اشیائے ضروریہ، سیمنٹ، گاڑیاں مہنگی، موبائل فون، انٹرنیٹ، ادویات، کاغذ، کتابیں سستی

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیر مملکت  برائے خزانہ حماد اظہر  نے  قومی اسمبلی میں   مالی سال  2019-20کا  8238.1 بلین روپے کا  وفاقی  بجٹ   میں پیش  کردیا جس میں  ٹیکسوں کی بھرمارکی گئی ہے جبکہ  کم سے کم اجرت  17500مقرر، تنخواہ دار اورغیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں اضافہ، سیمنٹ، سگریٹ، چینی، خوردنی تیل، گھی، کولڈڈرنکس ،دودھ ،کریم ، خشک دودھ ، زیورات ، ایل این جی   ،چکن، مٹن، بیف اور مچھلی، سونا، چاندی، ہیرے، گاڑیاں مہنگی   کردی گئیں ،کاغذ،موبائل  سستے ، ریسٹورنٹ  اور بیکری کی اشیاء پر سیلز ٹیکس میں کمی ، صنعتی اور برآمدی شعبے کیلئے  بجلی اور گیس سستی ، نان فائلر کے لئے 50لاکھ  روپے سے زائد کی جائیداد کی خریداری پر پابندی  ختم کردی   گئی۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5550 ارب رکھا گیا ہے، ہائی وے اتھارٹی کے لیے 156 ارب روپے ، پشاور کراچی موٹر وے کے سکھر سیکشن کے لیے 19 ارب روپے مختص،  تعلیم کے لیے  43 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،کمزور طبقے کو بجلی پرسبسڈی دینے کے  لئے 200 ارب روپے ، 10 لاکھ افراد کے لئے نئی راشن کارڈ سکیم شروع کی جارہی ہے، احساس پروگرام کے تحت وظیفے 5000 روپے سے بڑھا کر 5500 روپے کیے جائیں گے،عمر رسیدہ افراد کے لئے احساس گھر بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 روپے کی جا رہی ہے،کمزور طبقے کی سماجی تحفظ کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے، ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس میں 2.5 ف، 2 ہزار سی سی  میں5 فی صد، جب کہ 2 ہزار سے زائد سی سی کی گاڑیوں میں ٹیکس میں 7.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ معذور افراد کے وظیفے میں 1000 روپے کا اضافہ، تحریک انصاف کے وزیرِ مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے اپنی حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا ، بجٹ کا حجم 67 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ وزیر مملکت ریونیو نے کہا کہ تحریک انصاف نئی سوچ ‘ نئی کمٹمنٹ اور ایک نیا پاکستان لائی ہے۔ 22 سال کی جدوجہد اور پاکستان کے لوگوں کی مرضی آج ہمیں یہاں لائی ہے۔ اب وقت  ہے لوگوں کی زندگی بدلنے  کا۔ عوامی عہدوں سے کرپشن ختم کرنے کا ‘ اداروں میں میرٹ لانے کا ‘ معیشت کو مضبوط کرنے کا اور جو لوگ بھلا دئیے گئے ان پیچھے رہ جانے والوں کو آگے لانے کا وقت ہے۔  انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کے ریونیو کیلئے 5,500 ارب روپے کا چیلنجنگ ہدف رکھا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اخراجات میں کمی پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ بنیادی خسارہ 0.6 فیصد تک رہ جائے۔پاکستان میں جی ڈی پی  ٹو ٹیکس کی شرح 11 فیصد سے بھی کم ہے جو علاقے میں سب سے کم ہے۔ صرف 20 لاکھ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ ملازمین ہیں۔ صر ف 380 کمپنیاں کل ٹیکس کا 80 فیصد سے بھی زیادہ ادا کرتی ہیں ۔ کل 3 لاکھ 39  ہزار بجلی اور گیس کے کنکشن ہیں  جبکہ صرف چالیس ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح کل 31 لاکھ کمرشل صارفین میں سے صرف 14  لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ بنکوں کے مجموعی طور پر تقریباً 5کروڑ اکائونٹ ہیں جن میں سے صرف 10 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد ٹیکس دیتی ہیں بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈالتے۔  نئے پاکستان میں اس سوچ کو  بدلنا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ جب تک ہم اپنا ٹیکس کا نظام بہتر نہیں کریں گے پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تاریخی طور پر ہم نے صحت ‘ تعلیم ‘ پینے کے پانی ‘ شہری سہولیات اور لوگوں سے متعلق کسی بھی چیز پر مطلوبہ اخراجات نہیں کئے۔ اب ہم اس مقام پر آ چکے ہیں جہاں ہمیں قرضوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ سول اور عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں سول حکومت کے اخراجات  460 ارب روپے سے کم ہو کر 437 ارب روپے کئے جا رہے ہیں  جوکہ 5 فیصد کی کمی ہے۔ وزیر مملکت ریونیو نے کہا کہ اس حوالے سے میں چار پالیسی تجاویز کا ذکر کروں گا۔  کم  بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے سبسڈی  دی جائے گی۔ بجلی کے صارفین میں تقریباً 75 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ 200  یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ حکومت ایسے صارفین کو لاگت سے بھی کم نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی اس کیلئے 200 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لئے ایک نئی  وزارت قائم کی ہے جو ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرام بنائے گی اور ان پر عملدرآمد  کرے گی۔ احساس سے مدد حاصل کرنے والوں میں انتہائی غریب ‘ یتیم ‘ بیوائیں ‘ بے گھر ‘ معذور اور بے روزگار شامل ہیں۔  انہوں نے کہا کہ دس لاکھ مستحق افراد کو صت مند خوراک فراہم کرنے کے لئے ایک نئی راشن کارڈ اسکیم شروع کی جا رہی ہے۔ مائوں اور نوزائیدہ بچوں کو خصوصی صحت مند خوراک مہیا  کی جائے گی۔  اسی ہزار مستحق لوگوں کو ہر مہینے بلا سود قرضے دئیے جائیں گے۔ ساٹھ لاکھ خواتین کو ان کے اپنے سیونگ اکائونٹ میں وظائف کی فراہم اور موبائل فون تک رسائی دی جائے گی۔ پانچ سو کفالت مراکز کے ذریعے خواتین اور بچوں کو فری آن لائن کورسز کی سہولت میسر کی جائے گی ۔معذور افراد کو وہیل چیئر اور سننے کے آلات فراہم کئے جائینگے۔  انہو ں نے کہا کہ تعلیم میں پیچھے رہ جانے والے اضلاع میں والدین کو بچے سکول بھیجنے کے لئے خصوصی ترغیبات دی جائیں گی۔ عمر رسیدہ افراد کیلئے احساس گھر بنانے  پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت بی آئی ایس پی کے زریعے 57 لاکھ انتہائی غریب  گھرانوں کو 5  ہزار روپے فی سہ ماہی نقد امداد دی جاتی ہے جس کے لئے 110 ارب روپے کا بجٹ مقرر ہے۔ افراط زر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سہ ماہی وظیفے کو 5 ہزار روپے سے بڑھا کر 5,500 روپے  کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غریبوں کی نشاندہی کرنے کے لئے سماجی اور معاشی ڈیٹا کو  اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ کام مئی 2020 ء تک مکمل کر لیا جائے گا اور اس دوران 3 کروڑ 20 لاکھ گھرانوں اور 20 کروڑ آبادی کا سروے کیا جائے گا۔  50 اضلاع میں بی آئی ایس پی  سے مدد حاصل کرنے والے خاندانوں کے 32 لاکھ بچھے 750 روپے فی سہ ماہی وظیفہ حاصل کرتے ہیں جس کا مقصد سکول چھوڑنے والے   بچوں کی تعداد کم  کرنا ہے۔ اس پروگرام کو مزید 100 اضلاع تک توسیع دی جا رہی ہے اور بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 روپے سے بڑھا کر  ایک ہزار روپے کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت غریبوں کو صحت کی انشورنس مہیا کی جا تی ہے۔  مستحق افراد کو صحت کارڈ فراہم کئے جاتے ہیں جن سے وہ پورے پاکستان سے منتخب کردہ 270  ہسپتالوں مین ساے کسی میں بھی 720,000 روپے سالانہ  تک علاج کروا  سکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پاکستان کے 42 اضلاع میں 32 لاکھ غریب خاندانوں کو یہ سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔ اگلے مرحلے میں اس پروگرام کو ڈیڑھ کروڑ انتہائی غریب اور پسماندہ خاندانوں تک پھیلایا جائے گا۔ اس پروگرام کا اطلاق پاکستان کے تمام اضلاع بشمول ضلع تھرپارکر اور خیبر پختونخوا کے نئے اضلاع اور معذوروں اور ان کے خاندانوں پر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت ، غذائیت ، تعلیم ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور حفظان صحت وغیرہ کے لئے 93 ارب روپے مختص کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ کم آمدن افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمی تبدیلی کے تلافی کرنے کے لئے بلین ٹری سونامی اور کلین  اینڈ گرین پاکستان پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کریں گے کہ قیمتوں میں کم سے کم اضافہ ہو ۔ لیکن اگر عالمی منڈیوں میں قیمتیں اوپر جانے کی وجہ سے ہمیں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ صارفین کو ہر ممکن تحفظ دیا جائے ۔ اس وجہ سے  ہم نے کمزور طبقات کو سماجی تحفظ کی فراہمی کے لئے بجٹ مقرر کیا ہے ۔ قیمتوں میں استحکام ہمارے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہم مالیاتی پالیسی اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے انتظامی اقدامات کی بدولت قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کریں گے ۔ اس حوالے سے حکومت 2019-20 میں مندرجہ ذیل اقدامات کرے گی ۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے سٹیٹ بینک  آف پاکستان سے قرض حاصل کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ حکومت اب یہ سہولت استعمال نہیں کرے گی۔ افراط زر کے لئے ہمارا وسط مدتی ہدف 5 سے سات فیصد ہے ۔ اس کے علاوہ ہم اچھی حکمرانی پر توجہ دیں گے اور بدعنوانی کے مقابلے کے لئے پرعزم ہیں ۔ ہم  اپنے اداروں کو خود مختاری دیں گے ان کی صلاحیت میںاضافہ کریں گے اور ان کی قیادت کا انتخاب قابلیت کی بنیاد پر کریں گے ۔ 2019-20 معیشت کے استحکام کا سال ہوگا ۔ تبدیلی کا یہ مشکل مرحلہ ہم کم سے کم وقت میں پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ عوام پرمشکل فیصلوں کے اثرات کم سے کم ہوں ۔  انہوں نے کہاکہ مچھلی کے پوٹینشل سے استفادہ کرنے کے لئے کیکڑے اور ٹھنڈے پانی کی ٹرائوٹ  کی فارمنگ کے منصوبوں کے لئے 9.3 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کیلئے گھریلو مرغ بانی اور بھینس کے بچے کو پالنے کی حوصلہ افزائی کیلئے 5.6 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ چھوٹے کسان کیلئے فصل خراب ہونے کی صورت میں نقصان کی تلافی کیلئے انشورنش سکیم مہیا کی جا رہی ہے ، اس مقصد کیلئے بجٹ 2019-20میں 2.5ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معاشی نقصان بھی ہوتا ہے ، ٹریڈ بیس منی لانڈرنگ کے خاتمے کیلئے ایک بالکل نیا نظام تجویز کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو افراد زر کو قابو میں رکھنے کیلئے مانیٹری پالیسی بنانے میں وسیع تر خودمختاری دی جا رہی ہے ۔وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا کہ treasury single account بنایا گیا ہے اور حکومت رقوم کمرشل بینک اکائونٹ میں رکھنے کی ممانعت کردی گئی ہے ۔ معذور ملازمین کا 1000 special conveyance allowanceروپے ماہانہ سے بڑھا کر 2000روپے ماہانہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2019-20کیلئے بجٹ تخمینہ 7,022ارب روپے ہے جو کہ جاری مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ 5385ارب روپے کے مقابلے میں 30فیصد زیادہ ہے ، مالی سال 2019-20کیلئے وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6717ارب روپے ہے جو کہ 2018-19کے 5661ارب روپے کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے ، ایف بی آر کے ذریعے 5555ارب آمدن متوقع ہے جس کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریٹیو12.6فیصد ہے ۔ وفاقی ریونیو کولیکشن میں سے 3.255ارب روپے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو جائیں گے جو کہ موجودہ سال کے 2465ارب روپے کے مقابلے میں 32فیصد زیادہ ہیں ، مالی سال 2019-20کیلئے نیٹ فیڈرل ریونیو کی مد میں 3462ارب روپے کا تخمینہ ہے جو کہ جاری مالی سال کے 3070ارب روپے کے مقابلے میں 13فیصد زیادہ ہیں ۔ اس طرح وفاقی بجٹ خسارہ 3560ارب روپے ہوگا ، مالی سال 2019-20کیلئے صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423ارب روپے ہے ، مالی سال 2019-20کیلئے مجموعی مالی خسارہ 3.137ارب یا جی ڈی پی کے 7.1فیصد ہوگا جو کہ 2018-19کے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.2فیصد پر تھا۔انہوں نے کہا کہ اس سال پاکستان نے سابقہ حکومتوں کی طرف سے متعارف کرائی گئی ناقص ٹیکس پالیسیوں کے بدترین اثرات کا سامنا کیا ، ان پالیسیوں کو پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہ تھی ، پچھلی حکومت نے اضافہ ٹیکس ریلیف فراہم کیا جس سے ٹیکس بیس  میں 9فیصد کمی واقع ہوئی۔ کاغذ کی پیداوار کیلئے استعمال ہونے والے بنیادی خام مال جیسے برادرہ اور کاغذ کے سکرین کو کسٹم ڈیوتی سے exemptionدینے کی تجویز ہے اور مختلف اقسام کے کاغذ پر ڈیوٹی 20فیصد سے 16فیصد تک کم کی جائے گی ، اسے ملک میں کاغذ اور کتابون کی قیمتوں میں کمی اائے گی اور پرنٹنگ کی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوگئی ، قرآن کی اشاعت کیلئے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں ، غیر روایتی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے لکڑی کے فرنیچر اور ریزر کی پیدوار میں استعمال ہونے والے کچھ اشیاء پر ڈیوٹی کم کی جا سکتی ہے ، مقامی جنگلات کو بچانے اور فرنیچر کے پیداکنندگان کی حوصلہ افزائی کیلئے لکڑی پر ڈیوٹی 3فیصد کم سے کم کر کے زیرو فیصد اور لکڑی کے مصنوعی پینلز پر ڈیوٹی 11فیصد سے کم کر کے 3فیصد کرنے کی تجویز ہے ، ریزر کے ایکسپورٹس کیلئے سٹیل کی پٹیوں پر ڈیوٹی 11فیصد سے کم کر کے 5فیصد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے ، گھریلو اشیاء کی صنعت، پرنٹنگ پلیٹ کی صنعت ، سولر پینلز کے اسمبلرز اور کیمیکل انڈسٹری کے مداخل کی لاگت کو کم کرنے کیلئے ان کے مداخل پر ڈیوٹیز جیسا کہ گھریلو اشیاء کے پارٹس ، اجزاء ، ایلومینیم کی پلیٹوں ، دھاتی سطح والی اشیاء اور ایسیٹک ایسڈ پر ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے ، بڑے پیمانے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی غرض سے exemptionدینے کی تجویز ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کیلئے prohibitive regulatory dutiesکے استعمال سے امپورٹس تو کم ہوئیں لیکن ان میں کچھ اشیاء ٹرانزٹ ٹریڈ میں چلی گئیں اور پھر انہیں سمگل کیا گیا، تجویز ہے کہ ٹائر، وارنش اور خوراک کی صنعت میں خوراک کی تیاری کے حوالے سے ڈیوٹی کے ڈھانچے کو منطقی بنایا جائے تا کہ ان اشیاء کو سمگلنگ ہونے سے بچایا جائے اور ضائع ہونے والے محصولات کو حاصل کیا جائے ، بڑھتی ہوئی cost of livingکے باعث عام آدمی کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے ، عام آدمی کیلئے دوائیوں کی قیمتوں میں کمی کی غرض سے ، دوائیوں کی پیدوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی 19بنیادی اشیاء کو 3فیصد امپورٹس ڈیوٹی سے exemptionدینے کی تجویز ہے ۔ ایکسپورٹس کی حوصلہ افزئی کیلئے برآمدی سہولیات کی مختلف سکیموں کو سادہ اور خودکار بنایا جا رہا ہے تا کہ انسانی عمل دخل کم سے کم ہو اور تیز رفتار عمل شفاف طریقے سے انجام پائے ، رواں مالی سال کے پہلے 11ماہ کے دوران raw materialsکی امپورٹ پر ایکسپورٹس کو سہولیات فراہم کرنے کی مختلف سکیموں کے تحت برآمدکنندگان کو ڈیوٹی کی مد میں 24ارب روپے کی رعایتیں دی گئیں اس لئے ہم نے امپورٹس مرحلے کے حوالے سے محصولات کے ضمن میں کم از کم اقدامات برقرار رکھمے کی کوشش کی ہے ، یہ تجویز کیا جا رہاے کہ اضافی کسٹمز ڈیوٹی کی شرح موجودہ شرح سے بالترتیب2فیصد سے 4فیصد اور6 فیصد اور20فیصد کے ٹیرف سلیبز پر 7فیصد اضافہ کیا جائے جو بنیادی پرلکثری آئٹمز سمیت پرتعیش اشیاء پر مشتمل ہیں ، فی الوقت ایل این جی کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے چونکہ ایل این جی نے فرنس آئل کی جگہ لے لی ہے جس پر 7فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہے ، اس لئے اب ایل این جی کی امپورٹس پر 5فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے ۔انہوں نے کہا کہ غریب طبقے کی بڑی اکثریت کے فائدے کیلئے محصولات اکٹھا کرنے کی غرض سے جنرل سیلز ٹیکس کے ریٹ کو17فیصد تک بڑھانے کا آپشن اختیار نہیں کیا ۔اس وقت اینٹوں کے  بھٹوں سے17فیصد کے ریٹ سے ٹیکس  وصول کیا جارہا ہے، تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس کے ریٹ کو17فیصد کم کرکے کپیسٹی اور جگہ کے حساب سے فکس کیا جائے۔یہ دیہی علاقوں کی صنعت ہے جہاں دستاویزی تقاضے کو پورا کرنا مشکل ہے، اس لیے اس اقدام سے  کم لاگت پر شکایات کو یقینی بنایا جاسکے گا۔انہوں نے کہا کہ کھانے اور دیگر اشیاء خورد نوش کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء جیسے گوشت ،سبزیاں،آٹا وغیرہ کو دستاویزی شکل میں لانا مشکل ہے اور اس  کاروبار کے لوگوں میں ٹیکس چوری کا رجحان بڑھتا ہے اس لیے ٹیکس اتھارٹیز کی طرف سے کم سے کم اخراجات کے ساتھ  شکایات کی حوصلہ افزائی کے  لیے تجویز ہے کہ ریستوران  اور بیکری میں فراہم کی جانے والی چیزوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد کم کرکے7.5فیصد پر لایا جائے،جس میں سے ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس وقت خشک  دوددھ کی متعدد اقسام کیلئے سیلز ٹیکس کے ریٹ یکساں نہیں ہیں۔ ایک جیسی مصنوعات پر ٹیکس کی مختلف شرحیں عائد ہیں اس لیے اس فرق کو ختم کرنے کیلئے تجویز ہے کہ  دودھ اور کریم ،خشک اور بغیر فلیور والے دودھ پر یکساں10فیصد ٹیکس عائد کیا جائے ۔ پی ایم سی اور پی وی سی کی افغانستان ایکسپورٹ پر پابندی کے خاتمے کے لیے تجویز ہے کہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو زیرو ریٹ پر یہ  اشیاء ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔اس اقدام سے  متذکرہ بالا اشیاء کی ملک میں مقامی طور پر پیداوار کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس وقت  متعدد اشیاء پر معیاری سیلز ٹیکس کے علاوہ  دو فیصد اضافی ٹیکس بھی عائد ہے، جیسا کہ بجلی اور گیس کے آلات ،فوم،اسلحہ اور ایمونیشن، بیٹریاں، آٹو پارٹس، ٹائرز وغیرہ، ٹیکس کی مکمل پوٹیشنل کے ساتھ وصولی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تجویز ہے کہ ان اشیائ(ماسوائے آٹوپارٹس) کو سیلز ٹیکس ایکٹ1990 کے تیسرے شیڈول(ریٹیل پرائس ٹیکسیشن) میں منتقل کردیا جائے ،آٹو پارٹس جو کہ درمیانی نوعیت  کی حامل ہیں اور صنعتوں میں استعمال ہوتی ہیں تجویز ہے کہ ان پر عائد اضافی ٹیکس کو واپس لے لیا جائے  تاکہ مقامی صنعت کی لاگت پیداوار میں کمی آئے۔ فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے بعد سپلائز کے حوالے سے ایکسپشن میں پانچ سال کی توسیع دی گئی ہے،تاکہ معاشی سرگرمیاں بڑھیں،تجویز ہے کہ صنعتی خام مال اور پلانٹ ومشنری کی امپورٹ پر بھی ٹیکس  ایکسپشن کو ان علاقوں تک وسعت دی جائے،مزید برآن ان علاقوں میں تمام گھریلو اور کاروباری صارفین اور31مئی 2018سے پہلے قائم ہونے والی صنعتوں کو بجلی کی فراہمی  پر سیلز ٹیکس کے لیے  ایکسپشن دینے کی تجویز ہے اس ایکسپشن کا اطلاق ان علاقوں میں واقع سٹیل ملوں اور گھی ملوں پر نہیں ہوگا۔ اس وقت کاروباری امپورٹ پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد ہے جس کی وجہ سے  ٹیکس کی بوجھ میں غیر ضروری طور پر اضافہ ہوگیا ہے  اس لیے تجویز ہے کہ  موبائل فونز کی امپورٹ پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کردیا جائے،اس سے موبائل فونز کی امپورٹ پر عائد ٹیکس میں کمی آئے گی۔تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس میں اصلاحات پٹرولیم مصنوعات اس وقت ویلیو ایڈیشن ٹیکس سے استثنیٰ او ایم سی ایس کی طر ف سے امپورٹ کی جانے والی صرف ان اشیاء پر موجود ہے جن کی قیمتیں ریگولیٹ کی جاتی ہیں تجویز ہے کہ او ایم سی ایس کی طرف سے امپورٹ کی جانیوالی تمام پٹرولیم مصنوعات جیسے فرنس آئل پر بھی  ایکسپشن دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ کئی سالوں سے سیلز ٹیکس قانون میں کئی سطحوں پر مشتمل ٹیکسیشن اور اس کے تحت قانون سازی کی شمولیت سے یہ ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اس کے بغور مطالعے کے بعد سپیشل پروسیجر رولز کو ختم کرکے سیلز ٹیکس ایکٹ کا حصہ بنایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح سے چند بے حد ضروری ایس آر اوز کو چھوڑ کر تمام ایس آر اوز اور ایس ٹی جی اوز کا خاتمہ کیا جا رہا ہے ۔ ایس آر او1125(1)/2011 کے ذریعے پانچ برآمدی شعبوں یعنی ٹیکسٹائل ، چمڑے ، کارپٹس ، کھیلوں کے سامان اور سرجیکل سامان کی پیداوار اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء پر سیلز ٹیکس کو زیروریٹڈ کیا گیا تھا ۔ اس کا مقصد ریفنڈ کی ادائیگی میں تاخیر کا خاتمہ کرنا تھا ۔ تاہم زیرو ریٹنگ کی وجہ سے ملکی پیداوار اور صنعت کا ایک بڑا حصہ ہونے کے باوجود ان اشیاء کی ملکی فروخت میں ٹیکس کی مقدار صرف 6 ارب روپے ہے جو کہ 1200 ارب روپے کی پیداوار کا ایک فیصد بھی نہیں ۔ تیار شدہ اشیاء پر کم کردہ شرحوں سے بھی محصولات کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ان نقائض کو دور کرنے اور محصولات کی مد میں ہونے والے نقصان کو روکنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ۔ ایس آر او 1125  کو منسوخ کر دیا جائے اس طرح 17 فیصد کی معیاری شرح کو بحال کر دیا جائے ، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی تیار شدہ اشیاء اور تیار شدہ کپڑے کی مقامی سپلائرز پر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد تک بڑھایا دیا جائے تاہم ایسے پرچون فروش جو رئیل ٹائم میں اکائونٹنگ کا انتخاب کریں گے انہیں ریٹ میں رعایت دی جا سکتی ہے جو 15 فیصد تک ہو سکتی ہے ۔ یوٹیلیٹیز کی مید میں زیرو ریٹنگ کاخاتمہ دوسری طرف ان شعبوں میں سیلز ٹیکس کے ریفنڈ کو خود کار بنایا جائے  تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان پٹس پر ادا کیا گیا سیلز ٹیکس فوری طور پر ریفنڈ ہو ۔ ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز کو فوری طور پر ادائیگی کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھیجا جائے گا ۔ جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ برآمدات کی رقم کی وصولی کے ساتھ ہی اس ریفنڈ کو ادا کردیا جائے گا ۔ روئی کو اس وقت سیلز ٹیکس سے ایگزمپشن حاصل ہے تجویز ہے کہ اس پر دس فیصد ٹیکس عائد کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سٹیل کے شعبے سے سیلز ٹیکس بجلی کے بلوں پر 13 روپے فی کلو واٹ پاور کے حسب سے اکٹھا کیا جا رہا ہے ۔ بیلٹ بنانے  کے لئے استعمال ہونے والے سیکریپ پر ایم ٹی5600 کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کیا جاتاہے جو ایڈجسٹیبل ہے ۔ شپ بریکرز کے لئے ایمپورٹ کیے جانے والے جہاز سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں۔ تاہم جہاز توڑ کر حاصل کی جانے والی شپ پلیٹس پر ایم ٹی 9300 کے حساب سے ٹیکس نافذ ہے ۔  مزید برآں قبائلی علاقوں میں قائم سٹیل انڈسٹری سیلز ٹیکس سے ایگزیمپ ہے اور دیگر علاقوں کے سٹیل یونٹس ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ ان پیچیدہ قوانین سے چھٹکارا پانے اور اس شعبے سے پوٹینشل ریونیو حاصل کرنے کے لئے تجویز ہے کہ  سپیشل سپروسیجر کا خاتمہ کیا جائے اور ان اشیاء کو نارمل ٹیکس قانون کے تحت لایا جائے ۔ بیلٹ ، انگوٹس، راڈز ، شپ پلیٹس اور دیگر ایسی اشیاء پر سیلز ٹیکس کی صورت میں 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے ۔ ان اشیاء پر فیڈ لگانے کی وجہ سے فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ کیا جا رہا ہے ۔  بجلی کے استعمال کی بنیاد پر پیداوار کے حوالے سے کم سے کم سٹینڈرز کا بھی تعین کا جا رہا ہے ۔  انہوں نے کہا کہ اوگرا کی جانب سے سی این جی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کے بعد سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس تناسب سے ٹیکس کی سرحوں کو ریشنلائز نہیں کیا گیا ۔ اس لئے تجویز ہے کہ سی این جی ڈیلرز کے لئے ویلیو ریجن  کے لئے 64.80 روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 74.04 روپے فی کلو گرام اور ریجن II کے لئے 57.69 روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر69.57 روپے فی کلوگرام کر دیا جائے ۔ واضح رہے کہ اس اقدام سے سی این جی کی قیمت میں بہت معمولی اضافہ ہوگا کیونکہ سی این  جی کی مارکیٹ قیمت اس رقم سے زیادہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے لئے ریٹیلرز کو مختلف سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ سطح ْْْI کے ریٹیلرز 17 فیصد یا ٹرن اوور کا دو فیصد ۔ سطح II بجلی کے ذریعے ٹیکس کا نفاذ  تجویز ہے کہ ٹرن اوور ٹیکس کا خاتمہ کر دیا جائے ۔ سطح I کے ریٹیلرز کو ایف بی آر کے آن لائن سسٹم  سے منسلک کر دیا جائے گا ۔ نظام سے منسلک دکانوں سے ایاء کی خریداری اور انوائسز طلب کرنے پر 5 فیصد تک سیلز ٹیکس کی واپسی کی صورت میں فائدہ دیاجائے گا ۔ ایسی دکان جس کا سائز1000 مربع فٹ یا اس سے زائد ہوگا اسے بھی سطح I کے ریٹیلرز میں شامل کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت چینی پر 8 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے ۔ اس شعبے میں وسیع معاشی مواقع موجود ہیں لیکن یہاں سے جمع ہونے والا ٹیکس صرف 18 ارب روپے ہے جو کہ اس کے حقیقی پوٹینشل سے بہت کم ہے ۔ ٹیکس میں خلاء کو کم کرنے اور اس کے ریٹ کو دیگر اشیاء  سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تجویز ہے کہ چینی پر سیلز ٹیکس کو بڑھا کر 17 فیصد کر دیا جائے ۔ تاہم ریٹ میں اس اضافے کے اثر سے صارفین کو جزوی طور پر بچانے کے لئے یہ تجویز ہے کہ چینی کو ان اشیاء سے میں سے نکا دیا جائے جن کو غیر رجسٹرڈ افراد کو فروخت سے اضافی تین فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اس اقدام کے نتیجے میں امید ہے چینی کی قیمت میں 3.65 روپے فی کلوگرام اضافہ ہوگا ۔  انہوں نے کہا کہ چکن ، مٹن ، بیف اور مچلی کے گوشپ سے سیمی پروسیسڈ اور کوکڈ اشیاء کی کھپت میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ یہ اشیاء عمومی طور پر خوشحال افراد کے استعمال میں آتی ہیں تجویز ہے کہ ان اشیاء پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کاٹیج انڈسٹری کی ایگزمپشن کا بڑے پیمانے پرغلط استعمال ہو رہا ہے ۔ تجویز ہے کہ مندرجہ ذیل کو شامل کرنے کے لئے اس کی دوبارہ تشریح کیجائے ۔ یکم جولائی 2019 سے کاٹیج انڈسٹری سے مراد وہ صنعت ہو گی جو  رہائشی علاقوں میں قائم ہو ، جہاں زیادہ سے زیادہ مزدور کام کررہے ہوں اور سالانہ ٹرن اوور 20 لاکھ روپے سے زائد نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ بہترین عالمی پریکٹس کو بنیاذد بتاتے ہوئے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے لئے تجویز ہے کہ سونے ، چاندی ، ہیرے اور زیورات کی لوکل سیل پر قیمتی دھات اور زیورات کی بنوائی پر کم شرح سے سیلز ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ جیولرز سیلز ٹیکس میں شامل ہو سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ سنگ مرمر کی صنعت پر ٹیکس کی موجودہ شرح 1025 روپے فی یون ٹ ہے تجویز ہے کہ اس شعبے میں بھی فروخت پر 17 فیصد کی شرح نافذ کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ ایسی خدمات جو صوبائی قوانین میں قابل ادائیگی ٹیکس ہیں اور وہ آئی سی ٹی قانون میں موجودہ نہیں ۔ انہیں ان کے مطابق آئی سی ٹی قانون میں شامل کیا جائے ۔ ایسی خدمات جن پر پہلے ہی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ ہے انہیں آئی سی ٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا تکہ دوہرے ٹیکس سے بچا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ کاروبار کرنے میں آسانی کے لئے اقدامات پر سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 58 ڈائریکٹرز وغیرہ کو ادا شدہ واجبات کی وصولی کا اختیار اس اقدام سے ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر کو اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ کمپنی کے لئے ادا شدہ ٹیکس کمپنی سے وصول کر سکے ۔ سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کو سادہ بنانا ، کاروبار کی آسانی  سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے لئے پروسیچر کو سادہ بنایا جا رہا ہے تاکہ ٹیکس کلکٹرز اور ٹیکس گزاروں کے مابین رابطہ کم سے کم ہو اور نادرا کے ای سہولت مرکز کے ذریعے سے سیلز ٹیکس رجسٹریشن ممکن بنائی جا سکے ۔  انہوں نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کی ہدایات پر اہم اختیارات وفاقی حکومت کے پاس رہیں گے ۔ ایسی تجاویز تیار کی گئی ہیں کہ پروسیجر کے معاملات کے حوالے سے الفاظ ، وفاقی حکومت کو بورڈ یا انچارج وزیر کی منظور ی سے بورڈ سے بدل دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لئے ڈی رجسٹریشن کے حوالے سے قواعد میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ اب ڈی رجسٹریشن کے پروسیس کے دوران گوشوارے فائل کرنا لازمی نہیں ہوگا۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے تجویز ہے کہ ڈی رجسٹریشن کے آرڈر پر اپیل کی اجازت دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ۔ فیضی ڈرنکس پر ایف ای ڈی میں اضافہ   مختلف اشیاء پر ٹیکس کے ریٹس میں ہم آہنگی کے لئے اور چینی والے مشروبات کی کنزیمپشن کم کرنے کے لئے کولڈ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 11.25 فیصد سے بڑھا کر 14 فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل پر صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو ہے ۔ پروڈیوسر کو ویلیو ایڈیشن پر ایک روپیہ فی کلوگرام کے حسلاب سے درآمد شدہ خوردنی آئل سیڈز کی ویلیو ایڈیشن پر 40 روپے فی کلوگرام کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے ۔ ٹیکسز کی کولیکشن حقیقی پوٹینشل کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ اس امر کے باوجود کو خوردنی تیل کی 27 فیصد پیداوار  مقامی ہے ۔ مقامی پیداوار پر صرف آدھا ارب ٹیکس وصول ہوا ہے جیسا کہ ایمپورٹ پر اس ٹیکس کی مقدار 42 ارب روپے ہے ۔ تجویز ہے کہ خوردنی تیل ، گھی ، کوکنگ آئل پر ایف ای ڈی بڑھا کر 17 فیصد کردی جائے اور ویلیو ایڈیشن ٹیکس کے بدلے میں ایک روپیہ فی کلوگرام ٹیکس کوختم کردیا جائے نیز خوردنی بیجوں پر رعایتی  ریٹس کو بھی ختم کردیا جائے ۔ ایسا گھی ، کوکنگ آئل جو ریٹیل پیکنگ میں کسی برانڈ نام سے فروخت ہوتا ہے تجویز ہے کہ اس ریٹیل پرائس کے 17 فیصد کے برابر سیلز ٹیکس عائد کیا جائے ۔ یہ بھی تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس موڈ میں نارمل ایف ای ڈی کو بحال کیا جائے ۔ جس کے تحت انڈسٹری حقیقی ویلیو ایڈیشن پر ایف ای ڈی ادا کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریٹیل پرائس کے 5 فیصد کے برابر ایف ای ڈی متعارف کروانے کی تجویز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.25 روپے فی کلوگرام کے حساب سے نافذ العمل ہے تجویز ہے کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر دو روپے فی کلوگرام کر دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ایل این جی کی ایمپورٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 17.18 روپے فی 100 مکعب فٹ کو بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فنانس  ضمنی دوسرے ترمیمی ایکٹ 2019 کے ذریعے 1700 سی سی اور اس سے زائد انجن کیپیسٹی کی حامل گاڑیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ایف ای ڈی متعارف کروائی گئی تھی اب تجویز ہے کہ ایف ای ڈی  کے سکوپ کو وسیع کیا جائے اور اس تناظر میں مندرجہ ذیل سلیب متعارف کروائی جا رہی ہے ۔ 0 سے 1000 سی سی 2.5 فیصد کی شرح سے 1001 سی سی سے 2000 سی سی پانچ فیصد کی شرح سے اور 2001 سی سی اور اس سے زائد پر 7.5 فیصد ایف ای ڈی وصول کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سگریٹس پر ایف ای ڈی متعین ریٹ سے لاگو ہوتی ہے ان شرحوں کو قیمتوں کے لحاظ سے ہر سال بڑھانا پڑتا ہے ۔ ایف ای ڈی کو مندرجہ ذیل طریقے سے بڑھانے کی تجویز ہے ۔ روایتی طور پر سگریٹس کو دو سلیبز میں تقسیم کرکے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لیکن 2017 میں ایک تیسری سلیب بھی متعارف کروائی گئی تھی تاکہ  کم قیمت والی غیر قانونی مارکیٹ کو راغب کیا جا سکے ۔لیکن اس کے مطلوبہ نتائج ایکسپورٹ نہیں ہوئے۔  مقررہ تاریخ کے بعد ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے اے ٹی ایل میں نام شامل نہ ہونے کی شرط کو ختم کیا جا رہا ہے۔ وزیر مملکت ریونیو نے کہا کہ سابقہ  حکومت نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ کسی نان فائلر کے نام پر پچاس لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد کو رجسٹرڈ یا ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جائیداد کی خریداری پر اس پابندی کے مطلوبہ نتائج ایکسپورٹ نہیں ہوئے اس کے ساتھ ساتھ اسے عدالت میں قانونی طو رپر چیلنج  بھی کر دیا گیا ہے اس لئے غیر نقولہ جائیداد کی خریداری پر عائد یہ پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے۔وزیر مملکت ریونیو نے کہا کہ غیر ظاہر کردہ ذرائع آمدن سے اکٹھی ہونے والی دولت کو جواز فراہم کرنے کے لئے  استعمال ہونے والے طریقوں میں سے ایک عام طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری کو کسی گفٹ کی وصولی ظاہر کیا جائے۔ اس حوالے سے ڈیٹا کے تجزئیے سے پتہ چلتا ہے کہ انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق تحائف کی مالیت 256 ارب روپے سے بھی یادہ  ہے۔  اس  Loophole کے خاتمے کے لئے تجویز ہے کہ وصول ہونے والے گفٹ کو دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن کے زمرے میں شامل کیا جائے تاہم قریبی رشتہ داروں سے وصول ہونے والے تحائف پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ Depredciation Brought forward losses کو سپر ٹیکس کے لئے آمدن کے حساب کے وقت شمار کیا جائے گا۔ سپر ٹیکس فنانس ایکٹ 2015ء کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔ یہ تمام  بنکنگ کمپنیوں اور ایسے دیگر افراد پر لاگو ہوتا ہے  جن کی آمد 50 کروڑ روپے سے زائد ہو۔ سپر ٹیکس کے لئے واجب الادا ررقم کے حساب کے بوقت Depreciation اور سابقہ کاروبار نقصانات کو شامل نہیں کیا جاتا۔ تاہم بینکنگ کمپنیویں کی صورت میں انہیں شامل کیا جاتا ہے ۔ ٹیکس کے حوالے سے ایک جیسے برتائو کو یقینی بنانے کیلئے تجویز ہے کہ بینکوں کے لئے بھی قانون کو دوسرے اداروں کے مطابق کیا جائے ۔اس قت ایسے تمام صنعتی ادارے جو توسیع ، وسعت ، بیلنسنگ ، ماڈرنائزنگ اور تبدیلی کے لئے مشینری خریدنے پر سرمایہ کاری کرتے انہیں مشینری کی قیمت خرید کے 10فیصد کے برابر ٹیکس کریڈٹ کی اجازت ہوتی ہے ٹیکس کریڈٹ کی اس شہولت کو فنانس ایکٹ2010 ء کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا اور یہ30جون2015تک دستیاب تھی۔ اگرچہ یہ سہولت پہلے ہی اپنی افادیت کھو چکی تھی پھر بھی سابقہ حکومت نے اس میں 2021 تک توسیع کر دی تھی۔ ڈیٹا  کے تجزیئے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ٹیکس کریڈٹ کا دعوی کئی ایسی کمپنیوں کی طرف سے بھی آیا ہے جو ان مراعات کے بغیر بھی مشینری پر یہ سرمایہ کاری کرتیں۔ تجویز ہے کہ ٹیکس سال 2019 کے لئے ٹیکس کریڈٹ کو مشینری کی قیمت خرید کے10فیصد سے کم کر کے5فیصد کر دیا جائے  اور اس کے بعد اسکریڈٹ کو ختم کر دیا جائے ، تاہماس کریڈٹ کیbrought forward ایڈجسٹمنٹ جاری رہے گی اور صنعتوں کو initial depreciationکی سہولت بھی میسر رہے گی۔کسی بھی non resident شخص کو رائلٹی کی رقم کی ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے ۔ تاہم کسی residentشخص کو رائلٹی کی رقم ادا کرنے کی صورت میں ایسا ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں کاٹا جاتا۔اب مقامی اداروں کی نمو و ترقی میں اضافہ ہو گیا ہے جو رائلٹی سے آمدن حاصل کر رہے ہیں۔لیکن ایسے افراد کی حقیقی آمدن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ اس کے لئے یہ تجویز ہے کہ رائلٹی کی مجموعی رقم پر15فیصد کی شرح سے resdidentافراد سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کی جائے۔فی الحال غیر منقولہ جائیدا پر کیپیٹل گین کو جائیداد رکھنے کی مدت کی بنیاد پر علیحدہ طور پر ٹیکس لگایا جاتا ہے ۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ کیپیٹل گین سے ہونے والی آمدن پر عمومی ٹیکس کی شرح کے مطابق عام ٹیکس  کے نظام کے تحت ٹیکس لگایا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی تجویز کیا جا رہا ہے کہ  کیپیٹل  گین کے لئے خالی پلاٹ کی صورت میں دس سال کے اندر فروخت اور تعمیر شدہ مکان کی صورت میں پانچ سال کے اندر فروخت کی مدت مقرر کی جائے ۔2۔ پہلے سال میں فروخت کی صورت میں عام آمدن کے مطابق ٹیکس لاگو ہو گا۔3۔ سال کے بعد فروخت کی صورت میں تین چوتھائی آمدن پر ٹیکس لیا جائے گا۔اس وقت اگر غیر منقولہ جائیداد کا ایک خریدار جائیداد کی ڈی سی مالیت اور ایف بی آر کے مابین  فرق پر 3فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے تو اس کے لئے ضروری نہیںکہ وہ رقم کے مذکورہ فرق پر سرمایہ کاری کے ذریعے کی وضاحت کرے۔ یض غیر ظاہر کردہ رقم کو وائٹ کرنے کا ایک مستقل طریقہ ہے جو بین الاقوامی ٹیکس کے اصولوں کے خلاف ہے۔اسلئے یہ تجویز پیش ہے کہ ایسی رقم 3فیصد کی شرح پر ٹیکس واپس لے لیاجائے ۔ ایف بی آر  نے بڑے شہروں میں غیر منقولہ جائیداد کے valuation table متعارف کرائے ہیں۔ بورڈ  کی طرف سے مشتہر کردہ شرح اب بھی اصل مارکیٹ  قیمت سے کافی کم ہے۔ اس لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد کے لئے ایف بی آر  کی شرح اصل مارکیٹقیمت کے قریب ہو یا تقریباً 80 فیصد لے جائے۔جیسا کہ غیر منقولہ جائیداد کی ایف یبی آر مالیت میں ہونے والے اضافہ سے حقیقی خریدار اور فروخت کنندہ پرٹیکس لگانے کی شرح میں اضافہ ہو گا ۔یہ تجویز ہے کہ غیر منقولہ جائیداد کی خریداری ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح2فیصد تک کم کر دی جائے ۔اس وقت جائیداد کی خریدار پر ود ہولڈنگ ٹیکس صرف اس صورت میںلگا جاتا ہے جب جائیداد کی مالیت چار ملین روپے سے زائد ہو۔ اس ٹیکس سے بچنے کے لئے رقم کو توڑ کر چار ملین روپے سے بھی کم کیا جاتا ہے جبکہ جائیداد کی اصل قیمت 4ملین روپے سے زائدہوتی ہے ۔ الس حد کے غلط استعمال کی روک تھام کے لئے جائیداد کی قیمت کالحاظ کئے بغیر خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس لینے کی تجویڑ دی جا رہی ہے ۔نان فائلرز کے لئے کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت  کا تصور سب سے پہلے فنانس ایکٹ 2014ء  میں متعارف کردیا گیا تھا اور نان فائلرز  کے لئے الگ زیادہ شرحوں کو مقرر کیا گیا تھا۔تاہم اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ اب نان فائلرز  اپنی آمدن کے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا انتخاب کر سکتا ہے اور اس طرح زیادہ ٹیکس جمع کرانے سے دستبردار ہو سکتا ہے ۔اگرچہ اس اقدام کا مقصدفائلرز  کی تعداد کو بڑھانا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس اقدام سے اضافی ریونیو بڑھانے پر توجہ منتقل ہوگئی ۔ اس کے علاوہ ایسے افراد جنہیں  اپنے گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت نہیں تھی یا جنہوں نے ابھی اپنا کاروبار شروع کیا تھاانہیں بھی زیادہ ٹیکس جمع کرانے سے بچنے کے لئے گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت تھی ۔اس غلط فہمی کو ختم کرنے کے لئے نان فائلرز زیادہ ٹیکس ادا کرنے اورمخصوص بے قاعدگیوں کودور کرنے کے ذریعے کسی بھی  مصیبت سے بچ سکتے ہیں۔اس طرح انہیں  ’’نان فائلر‘‘  قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے بجائے ایک نئی اسکیم جو ایسے افرادپر توجہ مرکوز کرتی ہے جن کے نام فعال ٹیکس گزارویں کی فہرت (ATL) میں شامل نہیں،متعارف کرانے کی تجویڑ دی جاتی ہے یہ اسکیم اس وقت  زیادہ ٹیکسدینے والے نان فائلر کے حوالے سے ایک اہم تبدیلی کی داعی  ہے جس میں فعال فعال ٹیکس گزاروں کی فہرست(ATL)  میں شامل نہ ہونے پرنہ صرف سزا دی جاتی ہے بلکہ ایسے افراد سے گوشوارے جمع کرانے کیلئے ایک موثر طریقہ کار بھی متعارف کرایا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں  ’’ دسویں شیڈول‘‘ کے عنوان سے ایک نیا شیڈول قانون میں متعارف کرانے کی تجویز ہے جس میں ان لینڈ ریونیو  ڈیپارٹمنٹ کا وضع کردہ طریقہ اختیار کر نے کی پیشکش کی جائے گی تاکہ ایسے افراد گوشوارے جمع کرائیں جو آمدن تو کماتے ہیں لیکن اپنی آمدن کے گوشوارے جمع نہیں کراتے ۔موجودہ نظام کے تحت transactions میں شامل  لوگوں کو اپنے اصل منافع پر ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بجائے ترسیلات زر پر جمع کردہ یا منہا کردہ ٹیکس کو ان کی ٹیکس کی حتمی ذمہ داری سمجھا جائے گا۔چونکہ منہا کردہ ٹیکس ہی حتمی ٹیکس ہوتا ہے اس لئے ایسے افراد آڈٹ کی جانچ پڑتال سے محفوظ رہتے ہیں ۔فی الوقت حتمی ٹیکسف کا نظام کمرشل در آمدکنند گان ، برآمد کند گان ، اشیاء کے کمرشل سپلائرز،ٹھیکیدار ، انعامات سے آمدن کمانے والے افراد،پٹرولیم مصنوعات کے فروخت کنندگان ، بروکریج یا کمیشن سے آمدن حاصل کرنے والے لوگ اور ای این جی  اسٹیشنز سے کمائی کرنے والے افراد کے لئے دستیاب ہے ۔ ایسے افراد کو ٹیکس کے باقاعدہ نظام میں لانے کے لئے ان transactionsسے جمع کردہ یا منہا کردہ ٹیکس کوexporters،انعامات  جیتے والوں اور پٹرولیم مصنوعات کے فروخت کنندگان کے علاوہ کم از کم ٹیکس سمجھاجائے گا۔ یہ اقدام حتمی ٹیکس نظام کو مرحلہ وار نافذ کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ انہو ں نے کہاکہ dividend سے آمدن پر ٹیکس کو الگ سے شمار کیا جاتا مکہے اور یہ عمومی ٹیکس نظام کے تحت آمدن کا حصہ نہیں ہوتا ہے ۔ منافع سے آمدن کے لئے عمومی شرح 15 فیصد ہے جسے بہت کم خیال کیا جاتا ہے کیونکہ منافع پر آمدن حاصل کرنے کیلئے اخراجات نہیں کئے جاتے ہیں ۔ فی الوقت منافع پر آمدن پر بہت کم شرح ٹیکس لگایا جاتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کمپنیاں پہلے ہی مکمل شرح سے ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ تاہم ایسی کمپنیاں جو مستثنی  ہیں یا دستیاں ٹیکسف کریڈٹ اور الائونس کی وجہ سے کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتیں ۔ ان کے لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسی کمپنیوں سے حاصل کردہ منافع سے آمدن پر عمومی ٹیکس کے برعکس 25 فیصد ٹیکس لگایا جا سکتا ہے ۔وزیر مملکت نے کہاکہ عمارات کی عمومی زندگی کا دورانیہ تیس سال سے زیادہ ہوتا  ہے۔ تاہم ہر سال 10 فیصد کی شرح سے عمارات کی فرسودگی  کی اجازت دی جاتی ہے اور پہلے سالinitial depreciationکی15فیصد کی اجازت بھی دی گئی ہے۔اس طرح عمارت کی کل لاگت کا25فیصد فرسودگی کے طور پر پہلے سال کلیم /دعوی  کیاجاتا ہے جو عمارات کی اصل اور عمومی  زندگی کے مکمل طور پر برعکس ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ عمارات پر initial depreciation کے الائونس کو ختم کر دیا جائے ۔فی الحال قرض پر منافع کی آمدن پر علیحدہ سے پانچ ملین ، پانچ سے پچیس ملین اور پچیس ملین سے زائد قرض پر منافع پر تالترتیب10فیصد،12.5 فیصد کی شرح پر ٹیکس لگایا جاتا ہے ۔ متعلقہ  منافع پر15فیصد ،17.5فیصد اور20فیصد کی شرح سے نظر ثانی کرنے کی تجویز ہے۔قرض پر منافع کی کٹوتی  کی شرح پر بھی نظر ثانی کر کے10فیصد سے15فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے ۔ مزید برآن مذکورہ بالا الگ شرحوں کا36 ملین روپے تک قرض پر منافع پر اطلاق ہو گا اور36ملین روپے سے زائد قرض پر منافع کی رقوم  کو کل آمدن کا حصہ ہوں گی اور عمومی شرح پر ٹیکس لگے گا۔ انہوں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ مینو فیکچرز اپنے ساتھیوں کو کمیشن ایجنٹس /ڈیلرز مقرر کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے اصل ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری سے اجتناب کرنے کے لئے زائد کمیشن کی شکل میں اپنے منافع کی رقم منتقل کرتے ہیں۔ اس لئے تجویز ہے کہ سپلائیز کی کل رقم کے0.2 فیصد سے زائد  ادا کردہ کمیشن کی رقم کی اجازت نہیں ہوگی جب تک یہ ڈیلر سیلز  ٹیکس ایکٹ1990 کے تحت رجسٹرڈ نہ ہو۔فنانس ایکٹ2018ء کے ذریعے 10ملین روپے کی حد عائد کی گئی تھی تاکہ foewign tenaxriona کی صورت میں10ملین کےsourcesپوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چونکہ عام مزدوروں کی remittances کا حجم بہت کم ہوتا ہے اس لئے یہ تجویز ہے کہ foreign remittancesکے ذریعے سرمایہ کاری کے ذریعہ کی وضاحت کرنے کیلئے حد10کروڑ سے5کروڑ روپے کی جا ئے۔بیکنگ اورانشورنس کے نظام میں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کو ان سیکٹرز کی حقیقی  آمدن پر ٹیکس لگانے میں مدد ملے گی۔حما دنے کہاکہ جائیداد کی خریداری یا فروخت کے لین دین کی اصل قیمت کے لئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ غیر منقولہ جائیدا کی صورت میں 5ملین روپے سے زائد اور منقولہ جائیداد کی صورت میں ایک ملین یا اس سے رائد کی جائیداد کے لئے ضروری ہو گا کہ اسے بینک چیک کے ذریعے خریدا جائے اور اس شرط کے خلاف ورزی کی صورت میں ایسے اثاثوں پر depreciation بھی دستیاب نہیں ہو گی اور capital gain کے لئے اس کی قیمت خرید کو صفر تصور کیا جائے گا۔قانونی کارروائی کے عمل کو آسان بنانے کی تجویز ہے۔ یہ بھی تجویز دی جاتی ہے کہ قانونی کارروائی کے لئے سپیشل جج کی عدالت میں مقدمہ کیا جائے اور مذکورہ شخص کی گرفتاری  بھی ممکن ہو سکے ۔انہوں نے کہاکہ ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کیلئے معیشت کے مخصوص  شعبہ جات کی جانب سے گوشوارے جمع کرانے اور قابل  ادا ٹیکس کے تعین کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو آسان اور سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے ایک نئے شعبہ کے قیام کی تجویز ہے جو ٹیکس کے دائرہ کار اور ادائیگی ریکارڈ کیپنگ کیلئے مخصوص قوا عد و ضوابط کی صراحت کرنے ‘ چھوٹے کاروبار ‘ تعمیراتی کاروبار ‘ میڈیکل پریکٹیشنرز  ‘ ہسپتال  ‘ تعلیمی ادارے اور وفاقی  حکومت کی جانب سے بتائے گئے کسی بھی شعبے کے حوالے سے گوشوارے جمع کرانے اور تشخیص کیلئے طریقہ کار وضع کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہاکہ مخصوص شرائل کی تکمیل کے بعد غیر منافع بخش  تنظیموں ‘ ٹرسٹ  اور ویلفیئر اداروں کو سو فیصد  کریڈٹ  دینے کی اجازت ہے۔ قانون کے تحت کمشنر کے ذریعے منظور شدہ غیر منافع بخش تنظیموں  (این پی اوز) کو 100 فیصد  ٹیکس کریڈٹ دینے کی اجازت ہے۔  جب (این پی اوز)  کی منظوری کی شرط موجود ہو تو ٹرسٹ اور ویلفیئر اداروں کیلئے ایسی شرط کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ ٹرسٹ اور ویلفیئر اداروں کو دچاہیے کہ وہ 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی سہولت حاصل کرنے کے لئے این پی اوز سٹیٹس کی منظوری حاصل کریں۔  انہوں نے کہاکہ Transfer Pricing کا ایک عموملی طریقہ ہے جس میں Sister  کمپنیوں کے ذریعے سے منافع کم ظاہر کیا جاتا ہے ایسی صورتحال میں لین دین میں اصل مارکیٹ کی قیمت کو یقینی بنانے کے لئے ڈیٹا  کا جامع  موازنہ کرنے کی ضرورت ہے چونکہ اس قسم کا ڈیٹا آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا اس لئے تجویز ہے کہ کمشنر کو ایک خود مختار چارٹر اکائونٹٹ فرہم سے ایسا ڈیٹا حاصل کرنے کے لئے اختیار دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ  موجودہ قانون کے تحت افراد کی ایسوسی ایشن کے ایک رکن کی جانب سے قابل ادا ٹیکس اور ٹیکس ایسوسی ایشن سے وصول کیا جا سکتا ہے اس کے برعکس  افراد کی ایسوسی ایشن کی طرف سے قابل ادا ٹیکس  کے اس رکن سے وصول نہیں کیا جا سکتا ۔  ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنانے کے لئے یہ تجویز ہے کہ جہاں افراد کی ایسوسی ایشن کی جانب سے قابل ادا ٹیکس کسی بھی فرد سے وصول کیا جا سکتا ہے جو ایسوسی ایشن کا رکن ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ آڈٹ کی تکمیل اور آڈٹ رپورٹ کے اجراء کے عمل  کو آڈٹ کی بنیادی آمدن کے تشخیص سے علیحدہ  کیا جا سکتا ہے۔ قانون کے تحت آڈٹ اور تشخیص کی شرائط  کو الگ کرنے کے ذریعے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ آڈٹ اور تشخیص کے فرائض کا  الگ اور خود مختار  افسران کے ذریعے انجام دئیے جائیں گے تاکہ ٹیکس گزاروں سے غیر جانبدار رویہ کو یقینی بنایا جائے۔ فی الوقت صرف ٹیکس گزاروں کو چاہیے کہ وہ ٹیکس کے مقاصد  کے تحت بورڈ سے رجسٹرڈ ہوں۔ کاروبار سے آمدن حاصل کرنے والے جو ٹیکس کے زمرے میں نہیں آتے انہیں رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایک قابل اعتماد ڈیٹا بیس تشکیل دینے کیلئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...