’’سوویت یونین کے بعد اب بھارت کی باری‘‘

گزشتہ سے پیوستہ
سات سمندر پار سے آکر امریکہ اور اس کے طاقتور اتحادی 20برسوں کے دوران افغانستان میں کچھ نہ کرسکے ۔ جو افغان طالبان کی پشت پر کوئی بڑی تو کیا چھوٹی قوت بھی نہ تھی ۔ اب بھارت جیسے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ملک کا چین سے واسطہ پڑا اور اس کے ساتھ پاکستان ہوا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا وجود بھی باقی رہے گا یا نہیں ۔ امریکہ ، فرانس، انگلینڈ اور دوسرے ملکوں کی فوجیں جب تک بانپتی کانپتی یہاں پہنچیںگی اس وقت تک چڑیاں پورا کھیت چگ چکی ہوں گی ۔ امریکی صدر نے چین اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ میں یہ کہہ کر چین کو ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو افغانستان سے طوفان کی طرح ایسی کاروائیاں کریں گے جو اِ س سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوں گی ۔یادرہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 3500کلو میٹر کی سرحد ہے ۔ ایک بڑا علاقہ ہمالیہ کے بلند وبالا پہاڑوں پر مشتمل ہے اس وقت کئی علاقے متنازع ہیں ۔ جن کو چین اور بھارت دونوں اپنا حصّہ قرار دیتے ہیں اگر جنگ چھڑ گئی تو بھارت کو اس کے علاوہ اپنے دوسرے علاقوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ چین نے حال ہی میں اپنے فوجی بجٹ میں 1کھرب 78ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے ۔ چنانچہ وہاں کے ذرائع ابلاغ مودی سرکار پر برس پڑے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چینی فوج نے کارگل کی یا د تازہ کردی ہے اور بھارتی فوج اس کی پیش قدمی کو روکنے میں قطعی طور پر ناکام نظر آتی ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ وچین کی جنگ میں افغانستان سے کیا طوفانی کاروائی کریں گے اور مودی حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی بہت جلد سامنے آجائے گا ۔ فی الوقت بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کیلئے صحافتی برادری اور اپنے دانشوروں کا یہ مشورہ ماننے میں عافیت ہے کہ وہ جنگی جنون سے نکل کر سفارتی ذرائع سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں ورنہ بھارت کا حشر اپنی سابقہ سرپرست اور دوسری عالمی قوت سوویت یونین سے بھی بہت بر اہو گا۔

ای پیپر دی نیشن