’’پاکستانی ویڈینگ سیزن‘‘ یعنی سردیوں میں میری دوست لندن سے پاکستان اپنی کزن کی شادی خانہ آبادی کی تقریب میںشرکت کے لیے آئی۔ خوب ڈھول ڈھمکے اور گلیمرس سے بھرپور تصاویر میرے ساتھ شیئر کیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں نے اپنی دوست کی کزن کا احوال دریافت کیا تو سُن کر عقل ششدر ہوگئی۔ بقول اس کے ’’وہ شادی اب قائم نہیں رہی‘‘۔ میں نے سراسیمگی کے عالم میں پوچھا کہ ایسا کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میری کزن کے چہرے پر چھائیوں کے واضح نشانات تھے۔ جب بھی لڑکے والے لڑکی کے ہاں آتے تو میری کزن نامی گرامی بیوٹی سیلون سے ’’ہائی کنسیلنگ میک اوور‘‘ کے ذریعے اپنے خدوخال یکسر تبدیل کروالیتی، بالوں میں لمبی ویگ سیٹ کروا کر مشرقی لڑکیوں کی مانند دوپٹہ اوڑھ لیتی تاکہ ویگ کی کارستانی عیاں نہ ہو۔ ایسا بناوٹی انداز اپناتے اپناتے بالآخر شہنائی کی ساعتیں قریب ہوگئیں اور کسی کو زعم تک نہ ہوا کہ یہ سب کچھ مصنوعی ہے۔ اگلے ہی روز دولہے نے ایسا واویلا مچایا کہ گھر آسمان پر اُٹھا لیا: ’’یہ وہ لڑکی ہی نہیں ہے جس کو میں نے پسند کیا تھا۔ وہ لڑکی کدھر گئی…!!! کاش مُنہ دھلائی کی رسم بھی ہوتی، کاش میں بچ جاتا‘‘۔
قارئین! خوبصورت نظر آنے کی خواہش تو ہر شخص کرتا ہے۔ یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ خواتین اس ضمن میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتی ہیں اور خاصی حساس ہوتی ہیں۔ ایسے اشتہارات کا بغور جائزہ لیتی ہیں جن میں درج ہوتا ہے: ’’سانولی رنگت نو ٹینشن، 3دن میں چہرہ پری جیسا‘‘، ’’چپٹا ناک تیکھا کروائیں‘‘، ’’ہونٹ گلاب کی پنکھڑی جیسے‘‘، ’’موٹاپے کی اب کیا فکر؟15دنوں میں ہو جائیں سمارٹ‘‘، ’’ریبانڈنگ کروائیے، زلفیں ناگن جیسی کیجئے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے اشتہارات ہوتے ہیں کہ ہر کوئی اسکے چنگل میں بآسانی پھنس جاتا ہے۔ تبھی تو شہروں میں بیوٹی پارلرز کی بھرمار ہوتی جارہی ہے۔ حالانکہ چہرہ سب سے نازک ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ سمجھوتہ!!!۔ میرے نزدیک سپاء اینڈ سیلون ٹرینڈ کو فروغ ملنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں: سادہ لوح اور اپ ٹوڈیٹ فیشن سے وابستہ نہ ہونے والی خواتین کو خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ خوبصورت نظر نہ آئیں گی تو ان کے شوہر نامدار دوسری خواتین کے حسن کے قائل ہو سکتے ہیں۔ بس یہی سوچ اِن کو کھا جاتی ہے اور وہ برق رفتاری سے بیوٹی پارلرز کا رُخ کرتی ہیں۔ کوئی میڈیا انڈسٹری میں ماڈل بننے کے خواب میں پارلز کی مریدی اختیار کرتا ہے تو کوئی اپنے دل کو زندئہ جاوید رکھنے کے لیے اپنے بناؤ سنگھار کو ترجیح دیتا ہے تاکہ دنیا ابھی تک اسکو گورجیئس، سوکیوٹ کے القابات سے نوازے۔ خوفناک انکشاف یہ ہوا ہے کہ خواتین کی اکثریت غیر معیاری بیوٹی پارلرز کا شکار ہو کر اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور ہیں اور شدید ذہنی الجھاؤ کی وجہ سے نفسیاتی مریضہ بن گئی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جلدی امراض میں مبتلا 10میں سے 8خواتین ہسپتالوں کا رُخ کرتی ہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ کم عمر بچیاں اس جنون میں مبتلا ہیں کہ وہ جدید الیکٹرانک آلات سے (مائیکروکرنٹ) فیشل کروائیں جسے اگر میک اپ سرجری کہا جائے تو غلط نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے بعد یہ ٹیکنالوجی ترقی پذیر ممالک میں بھی دستیاب ہونے لگی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پلاسٹک سرجری ماہرین کہتے ہیں کہ مائیکروکرنٹ فیشل اور پلاسٹک سرجری میں فرق ہے، پلاسٹک سرجری تربیت یافتہ ماہرین کرتے ہیں جبکہ مائیکروکرنٹ فیشل کی سہولت عام بیوٹی پارلرز بھی فراہم کرتے ہیں۔ امریکی سائنس جنرل نوول فزیوتھراپسٹ میں شائع رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ الیکٹرانک میک اپ یا مائیکروکرنٹ فیشل صرف ان افراد کے لیے ہی بہتر ہے جو 70سال یا اس عمر سے زائد ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے سکن سینٹرز بھی موجود ہیں جو صرف اور صرف دھن دولت کمانے کی لالچ میں لوگوں کو صحیح مشورہ نہیں دیتے۔ کم عمر لڑکیوں کو ’’Glass Skin‘‘ کا شوق دِلوا کر اپائنمنٹ کے ذریعے سے ان کو پابند کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی عمر سے زیادہ بڑی دکھائی دینے لگتی ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری سوسائٹی میں پہلے انتشار کیا کم تھا کہ جدید موبائل ایپ نے دھوکہ بازی کی راہیں ہموار کر دی ہیں۔ سیلفی کیمرہ، یوکیم میک اَپ، بیوٹی پلس اور دیگر ایپس میں آپشن موجود ہوتا ہے کہ موصوف اپنی آنکھوں کو چھوٹا بڑا کر سکتے ہیں، برائٹننگ، سلم ٹرم باڈی، ناک کو چھیڑ چھاڑ کر کے اپنی پسند کے مطابق لاسکتے ہیں۔ نیز ایسی ڈیجیٹل تصاویر جب کوئی دیکھتا ہے تو وہ حقیقی شخص کو ماننے سے ہی انکار کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خوبصورتی کا اصل معیار گوری رنگت کو گردانا جاتا ہے۔ کس میں کتنا ٹیلنٹ ہے، کوئی کتنی نیک سیرت ہے، اخلاق کس پایہ کا ہے، اس میں خوبیاں کیا ہیں، گھرہستی سے کتنی شناسائیت ہے، تعلیم میں کیا نمایاں کامیابیاں ہیں؟ یہ صرف کتابی باتیں رہ گئی ہیں۔ ان کو اصل زندگی میں کوئی مقام حاصل نہیں رہا۔ بس مضحکہ خیز بات کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ ’’لڑکی سولہ سال کی ہو اور ایم۔اے بھی کیا ہو‘‘؟۔ ایسے میں پھر پارلرز کے جتن نہ کیے جائیں تو کیا کیا جائے!!!