"چمچ برتن خالی کردیتاہے"

Jun 12, 2020

ایک لفظ یا کبھی کوئی سطر لکھنے کی قوت محرکہ بن جاتی ہے۔ مقصد حقائق بیان کرنا ہے۔ سچ حق کے ساتھ میثاق ہے۔ ہدایت صرف "مالک حقیقی" کی عطا ہے جو بن مانگے نہیں ملتی۔ الفاظ صرف اچھے اثرات پیدا کر سکتے ہیں ۔ وہ دل جو نیکی کے ساتھ جُڑا ہو ۔ وہ مزید محتاط ہو جاتا ہے اورجو اصلاح کا خواستگار۔ متمنی ہو وہ اِن میں وہ اپنا خوشہ ڈھونڈ لیتا ہے۔پیغام ہی ایسا تھا کہ پڑھ کر بہت اچھا لگا بلکہ عنوان بن گیا۔"چمچہ" جس برتن میں ہو اُسے خالی کر دیتا ہے ۔ چمچوں سے بچو؛
آج پٹرول کو سستا ہوئے 12" دن" ہوگئے ۔ قلت کے بھی اتنے ہی دن ہیں ۔12دن پورے ملک میں بلیک میں ملتا رہا۔ جو چیز سٹاک میں تھی وہ مقدار تقریباً پوری کرلی گئی ہے تبھی نوید تھی گزشتہ دن قلت ختم ہونے کی۔معلوم یہ کرنا ہے قلت کا جب علم نہیں تھا تو پھر ختم ہونے کا اتنا حتمی وقت کیسے جان گئے ؟ جب قیمت بڑھتی تھی تو تب موجود وافر ذخیرہ کی فوراً بڑھا دی جاتی تھی۔ یہ بھی وطیرہ تھا کہ فروخت روک دیتے۔ اس لئے یہ نیا "کارٹل "نہیں ۔ پرانے" گُرگے" ہیں جو خود کو طمع سے آزاد نہیں کر سکتے جب تک ریاستی کوڑا بلا تفریق نہیں لہرائے گا۔
ہر تکلیف کے عروج پر جانے کے بعد چند الفاظ بار بار دہرائے جانے والے۔" ذمہ داران کے تعین کی ہدایت" ۔ پڑھ کر بہت دکھ ہوتا تھا پر اب زیادہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ وعدہ۔ منشور انھی برائیوں کا تدارک تھا۔ ووٹ بھی انھی مقاصد کے تحت ملے تھے ۔ عوام خواری کاٹ رہے ہیں۔ ایک میٹنگ کا منظر ۔ ذمہ دار شخص کے چہرے کا انداز ۔ کبھی کوئی فقرہ۔ کبھی تقریر یا پھر کلیدی اہلکار۔ ذمہ دار اشخاص کے چہرے کے تاثرات ۔آنکھوں کا اُتار چڑھاؤ ہی تو کالمز۔برقی پروگرامز کا باعث بنتے ہیں ۔ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ جس بندے ۔ بندی کا کبھی گلی محلے میں جانا نہ ہو۔ ووٹ نہ لینے ہوں ۔ اُس کو کیا پرواہ ۔ عوامی سیاستدان ہی عوامی تکالیف کو جان سکتا ہے اور دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے اگر واقعی وہ بندہ بشر ہو۔ عوام سے جُڑا ہو۔
کھانے پینے کی چیزوں بشمول چینی ۔ آٹا کے بحران پہلے بھی تھے اب بھی ہیں مگر فرق یہ ہے کہ "مافیا کارٹلز" کا اکٹھ زیادہ مضبوط ہوچکا ہے۔ آٹا بحران بھی چل رہا ہے ۔ ہاتھوں میں پیسے ہوں اور مطلوبہ چیز نہ ملے تب دُکھ ۔ پریشانی شدید غصہ میں بدل جاتی ہے ۔ تبدیل ہوتے احساسات ۔ جذبات کی تپش انقلابات کا نکتہ آغاز بنتی ہے۔" مافیا کارٹلز" کی تو خواہش ہے کہ حالات خراب ہوں ۔ وہ اپنی حفاظت چاہتے ہیں ۔ پیشیاں اور مقدمات اِن لوگوں نے کب بُھگتے تھے جو اب ٹھنڈے پیٹ برداشت کر لیں گے ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ گرفت ۔ احتساب کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو صرف یہ کافی نہیں کہ" میں ایماندار ہوں"۔ اگر میں نے کرپشن نہیں کی ۔ بدی سے محفوظ رہے تو بڑے کمال کا اعزاز ہے مگر یہ اعزاز اُسوقت ردی کا کاغذ بن جاتا ہے جب میرے اردگرد میری نیکی ۔ پاکیزہ اطوار کی برکات نہ پھیلیں ۔ نیک وہ ہے جو اپنی صفت کو آگے بڑھائے اُس کے ثمرات قرب و جوار میں محسوس کیے جائیں ۔ دُعا ہے کہ اب سخت ایکشن تقریروں سے باہر نکل آئے۔ کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت عوام کو ریلیف دینے آئی ہے اور ریلیف ملا بھی ہے مگر "مافیاز" کی سخت گرفت بہت ضروری ہے۔ الفاظ کا نہیں عمل کا ایکشن ۔ ارادے کے اظہار کا نہیں" نیت" کے خلوص کا مظاہرہ ۔ عمل مطلوب ہے۔"80-75"سالوں کے منشور ۔ وعدے ۔ تقریریں نہ بُرے تھے نہ ہی بور ۔ بس صرف پورے نہیں ہوئے ۔ تب بھی یہی حالات ہوتے تھے اب بھی وہی صورتحال در پیش ہے۔ کِسی بھی نازک صورتحال یا بحران کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کا موقف ۔ تاثرات وہی ہوتے تھے جو لمحہ موجود کے ہیں ۔ ہاں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ" اشرافیہ" گرفت میں لائی جارہی ہے۔ پر انداز اب بدلنا چاہیے ۔ پکڑ ایسی نہ ہو کہ محض تصویری جھلکیاں اور نہ ایسی کہ" مافیا "گرفت سے پہلے ہی باہر بھاگ جائے۔
پاکستان کیا‘ ساری دنیا بیک وقت اقتصادی ۔ جنگی حالات کا سامنا کر رہی ہے اِس تصویر میں کہ کرونا بیماری انتہا کو چھو رہی ہے۔ اکثریتی ممالک میں معمول کی سرگرمیاں بحال ہوچکی ہیں یہ ممکن نہیں کہ آپ تب تک اپنے دروازے بند کر لیں جب تک "وبا" ختم نہیں ہوجاتی۔ اب "ویکسین" کی دریافت پھر آزمائش میں کتنا عرصہ لگے۔ یقینی طور پر کوئی بھی دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ "وزیر اعظم عمران خان صاحب" کی لاک ڈاؤن ضمن میں موجودہ پالیسی بالکل درست ہے۔ آپ دباؤ میں آکر لاک ڈاؤن کر دیتے ہیں تو کل کی صورتحال زیادہ خوفناک ہوگی جب لوگ دوبارہ سے باہر نکلیں گے ۔ وہ لوگ ۔ طبی عملہ جو لمحہ موجود کے گراف سے خوفزدہ ہیں ۔ وہ کل کی بڑھی ہوئی بیماری سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ہاں واحد حل یہی ہے کہ ہمیشہ کے لیے پورے ملک کو بند کردیں۔ کیونکہ ہم عادی ہیں ۔ نمٹنے کی بجائے ٹرخانے کے ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر کون روٹی ۔ دال کا بندوبست کرے گا؟؟ این جی اوز۔ حکومت۔ دونوں نے اُنھی عوام سے مانگنا ہے جو اگر شور شرابہ کے بعد دوبارہ باندھ دیئے جاتے ہیں۔ گھروں میں بند لوگ کہاں سے عطیات دیں گے؟؟ جو لوگ"لاک ڈاؤن" کے حامی ہیں ۔ ایک دن کے لیے اُن کی" روٹی ۔پانی "بند کر دیں۔ تنخواہ روک لیں تب معلوم ہوگا کہ خالی پیٹ کتنا فساد پیدا کرتا ہے۔اسی لئے کہا گیا کہ" چمچہ" جس برتن میں ہو اُسے خالی کر دیتا ہے۔ چمچوں سے بچو۔ اس کہاوت پر موجودہ حالات میں عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزیدخبریں