اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز جعلی بنک اکائونٹ کیس میں سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ فریال تالپور کی عبوری ضمانت منسوخ کر دی جس کے بعد نیب راولپنڈی کی ٹیم نے سپیکر قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ ہائوس جا کر آگاہ کیا اور پھر زرداری ہائوس اسلام آباد سے آصف علی زرداری کو حراست میں لے لیا۔ اسی طرح گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ اور رمضان شوگر ملز کے کیس میں پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواستیں بھی مسترد کر دیں جس کے بعد نیب لاہور کی ٹیم نے انہیں کمرہ عدالت میں ہی حراست میں لے لیا۔ منگل کے روز ایک بڑی گرفتاری لندن میں ایم کیو ایم متحدہ کے قائد الطاف حسین کی عمل میں آئی۔ انہیں منی لانڈرنگ کے کیس میں حراست میں لیا گیا ہے۔
اگرچہ آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاریاں انکی ضمانتیں منسوخ ہونے کے بعد عدالتی احکام کے تحت عمل میں آئی ہیں تاہم وفاقی بجٹ کے موقع پر عمل میں آنیوالی ان گرفتاریوں سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت انتہائی گرم ہو گیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے قائد آصف علی زرداری کی پیر کی شام گرفتاری کے ساتھ ہی ملک بھر میں احتجاج‘ مظاہروں اور گھیرائو جلائو کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جبکہ پیپلزپارٹی کے ارکان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپنے قائد کی گرفتاری پر ہنگامہ بپا کیا اور مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے سپیکر قومی اسمبلی سے آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا تقاضا کیا۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو بھی کیا گیا اور پیپلزپارٹی کے ارکان نے ہائوس میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے وزیر ریلوے شیخ رشید کو تقریر بھی نہ کرنے دی۔ اس پر سرکاری اور اپوزیشن بنچوں دونوں جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ محاذآرائی کا ماحول گرمایا گیا اور ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی اگلے روز تک ملتوی کرکے اپوزیشن ارکان کے ہاتھوں یرغمال بنے ہائوس کی خلاصی کرائی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے قائدین اور کارکنوں نے زرداری ہائوس کے باہر بھی آصف زرداری کی گرفتاری کے موقع پر سخت احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر پولیس کو انہیں منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اس موقع پر ہونیوالی دھکم پیل میں پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء قمرالزمان کائرہ قلابازی کھاتے ہوئے زمین پر جاگرے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں پیپلزپارٹی کے جیالوں نے گھیرائو جلائو سے بھی گریز نہیںکیا جبکہ کشیدگی کی ایسی فضا لاہور میں بھی پیپلزپارٹی کے احتجاجی مظاہروں کے باعث پیدا ہوئی جہاں میٹروبس بھی نہ چل سکی۔ منگل کے روز حمزہ شہباز کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید کی سزا بھگت رہے ہیں اور بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے قائدین ہی سب سے زیادہ نیب کے شکنجے میں آئے ہیں جس سے انہیں اپنی مظلومیت کا پراپیگنڈہ کرنے اور حکمران پی ٹی آئی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع مل رہا ہے اور وہ گرفتاریوں کے اس عمل کو حکومت اور نیب کی ملی بھگت قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کو اس نوعیت کی الزام تراشی کا موقع اس لئے بھی ملا کہ وزیراعظم عمران خان اور حکمران پی ٹی آئی کے دیگر عہدیداروں اور وزراء کی جانب سے نیب کے مقدمات میں ملوث اپوزیشن قائدین کو شدومد کے ساتھ چور ڈاکو پکارا اور کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ نیب کے بعض اقدامات کی وجہ سے بھی اپوزیشن کو اس پر میڈیا ٹرائل اور غیرانسانی سلوک کے الزامات لگانے کا موقع مل رہا ہے۔ بے شک احتساب پوری قوم کا مطمعٔ نظر ہے اور بلاامتیاز و بے لاگ احتساب پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا تاہم تفتیش کے مراحل میں ہی کسی کو مجرم گردانا جائیگا تو اس سے احتساب کی بے لاگ عملداری پر ضرور زد پڑیگی۔ سپریم کورٹ بھی اسی تناظر میں نیب کے معاملات کا متعدد بار سخت نوٹس لے چکی ہے۔ اس موقع پر حکمران پی ٹی آئی کو تو بطور خاص سیاسی کشیدگی کی فضا پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اسکے اقدامات سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھنے سے عوام پہلے ہی سخت نالاں ہیں اور حکومتی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں چنانچہ ان مضطرب عوام کی اپوزیشن حکومت مخالف تحریک کیلئے استعمال کرسکتی ہے جس کیلئے راہ ہموار ہوبھی چکی ہے اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دمادم مست قلندر کا نعرہ لگا کر ملک بھر میں پارٹی کارکنوں کو منظم کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ حکومت نیب کے مقدمات کے حوالے سے خودکسی قسم کی بیان بازی سے گریز کرے اور ان مقدمات کا فیصلہ صادر ہونے تک کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کرے۔ حکومت کو یہ حقیقت بہرصورت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ منتخب ایوانوں بالخصوص قومی اور پنجاب اسمبلی میں اسے محض چند ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے اور اپوزیشن متحد ہو کر پانسہ پلٹنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ اسی طرح محاذآرائی کی فضا میں ملک میں انتشار اور عدم استحکام کی نوبت آئیگی تو اس سے کسی کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آئیگا‘ محض جمہوریت کا مردہ خراب ہوگا۔ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے مابین جس نوعیت کی تلخی کی فضا پیدا ہوئی ہے وہ سلطانیٔ جمہور پر زد پڑنے کا ہی عندیہ دے رہی ہے۔ یہ صورتحال حکمران جماعت کیلئے بطور خاص لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے۔