سبھی جانتے ہیں کہ امریکی فوجی افغانستان سے نکلتی جا رہی ہے اور ٹرمپ کے مطابق یہ عمل نومبر میں ہونے والے صدارتی چنائو سے پہلے مکمل ہوجانے کے امکانات خاصے واضح ہیں۔ اسی پس منظر میں9جون کوپاک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کا دورہ کیا ۔ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیٹو عبداللہ عبداللہ نے ان سے ملاقات کی اور افغان عمل کے حوالے سے پاکستان کے موثر کردار کی خصوصی تعریف کی ۔ یاد رہے کہ امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد پچھلے تین ماہ میں تین بار اسلام آباد آئے تھے اور 7جون کو انہوں نے آرمی چیف سے پھر ایک تفصیلی ملاقات کی ۔ غالبا! اسی تناظر میںگزشتہ روز آرمی چیف نے کابل کا دورہ کیا۔ سفارتی ماہرین کے مطابق اگرچہ دنیا بھر کو کورونا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان میں امن عمل جاری ہے اور اس ضمن میں میں تقریبا روزانہ کے حوالے سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ انٹرا افغان ڈائیلاگ سے متعلق تمام فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ افغانستان میں امن خطے کی سیکیورٹی اور ترقی کیلئے انتہائی اہم ہے۔ مبصرین کے مطابق افغانستان میںپیش رفت کا عمل خوش آئند ہے اور پاکستان کے آرمی چیف کی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کو حوصلہ افزا امر قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ ایسے اعلی سطحی دورے تبھی ہوتے ہیں جب فریقین کے مابین پس منظر میں رہتے ہوئے خاصا ہوم ورک ہو چکا ہو۔ علاوہ ازیں سابق سفارتکار اور افغان امور کے ماہر ’’ محمد صادق‘‘ کی بطور نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تعیناتی کو بھی خوش آئند قرار دیا جانا چاہیے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان نے بیتے 42سال میں افغانستان کیلئے جو قربانیاں دی ہیں اور اس سلسلے میں ابھی تک جو کچھ کھویا اور پایا ہے اس کا اندازہ ہر ذی شعور کو بخوبی ہے البتہ اسے ستم ظریفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے بعض حلقوں کی جانب سے گاہے بگاہے وطن عزیز کے خلاف مختلف نوع کی دشنام ترازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔یاد رہے کہ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے۔ یہ (Land locked ( یعنی چاروں اطراف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے اور افغانستان میں ریلوے ٹریک بالکل نہیں ہے۔ افغانستان کی سرحد مشرق اور جنوب میں پاکستان سے، مغرب میں ایران، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان ، تاجکستان اور شمال مشرق میں چین سے ملتی ہے ۔652,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا، یہ ایک پہاڑی ملک ہے جس کے شمال اور جنوب مغرب میں میدانی علاقہ ہے۔ کابل افغانستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کے علاوہ قندھار ،مزار شریف،جلال آباد وغیرہ بڑے شہر ہیں۔ افغانستان کی آبادی تقریبا 3کروڑ 25لاکھ ہے، جس میں زیادہ تر پشتون، تاجک، ہزارہ اور ازبک نسل شامل ہے۔ یہ زمین تاریخی طور پر متعدد قوموں کا گھر رہی ہے اور اس نے متعدد فوجی مہمات دیکھی ہیں، جن میں سکندر اعظم، عرب ، منگول، برطانیہ اور سوویت یونین شامل ہے۔اس سرزمین نے اس وسیلہ کے طور پر بھی کام کیا جہاں سے کوشان، ہیفٹالائٹ، سامانیڈ، سفاریڈ، غزنویوں، خلجیوں، مغلوںاور دیگر نے بڑی سلطنتیں تشکیل دیں۔افغانستان کی جدید ریاست کی سیاسی تاریخ کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوتک اور درانی خاندانوں سے ہوا تھا۔ بعض مورخین احمد شاہ ابدالی کو جدید افغان ریاست کا بانی قرار دیتے ہیں اگرچہ کئی مبصرین اس بات سے پوری طرح متفق نہیں۔انیسویں صدی کے آخر میں، افغانستان برطانوی ہندوستان اور روسی سلطنت کے مابین ''گریٹ گیم'' میں بفر اسٹیٹ کی حیثیت اختیار کر گیا۔پہلی اینگلو-افغان جنگ میں، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مختصر عرصے کیلئے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیا، لیکن 1919 میں تیسری اینگلو-افغان جنگ کے بعدافغانستا ن غیرملکی اثر و رسوخ سے آزاد ہوا ، بالآخر 50 سال بعد افغانستان ،امان اللہ خان کے دور میں بادشاہت کی شکل اختیار کر گیا۔ 1973تک ظاہر شاہ بادشاہ کے طور پر حکومت کرتے رہے اس کے بعد سردار داود نے ظاہر کو ہٹا کر خود حکومت سنبھال لی۔ سن 1978 میں سردار دادو کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور اپریل1978میں نور محمد تراکی برسر اقتدار آگئے۔اس کے کچھ عرصے بعد سابقہ سوویت یونین کی مدد سے ستمبر 1979میں نور محمد تراکی کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور حفیظ اللہ امین حکومت سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے۔اس کے کچھ عرصے بعد ببر ک کارمل (دسمبر 1979تا نومبر 1986 )اور محمد نجیب اللہ(ستمبر 1987تا اپریل 1992) یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آگئے۔1989میں جنیوا معاہدے کے نتیجے میں سوویت فوجیں افغانستان سے واپس چلی گئیں۔یاد رہے کہ 1978سے1989تک پاکستان اور امریکہ کے مابین انتہائی قریبی تعلقات تھے اور افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا میں میں دونوں ملکوں نے مظبوط اتحادیوں کا کردار ادا کیا ،خصوصا پاکستان نے تو اس حوالے سے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا مگر اس کے فورا بعد امریکہ نے گویا پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان بڑی حد تک انتشار کا شکار ہوگیا۔اگرچہ اس دوران پاکستان کی جانب سے بھرپور کوشش کی گئی کہ افغانستان آنے والے چیلنجز سے نمٹ سکے، اسی تناظر میں صبغت اللہ مجددی ،عبدالرسول سیاف ،برہان الدین ربانی اور حکمت یار یکے بعد دیگرے افغانستان کے حکمران بنے مگر افغانستان طوائف املوکی کا شکار ہوتا چلا گیا ۔چھوٹے بڑے سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں حکومتیں قائم کر لیں۔اس کے بعد 1996 میں افغانستان کے بیشتر حصوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا، اور ملا محمد عمر کو اپنا سربراہ تسلیم کر
لیا جنہوں نے پانچ سال یعنی ستمبر 1996تانومبر 2001 تک افغانستان پر حکومت کی۔ اس دوران افغانستان میں حکومتی رہٹ پوری طرح بحال ہوگئی تھی مگر نائن الیون کے سانحے نے گویا پورا منظر نامہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا اور اس کے بعد، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت نے طالبان کو زبردستی اقتدار سے ہٹا دیا، اور جمہوری طور پر منتخب ایک نئی حکومت تشکیل دی گئی،اس کے بعد دس سال (دسمبر 2001تا ستمبر 2014 سے تک حامد کرزئی نے حکومت کی اور اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ چھ سال سے حکومت میں ہیں لیکن افغانستان ابھی تک حقیقی آزادی کا منتظر ہے کیوں کہ عملی طورپر وہاں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ہی حکومت کر رہے
ہیں۔دپاکستان کی حکومت اور عوام کی ہر ممکن کوشش اورخواہش ہے کہ کابل انتظامیہ دہلی سرکار اور RAW کے مہرے کے طور پر کام کرنے کی بجائے ایک باوقار اور خود مختار ملک کی روش اپنائیں کیوں کہ پچھلے 40بر س سے پاکستان نے افغانستان کی عوام اور سبھی حکومتوں کے ساتھ انتہائی مخلص کردار نبھایا ہے اور اس بابت ہر قسم کی قربانی دی ہے۔اس کے باوجود ابھی تک خاطر خواہ ڈھنگ سے جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ سامنے نہیں آیا ۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ یہ دو بردار ملک باہمی تعاون کی فضا کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوں گے۔انشاء اللہ