اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ریلوے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس میں سیکرٹری ریلوے کو آج جمعہ کو طلب کر لیا، چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے کا حال پھٹیچر ہے، سمجھ نہیں آرہی ریلوے کا کیا بنے گا، ریلوے افسران بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بیٹھے ہیں، ایک وقت تھا کہ اس کام کے لیے بڑے تجربہ کار لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔ ریلوے ملازمین کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ20،20 سال سے یہ ملازمین ریلوے میں کام کر رہے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا یہ سارے کنٹریکٹ ملازمین تھے؟۔ جواب میں وکیل نے کہا کہ نہیں یہ ملازمین ڈیلی ویجز تھے اور ریگولر پوسٹ کا کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ان لوگوں کی تقرری کے لیے اشتہار دیا گیا تھا؟۔ وکیل نے جواب میں کہا کہ نہیں ان ملازمین کی تقرری کے لیے اشتہار نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کا حشر اسی لیے خراب ہے، ہرچیز کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے۔ ریلوے کے اندر کوئی طریقہ کار نہیں اس لیے ریلوے کا یہ حال ہے۔ ہمیں کوئی ایک کاغذ دکھا دیں جس سے پتا چلے یہ ریلوے کے ملازمین ہیں۔ اس پر ملازمین کے وکیل نے کہا کہ ملازمین کے سارے ڈاکیومنٹ ریلوے کے پاس جمع ہوتے ہیں، ریلوے ان لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان ملازمین کو کس پراجیکٹ کے لیے تقرری کی گئی تھی، کچھ پتا نہیں چل رہا یہ کون تقرریاں کر رہا ہے۔ اسی لیے ریلوے کا یہ حال ہوگیا۔ نمائندہ وکیل ریلوے کا کہنا ہے کہ مختلف ڈیپارٹمنٹس کی تجویز پر ان ملازمین کی تقرری کی جاتی ہے، یہ ملازمین ریلوے ٹریک پر گیٹ کیپرز ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، اتنی اہم جگہ پر ریلوے اراضی لوگوں کو الاٹ کر رہا ہے؟۔ آئے روز ریلوے میں حادثات ہو رہے ہیں۔ ریلوے کیسے ان لوگوں کی عارضی تقرریاں کر رہا ہے؟۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ریلوے افسر بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بیٹھے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اس کام کے لیے بڑے تجربہ کار لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔ ریلوے کا حال بالکل ہی پھٹیچر ہے۔ پھر ٹرین کی بوگی پٹری سے اترگئی، شکر ہے کسی کی جان نہیں گئی لیکن کروڑوں کا نقصان تو ہوگیا۔ سمجھ نہیں آرہی ریلوے کا کیا بنے گا۔ وکیل صاحب کو کچھ پتا ہے نہ ہی ریلوے حکام کو، عدالت نے سیکرٹری ریلوے کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت (آج) جمعہ تک ملتوی کردی۔
ریلوے کا حال پھٹیچر، افسر بڑی تنخواہیں لیکر بیٹھے ہیں، سمجھ نہیں آ رہا کیا بنے گا: چیف جسٹس
Jun 12, 2020