یااللہ ’’عجمی کامطالعۂ قرآن،، تیرے ایک ایسے بندے کی نامکمل کاوش ہے جو یومِ حساب سے پہلے ہی اپنے ان سب گناہوں، لغزشوں اور خطائوں کا اعتراف کرتا ہے جو اس سے دانستہ یا نادانستہ اس مستعار اور فانی زندگی کے مہ و سال میں ہوئے، وہ سارے گناہ جو اسے یاد آتے رہتے ہیں، اسے ندامت اور شرمندگی ، پشیمانی و خوف کے اتھاہ سمندر میں غوطہ لگانے اور آنسو بہانے کا موقع دیتے ہیں، توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانے، استغفار کرنے، تجھ سے معافی و بخشش طلب کرنے کی ہمت اور توفیق دیتے ہیں۔ تو نے اپنی کمال مہربانی سے اسے یہ وقت دیا ہے اور ابھی اس کا توبہ و استغفار کا وقت ختم نہیں ہوا، سارے گناہ اور خطائیں جسے وہ جانتا ہے اور وہ بھی جو اس کی یادداشت سے مٹ چکے ہیں مگر تو جانتا ہے تیرے پاس محفوظ ہیں تو نے ان کا پردہ رکھا ہے۔ تیری اس مہربانی عفو و درگزر اور رحمتِ ابدی نے جس سے اس کی زندگی کا چراغ روشن ہے اور اسی نے اسے یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ تیرے ساتھ تیرا حقیر پُرتقصیر بندہ بن کر بات کرے، تیرے اس قرآن کو خود سمجھے جو تو نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بالخصوص اور پوری دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بالعموم عطا فرمایا ہے، جس سے بدقسمتی سے اس امت نے فائدہ نہیں اٹھایا، جس کا حق ادا نہیں کیا، جس کی روح کو نہیں سمجھا۔ کچھ نے اپنی لاعلمی یا بے علمی کی وجہ سے تو کچھ نے اپنے مسلکی مفادات، محدود اور تعصبانہ سوچ، اپنی ہٹ دھرمی اور ضد یا غرورِ علم کی وجہ سے امت کو متحد کرنے کی بجائے منتشر کرنے ، سود کے بارے میں تیرے اور تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلی جنگ کے اعلان کے باوجود اس بدنصیب امت کو اس ہولناک جنگ کے شعلوں سے بچانے کی جب کسی جانب سے کوئی سنجیدہ کارگر اور قابلِ عمل کوشش ہی نہ کی جائے اور کہیں ایسی کوئی کوشش ہو تو ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو اللہ ا ور اس کے رسول کے اس کھلے اعلانِ جنگ سے نہ بچا سکے تو ایسے میں تیرے قرآن کو سمجھنے میں بہت بڑی بھول کی تہمت سے وہ طبقہ خود کو کیسے بچا پائے گا جو خود کو عالم اور دین کا نمائندہ سمجھتا ہے یا جس کا یہ تعارف ہے۔ ان نمائندہ افراد نے نہ تو مسلمانوں میں وہ جذبہ پیدا کیا جو انہیں کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم بنا دیتا اور نہ ہی تجھے اور تیرے پیغام کو مسلمانوں کی روشن ترجیح بنانے اور ہمہ وقت اس پر عمل کرنے کا ذوق و شوق پیدا کیا۔
وہی ذوق و شوق وہی اطاعت اور وہی حکم برداری جو تیرے سادہ لوح بندوں اور غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں رمضان المبارک میں پیدا ہو جاتی ہے، یا اللہ رمضان میں اگر یہ مسلمان حلال چیزوں سے منع ہو جاتے ہیں، آدھی رات کو اٹھ کر عین تیرے حکم کے مطابق روزہ رکھتے ہیں، سارا دن بھوک پیاس بردات کرتے ہیں، خود کو تیرے احکامات پر عملدرآمد میں ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں، تیرے کسی حکم سے روگردانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے، اپنی ز ندگی کے شب و روز کو تیری منشا کے مطابق ترتیب دے لیتے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ سادہ لوح مسلمان تیرے حکم اور منشا کو اپنے اوپر لازم کر کے تیری خوشنودی حاصل کرنے میں نہ کسی جسمانی تکلیف یا ضرورت کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی کسی برائی کو اپنے قریب پھٹکنے دیتے ہیں۔
مگر یااللہ تیرا یہ مقدس مہینہ گزرنے کے ساتھ ہی ان کے مزاج اور انداز بدل جائیں، حلال چیزوں سے منع ہو جانے والے حرام چیزوں سے بچنے یا بچانے کے لیے خود کو حالات کے جبر کا نام دے کر مجبور دکھائی دیتے نظر آئیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مسلمانوں میں جو خوبی پیدا ہوئی جس کو انہوں نے ایک مہینہ اختیار کیا نافذ کیا اس کو برقرار رکھنے ا ور اسے جاری رکھنے کی تعلیم و ترغیب دینے والی مسلمانوں میں اب کوئی جماعت باقی نہیں رہی جو یہ دعویٰ کرتی ہے۔ مسلمانوں کا مجموعی طرزِ عمل رمضان اور باقی گیارہ مہینوں میں واضح فرق کی شکل میں ان کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیتا ہے۔
یااللہ تو نے قرآن نازل کرنے کے لیے بھی اسی رمضان کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک سورت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دے کر اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے اپنی رحمت کے سمندر سے ایسے نایاب اور انمول موتی نکال کر دئیے کہ تیرے ساتھ چند گھنٹوں کا تعلق ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب کا موجب بن جائے۔ یااللہ یہ تعلقات برقرار نہ رہنے یا نہ رکھنے کی ذمہ داری کس فرد یا ادارے پر ڈالنے کی بجائے اس ماحول پر ڈال دینا زیادہ قابلِ قبول ہو گا جو اس ملک میں پیدا کر دیا گیا ہے۔ وہ ملک جو تیرے اسی رمضان میں معرضِ وجود میں آیا تھا تیرے ساتھ اس عہد، وعدہ اور آرزو کے ساتھ کہ یہاں تیرا دین، تیرا قانون اورتیرا حکم نافذ ہو گا اور پھر یہ وعدہ خلافی ہوئی اور اس کی سزا بھی مل رہی ہے۔ یااللہ میں اپنی انفرادی بے بسی اور کچھ نہ کرسکنے کے باوجود تیری رحمت اور مسلمانوں کے اس جوہر سے مایوس نہیں جو رمضان میں دیکھا اور جس کی قدر والی رات میں یہ میری کاوش ایک صاحب ایمان ناشر کے جذبۂ ایمانی سے شائع ہو رہی ہے۔