لاہور(وقائع نگار خصوصی+ سٹاف رپورٹر+نامہ نگار) لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے حمزہ شہباز کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں واپس لینے کی بنا پر خارج کر دیں۔ جس کے بعد نیب نے حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیسز میں گرفتار کر لیا۔بنچ کے سربراہجسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے ریمارکس دیئے یہ معاملہ ٹرائل کورٹ کا ہے وہاں جائیں،باہر کیا باتیں ہو رہی ہے ہمیں کسی سے غرض نہیں، ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں۔فیصلہ صرف آئین اور قانون کے مطابق ہو گا۔درخواست ضمانت قبل از گرفتاری میں اتنا وقت نہیں دیا جاتا۔حمزہ شہباز کو مزید تفتیش، جسمانی ریمانڈ کیلئے آج بد ھ احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنمااور کارکن حمزہ شہبازسے اظہا ر یکجہتی کیلئے لاہور ہائیکورٹ پہنچے۔ اس موقع پر پولیس اور کارکنوں کے درمیان تلخ کلامی اور دھکم پیل بھی ہوئی۔ کارکنوں کی جانب سے حمزہ شہباز کے حق میں اور حکومت اور نیب کے خلاف نعرے لگائے گئے۔نیب کی جانب سے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواست منسوخ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ حمزہ شہباز کی رمضان شوگر ملز میں درخواست ضمانت ناقابل سماعت ہے۔ جرمانہ عائد کرکے مسترد کی جائے۔حمزہ شہباز کے نیب پر الزامات جھوٹے، بے بنیاد، مبہم اور غیر واضح ہیں۔ حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز میں انکوائری قانون کے مطابق اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گرفتار کرنے سے10روزپہلے آگاہ کرنے کاحکم دیا تھالیکن عدالت کے حکم کے باوجود چھاپے مارے گئے۔ عدالت ڈی جی نیب کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرے۔ تفتیش شروع کرنے کی منظوری سے متعلق دستاویزات نہیں دی گئیں۔ دستاویزات کے حصول کیلئے عدالت میں درخواست دائرکی جس پر عدالت نے کہا ابھی وہ مرحلہ نہیں آیاجہاں آپ ایسی درخواست دائرکرسکیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا یہ مرحلہ ابھی ہے لہٰذا پہلے میر ا موقف سن لیں جس پر عدالت نے کہا آپ سے جوسوال کیاجائے اس کا جواب دیں۔ جودلائل آپ دے رہے ہیں ، وہ ٹرائل کورٹ سے متعلق ہیں۔ آپ عبوری ضمانت میں پیش ہوئے ہیں اس پر دلائل دیں۔وکیل نے موقف اپنایا کہ دستاویزات کے حصول کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ اگر نیب کے سیکشن 18 سی پر عمل نہیں ہوا تو تمام عمل غیر قانونی ہو گا۔عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ جو درخواست دائر کی گئی ہے کیا وہ نیب آرڈیننس کے تحت اس مرحلے پر دائر کی جاسکتی ہے؟ وارنٹ گرفتاری تو چیئرمین نیب کی اجازت سے جاری ہوئے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ہم سے سوال نہ کریں بلکہ ہمارے سوالات کا جواب دیں۔گرفتاری کیلئے کس قانونی چیز کی ضرورت ہے؟ ۔ عدالت نے غیرمتعلقہ افرادکوکمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کیس میں ابھی وقت لگناہے غیرمتعلقہ افراد باہر چلے جائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ آپ دستاویزات کی فراہمی کیلئے دائر درخواست کا فیصلہ کر دیں۔جس پر عدالت نے حمزہ شہباز کی درخواست مسترد کردی ۔عدالت نے نیب کے وکیل کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ صرف حمزہ شہباز کا کیس ہے، صرف حمزہ شہباز کے بارے میں بات کی جائے، آپ عدالت کو یہ بتائیں کہ کتنی کمپنیاں رقوم منتقل کرنے میں ملوث ہیں،کیا ملزم تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا؟ ملزم کتنی بار پیش ہوا، شہباز نے بیرون ملک ترسیلات پر کیا جواب دیا۔ کیا اس پر حمزہ شہباز نے کوئی جواب دیا کہ باہر کیا کاروبار تھا؟ نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ حمزہ شہباز 4 بار نیب پیش ہوئے ، بیرون ملک ترسیلات کا کوئی جواب نہیں دیا، کہتے تھے جواب عدالت میں دیں گے، 181ملین روپے وصول ہوئے۔ جعلی لوگوں کے نام سے بیرون ملک سے ہوئیں۔ 40افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ حمزہ شہباز نے بیرون ملک کاروبار سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔ نیب نے بتایا حمزہ شہباز نے 42کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے جس میں 18 کروڑ باہر سے آئے۔ جن لوگوں کے نام سے آئے وہ ان سے لا تعلقی ظاہرکرتے ہیں۔ حمزہ شہبازنے آج تک نہیں بتایا باہر سے کس مدمیں رقوم آتی ہیں، جعلی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے رقوم بیرون ممالک سے منگوائی گئیں۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا مجھے دستاویزات ہی نہیں دے رہے بحث کیسے کروں گا ۔ ایف ایم یوکی رپورٹ بھی نہیں دی جارہی۔ عدالت نے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کی تو حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ عدالت ہمیں سنناہی نہیں چاہتی توکیاکریں جس کے بعد حمزہ شہبازکے وکلاء نے عبوری ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں۔عدالت نے درخواستیںواپس لینے پر خارج کر دیں اور عبوری ضمانت مسترد کردی گئی۔کمرہ عدالت میں ہی حمزہ شہباز نے اپنے وکلاء اور پارٹی رہنمائوں سے کچھ دیر مشاورت کی ۔مسلم لیگ(ن) کے وکلاء نے کمرہ عدالت میں حمزہ شہباز کے گرد حصار بنا لیا۔جس سے نیب کی ٹیم کو گرفتار کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔کئی وکلاء حمزہ شہباز کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے ۔کچھ دیر وکلاء سے مشاورت کے بعد حمزہ شہباز باہر آگئے جہاں نیب کی ٹیم نے ان کو با ضابطہ گرفتار کر لیا۔لیگی کارکنوں نے نیب کی گاڑیوں کا گھیرائو کر لیا۔کسی بھی نا خوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے رینجرز کو طلب کیا گیا۔رینجرز نے اپنی نگرانی میں راستہ کلئیر کروایا اور پھر نیب کی ٹیم حمزہ شہباز کو گاڑی میں بٹھا کر سخت سکیورٹی میں لے کر نیب لاہور کے ہیڈ کوارٹر لے گئی ۔ احاطہ عدالت اور باہر موجود کارکنوں نے حمزہ شہباز کے حق میں اور حکومت اور نیب کے خلاف نعرے لگائے لاہور ہائیکورٹ کے باہر جی پی او چوک میں موجود لیگی کارکنوں نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام میں خلل آیا ۔قبل ازیں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نے پاکستانی قوم کومخاطب کرکے کہا تھا کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی، میں نے نیب کو چیلنج کیا تھا کرپشن کی ایک پائی کا ثبوت لے آئیں تو سیاست چھوڑ دوں گا۔انہوں نے کہا کہ فردوس عاشق اعوان ایک روزپہلے زرداری کی گرفتاری کا بتا دیتی ہیں، میرے بارے میں چیئرمین نیب فرما چکے ہیں کہ حمزہ کوگرفتار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ جیلیں نئی نہیں ہیں،جس کا دامن صاف ہوتا ہے اللہ اسے ہمت دیتا ہے،نیب چیئرمین میرے بارے میں اپنا بغض آرٹیکل میں دیتے ہیں ۔حمزہ شہباز کے استعمال کا سامان نیب آفس پہنچا دیا گیا گھر سے لائے گئے سامان میں ان کے کپڑے ائر کولر آئس باکس سمیت دیگر استعمال کی اشیاء شامل تھیں نیب کی جانب سے ائر کولر وصول کرنے سے انکار کر دیا گیا اور واپس بھجوا دیا گیا۔ہائیکورٹ کے باہر سابق لیگی ایم پی اے فرزانہ بٹ نے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا اور دھکے دیئے۔ لیگی کارکنوں نے پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں پیچھے دھکیلتے رہے۔ مسلم لیگ(ن)شاہدرہ کے کارکنوں نے حمزہ شہبازکی گرفتاری پر چوک شاہدرہ میں ٹائروں کو آگ لگاکراحتجاج کیا اورنعرے بازی کی ۔مظاہرہ کے باعث ٹریفک کانظام جام ہوکر رہ گیا۔حمزہ شہباز کی ضمانت مسترد ہونے کی وجہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کیس کی کاپی وکیل کو فراہم نہ کرنے اور درخواست ضمانت واپس لینے کی وجہ سے ہوئی۔ حمزہ شہباز کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز کی ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں دائر تھیں ایک یہ کہ جو لیگل رائے جو چیئرمین نیب نے فارم کیا ہوگا حمزہ شہباز کے کیس کے خلاف انکوائری یا اثاثوں والا کیس ہے اس کی تحقیقات کا اختیار دینے کیلئے وہ ہمارے ساتھ شیئر کیا جائے اور دوسرا جو بہت اہم کیس ہے جو کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ ہے جس کے تحت یہ ساری منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے ہیں اس کی نقل فراہم کی جائے، پہلی درخواست تو انہوں نے ہماری مسترد کر دی دوسری پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ اپنی بحث جاری رکھیں اور میرٹ پر ضمانت حاصل کریں جو وکیل نے کہا کہ جن کو بنیاد بنا کر کلائنٹ کے خلاف کیس بنایا گیا ہے جب تک وہ دستاویزات ہمیں فراہم نہیں کی جاتیں ہم کس طرح کیس پر بحث لا سکتے ہیں یا دلائل دے سکتے ہیں۔ پرانی انارکلی پولیس نے حمزہ شہباز کی گرفتاری کے موقع پر لاہور ہائیکورٹ احاطہ عدالت میں احتجاج کرنے والے مسلم لیگ نون کے ڈیڑھ سو مردوخواتین کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔مقدمہ میں گل یونس خان،احمد رشیدعرف سچی بٹ،شیخ کبیرتاج،غلام دستگیر،لئیق احمد، ملک عتیق،فیصل جاوید،چودھری ذاہد حسین، سید توصیف شاہ، میاں طارق اور خلیفہ کامران کو نامزد کیا گیا ہے۔
اسلام آباد+ لاہور ( نامہ نگاران) احتساب عدالت نے جعلی بنک اکاوئنٹس کیس میں زرداری کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا، نیب ٹیم نے سابق صدر کو احتساب عدالت سے سخت سکیورٹی میں دوبارہ نیب راولپنڈی منتقل کر دیا، جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے کہ میرے ذہن میں یہ بات ہے کہ نیب نے اس عدالت سے اجازت کیوں نہیں لی۔ ریفرنس اس عدالت میں چل رہا ہے تو نیب کو اس عدالت سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بنک حکام کی معاونت سے جعلی بینک اکائونٹس کھولے گئے۔ ملزم کو گرفتار کیا ہے تفتیش کے لئے ریمانڈ کی ضرورت ہے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا زرداری کو کن بنیادوں پر گرفتار کیا ہے؟ پہلے یہ بتائیں۔ مظفر عباسی نے آصف زرداری کی گرفتاری کی بنیاد پڑھ کر سنائی۔ نیب نے آصف علی زرداری کی گرفتاری کے لیے شواہد عدالت میں پیش کردیئے اور کہا کہ انکی گرفتاری کے لیے 8 ٹھوس گرائونڈز ہیں۔ بادی النظر میں آصف زرداری نے جعلی اکائونٹس میں ٹرانزیکشن کرکے غیرقانونی آمدن کو جائز کرنے کا منصوبہ بنایا۔ فرنٹ مین بے نامی داروں کے ذریعے منی لانڈرنگ کی۔ پراسیکیوٹر نیب کے پارک لین اور پرتھنون کمپنیوں کے ذکر پر فاروق ایچ نائیک نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پارک لین کا آصف زرداری اور اس کیس میں کیا تعلق ہے؟۔ سردار مظفر نے کہا کہ ایف آئی آر میں دونوں کا ذکر ہے، میں دستاویزات سے بتا دیتا ہوں کیا تعلق ہے، پیسے پارک لین کی فرنٹ کمپنی پارتھنون کو آتے رہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا شفاف تفتیش ہی شفاف ٹرائل ہوتا ہے، اس عدالت کو گمراہ نہ کیا جائے۔ سردار مظفر نے کہا فاروق نائیک مجھ سے بہت سینئر ہیں اگر یہ پہلے بولنا چاہتے ہیں تو بول لیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس کراچی کی عدالت سے اس عدالت کو منتقل ہوا، اس عدالت نے آصف زرداری کے مچلکے وصول کیے۔ جب کیس اس عدالت میں ہے تو کیا چیئرمین نیب کے پاس اختیار ہے کہ وہ وارنٹ گرفتاری جاری کرے؟ زرداری کے وکیل نے کہا چیئرمین نیب کے پاس انکوائری اور تفتیش کے دوران گرفتاری کا اختیار ہوتا ہے، اس کیس میں وہ وقت گزر چکا اب ریفرنس دائر ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کو تفتیش کے لئے دو ماہ کا وقت دیا۔ سپریم کورٹ سے ہمیں کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ نے مدت میں توسیع کی ہے۔ ہمیں تاحال وارنٹ گرفتاری اور گرفتاری کی وجوہات فراہم نہیں کی گئیں۔ آصف زرداری کا پرتھنون کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ وہ اس کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ چار ارب روپے کی بات کرتے ہیں میرے موکل پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ ڈالا گیا۔ جج ارشد ملک نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا جب ریفرنس دائر ہو گیا تو وارنٹ جاری کرتے وقت اس عدالت سے اجازت نہیں لینا ہو گی؟۔ فاروق ایچ نائیک کمرہ عدالت میں جذباتی ہو گئے اور کہا کل مجھے ہائیکورٹ میں فوٹو کاپیاں کرانے بھیجا گیا، مجھے کہا گیا آپ نے جن مقدمات کے حوالے دیئے ان کی نقول فراہم کریں۔ میں فوٹو کاپی کرا رہا تھا کہ پیچھے فیصلہ سنا دیا گیا، میں کہاں جائوں کس سے انصاف لوں؟ زرداری نے نیب حوالات میں اضافی سہولیات کی درخواست دائر کر دی۔ جس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایک ذاتی خدمت گزار ساتھ رکھنے کی اجازت دی جائے اور میڈیکل کی بھی تمام سہولیات مہیا کی جائیں۔ آصف زرداری نے عدالت کے روبرو کہا کہ وہ شوگر کے مریض ہیں اور رات کو ان کی شوگر لو ہو جاتی ہے، اٹینڈنٹ دیا جائے جو رات کو شوگر چیک کرے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا یہ ان کی زندگی کا مسئلہ ہے اور ہمارا اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ عدالت نے سابق صدر کو 21 جون کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق صدر کو پیش کرنے سے قبل تین رکنی طبی ٹیم نے ان کا طبی معائنہ کیا۔ احتساب عدالت میں پیپلزپارٹی کے سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سمیت دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔ احتساب عدالت اور اس کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی گرفتاری پر کہا چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے؟ سب حکومت کرتی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگوکی۔ صحافی نے سوال کیا کہ جس طرح نواز شریف کو پارلیمنٹ سے آؤٹ کردیا گیا، کیا آپ پر بھی وہی فارمولا اپلائی کیا جارہا ہے۔ آصف زر داری نے جواب دیا کہ فرق کیا پڑے گا، میں نہیں ہونگا تو بلاول ہوگا، بلاول نہیں ہوگا تو آصفہ ہوگی۔ سابق صدر نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کو کچھ نہیں پتہ، سب وزیر داخلہ کرا رہا ہے۔ مشرف منتخب نہیں تھا اس لئے جیل جانے کو تیار نہیں۔ مشرف نے ووٹ نہیں مانگنے، ہم نے ووٹ مانگنے جانا ہے۔ گرفتاری تھرڈ ورلڈ ممالک میں سیاست کا حسن ہے۔ پریشر ٹیکٹکس ہیں۔ انہوں نے کہا جیل اور گرفتاری سیاست کا حسن ہے، جو سیاست کریگا اس کو جیل جانا پڑیگا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نیب کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن اتفاق رائے نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ہمارے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ عمران خان کو لندن بھاگتے دیکھ رہا ہوں۔ صحافی نے سوال کیا نواز شریف نے میمو گیٹ پر اظہار افسوس کیا، آپ کو بلوچستان حکومت گرانے پر افسوس ہے؟ جس پر انہوں نے کہا سیاست میں انسان کو پوزیشن لینا پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں پی پی کی جانب سے زرداری کی گرفتاری کے خلاف جیالوں نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری رکھے۔ سندھ جنوبی پنجاب میں یوم سیاہ منایا گیا۔ دوسری جانب فریال تالپور نے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف فریال تالپور نے اپیل دائر کردی ہے۔ رجسٹرار آفس نے اپیل پر اعتراضات لگا کر واپس کردی۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے منسلک انکوائری میں فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست نمٹا دی ہے۔ گوجرانوالہ میں پیپلز ٹریڈرز سیل کے زیراہتمام اندرون شہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں صنعتکار‘ تاجر وکارکنان نے بھرپور شرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو، تیمور ڈار‘ صابر باجوہ‘ امانت مہر‘ حاجی ظفر و دیگر نے خطاب کیا۔ پیپلزپارٹی نے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔کارکن نیب گردی نامنظور اور گو نیازی گو کے نعرے لگارہے تھے۔ چوہدری اسلم گل ، سید حسن مرتضی، منور انجم ،عثمان ملک ، اسرار بٹ، اشرف بھٹی، ثمینہ خالدگھرکی ،فیصل میر، شہباز بھٹی، ذوہب بٹ، ناصرہ شوکت، موسی کھوکھر، راجہ شبیر، شہناز کنول، شاہدہ جبیں، مسعود ملک،رائے شاہجہاں بھٹی ،راؤ شجاعت ،رانا یوسف، افتخار شاہد، عارف ظفر، ڈاکٹر احسن، مرزا شمشیر، عامر بٹ اور دیگر شریک تھے۔قصور میں یوتھ ونگ کے صدر آصف علی کی زیر قیادت مظاہرہ کیا گیا شیخوپورہ میں پریس کلب کے باہر احتجاج کی قیادت چودھری خالق عزیز مت ورک، سید ندیم عباس کظامی، چودھری منیر قمر واہگہ، ملک جاوید اکبر ڈوگر، عثمان ثنار پنوں، رانا محمد اکرم ناز، افتخار علی بھٹ، میاں عدنان سعید، رضا خان جمالی، اشرف خیال، ملک جمشید شہباز، سیٹھ غلام رسول ، محمد عمران خان بھٹی ایڈووکیٹ میاں محمود اختر، سید اطہر حسین شاہ، مرزا ہارون الرشید بیگ، حاجی سیٹھ محمد یاسین کرمانوالہ، یاور الطاف ورک، چودھری عمران صدر گجر صفدر علی کلو، کاشف گیلانی سمیت دیگرنے کی ۔ پریس کلب ننکانہ صاحب کے سامنے احتجاج کیا گیا قبل ازیں ضلعی صدر سید ابرار حسین شاہ،سابق ٹکٹ ہولڈر پی پی 133 رانا شکیل الرحمان ، ڈویژنل نائب صدر لاہور ڈویژن (رورل) رائے ولایت علی کھرل ، ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری لاہور ڈویژن کامران شاہ بخاری اور شاہین اقبال غیور ایڈووکیٹ نے پریس کلب ننکانہ صاحب میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مہنگائی ، بے روزگاری ، لوٹ مار ، بجٹ سے عوام کی توجہ ہٹائے اور اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لیے سیاسی رہنمائوںکی گرفتاریوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے۔ پی پی آج چیئرنگ کراس مال روڈ پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گی. پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات سید حسن مرتضی نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کیخلاف پنجاب میں دوسرے روز بھی پر امن احتجاج جاری رہے گا۔