کبھی بیان کر ہی نہیں پایا لیکن میرے اس ملک میں کچھ ایسے کرشمہ ساز بھی ہیں جو اس فن میں اتنے یکتا ہیں کہ ایسی زندہ حقیقتوں کی کیفیت بیان کرنا تو ایک طرف انہوں نے حسن کے ایسے ایسے بْت تراشے دے ہیں کہ نعوذ بااللہ لوگ انکی چاہتوں اور پرستش میں بدعت کی حدوں کو چھونے لگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ایمانداری اور پارسائی کے حوالے سے ایک ایسا ہی بْت تراشہ گیا ہے۔ راقم کے نزدیک یہ دعویٰ نیا نہیں اس حوالے سے اگر ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو پھر ہمیں اپنے وقت کے بیسیوں ایسے فرعون ملیں گے جنھے ہمارے بْت تراشوں نے کمال کرشمہ سازی کرتے قوم کے سامنے موسیٰ بنا کر پیش کیا لیکن جیسا کئی بار عرض کر چکا تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے اصل چہرہ دکھا کر رہتی ہے۔ بھٹو، نواز شریف اور بینظیر کا ذکر چھوڑیں کیونکہ انکو تو کسی وقت بھی saint کا درجہ نہیں دیا گیا لیکن دیکھیں ڈکٹیٹر ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف، افتخار چوہدری اور حالیہ ثاقب نثار انکے اپنے وقتوں میں انکو کس طرح فرشتہ بنا کر پیش نہیں کیا گیا لیکن جب حقیقتیں سامنے ائیں تو قوم کو کیسے کیسے صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ سو اگر دوستو انے والے وقتوں میں اسی طرح کے حالیہ تراشے بْت کے بارے میں کوئی ہوشربا انکشافات سامنے آئیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بس ایسے میں اْس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کر لیجئے گا کہ جب آپ ٹھہرے پانی میں چاند کا عکس دیکھ رہے ہوں کہ اچانک اْن ٹھہرے پانیوں میں کہیں سے ایک کنکر آ گرے پھر چاند کا عکس جس طرح ہچکولے کھاتا ہے بس اسکا تصور کر لیجئے گا۔ مزید کچھ کہنے کی نہ ہی ضرورت اور نہ ہی ہمت لیکن ایک بات یاد رکھیئے گا کہ قیادت کا یہ ابدی اور موروثی بانجھ پن ہمارے اوپر قدرت کا نہیں اپنا مسلط کردہ ہے۔ قارئین آپ کہہ تو رہے ہونگے کہ اتنے رومان پرور عنوان کا انجام ایک کنکر کی جنبش سے کرنا کیا یہ بد ذوقی کے زمرے میں نہیں آتا تو عرض یہ ہے کہ اسے بے صدا نقطوں کی بارش سمجھ کر اچھے دنوں کی اْمید لگا لیں لیکن یہ تب ہو گا جب ہم دیوتاؤں کو ڈھونڈنے کی بجائے اصل انسانوں کی تلاش میں نکل پڑیں اْن انسانوں کو جن کو ڈر ہو کہ وہ عوام اور پارلیمان کو جوابدہ ہیں نہ کہ چند اشخاص کو۔ قارئین آج جب آپ میرا یہ کالم پڑھ رہے ہونگے عین اس دن اس وقت میرے بائیں گردے کی سرجری ہو رہی ہو گی۔ پچھلے نومبر دائیں گردے کی سرجری ہوئی تھی جو کہ اللہ کے فضل سے کامیاب رہی اس دفعہ بھی آپکی دعاؤں کی ضرورت ہے انشاء اللہ ریکوری کے بعد پھر کالم لکھنے کی کوشش کرونگا۔ اس دوران اپنے چڑے اور موکلات کی اطلاعات کے مطابق سیاسی موسم جو بہت گرم نظر آ رہا ہے اور جس میں کافی شدت کا امکان پایا جاتا ہے وہاں لگتا ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کرنے والا کا اِٹ کھڑکا شروع ہو چکا۔ چڑے کی رپورٹ کے مطابق بلی چوہے کا یہ کھیل اگست سے لیکر اکتوبر تک چلتا رہے گا کیونکہ اس دوران کچھ اور معاملات اس سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں جنکے اثرات اگلے تین سال رہنا ہیں لہذا سر دست کسی بڑی تبدیلی کی توقع موکلات کے مطابق غیر منطقی نظر اتی ہے۔