یہ ہمارے دوست کرنل (ر)ایوب کی تصنیف ہے۔ لکھتے ہیں کہ جس طرح ایم ۔کیو۔ایم نے ہزاروں بھارتی مسلمانوں کو خفیہ آپریشن کے ذریعے کراچی لاکرآبادکیا ویسے ہی اے این پی نے ایم کیو ایم کے مقابلے پر اپنی تعداد میں اضافے کے لئے ہزاروں افغانوں اور قبائلیوں کوکراچی میں آبادکیا۔ مشہورتھاکہ بچہ جلال آباد اوربمئبی میںپیدا ہوتاہے اس کا فارم "ب" کراچی میں تیار ہوجاتا ہے۔
ضیاء الحق نے افغانوں کو پاکستان میں شہریت، شناختی کارڈاور جائیدادیں خریدنے کاحق بھی دیا۔ جلال آباد (افغانستان) کے مہمند، ہزار اوردستوخیل قبیلوں نے اس رعائت سے بھرپورفائدہ اٹھایا اور پشاور کے سیاسی خاندانوں کا نہ صرف ووٹ بینک بڑھا بلکہ انکے ذاتی بینک اکائونٹوں میں بوریاں بھر بھر کرڈالربھی ڈال دیئے۔پختونخوا میں اے این پی کی حکومت آئی تو حیات آباد کی بلال مسجد میں اٖفغانوںنے جرگہ منعقد کیا ور فیصلہ ہواکہ اب کوئی افغان واپس نہیں جائیگا۔واپسی نمائشی ہوگی اور جو جائینگے وہ چند روز بعد واپس آجائینگے ۔ایک بھائی وہاں رہیگا اور دوسرا پشاور آکر اپنا گھر بنائے گا۔یہ وہی پیٹرن تھا جو پچاس کی دہائی میں یوپی کے مسلمانوں نے اختیار کیا اور کراچی آکر مہاجرین کاووٹ بینک بڑھا۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ سرظفر اللہ قادیانی مذہب کے پیرو کارتھے۔قراۃ العین حیدر اور انکی تصنیف "کارجہاں داراز ہے "سے لکھتے ہیںکہ انکے سرظفراللہ سے خاندانی مراسم تھے۔انکے مذہبی عقائد پر مفصل باب بھی لکھا ہے۔ ظفراللہ خان نے قادیانی نوجوانوں پر مشتمل "الفرقان بریگیڈ"ترتیب دیا اور پاکستان آرمی کی ایک ریگولر یونٹ اس بریگیڈ میں شامل کرکے اسے سیالکوٹ جموں روڈ پر تعینات کردیا۔الفرقان بریگیڈ کی تعیناتی بھی ایک گھنائونی سازش تھی تاکہ جنرل زمان کیانی اور بریگیڈ ئیر راجہ حبیب الرحمن کا چناب منصوبہ آگے نہ بڑھ سکے۔چونکہ چناب کوریڈورپر قبضے کی صورت میں جموں کا رابطہ پونچھ اورکشمیر میں داخل نہ ہوسکتا۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جناب مجیدنظامی مرحوم کے مطابق الیکشن کے بعد مادرملت نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اوروہ بہت کم لوگوں سے ملتی تھیں۔کہتے ہیں کہ ایک بار میں سلام کیلئے حاضر ہواتو تووہ ٹیرس سے سامنے آئیں۔مجھے دیکھ کرگیٹ کی چابیاں نیچے پھینک دیں۔
میں نے دروازہ کھولا اور ملاقات کیلئے حاضر ہواکیونکہ وہ ایوب خان کے بیٹوں سے خوف زدہ اورخودکو غیر محفوظ سمجھتی تھیں۔ایبڈوکے نفاذ کے بعد سابق وزیر اعظم جناب حسین شہید سہروردی نے بھی اسی طرح خوف کی حالت میں مادرملت سے ملاقات کی ۔
بنگالی اخباری رپورٹر ابن الحسن کی ایک پرانی تحریر نظروں سے گزری جس میں جناب حسین شہید سہروردی کے خاندان، پاکستان اور مسلمانوں سے محبت اور زندگی کے دیگر پہلوئوں پر ایک مفصل مضمون لکھاگیا تھا۔ابن الحسن نے لکھاکہ جناب سہروردی کوایک بارزندگی میں روتے دیکھاگیاجب محترمہ فاطمہ جناح سے ملکر آئے تو کمرے میں بیٹھ کربچوں کی طرح رونے لگے۔ابوالحسن کہتے ہیں کہ بیروت میں جلاوطنی اور کسمپرسی کی حالت میں اکثر بیمار رہتے تھے۔
میں نے حاضری دی اور کچھ پاکستانی تاجروں کا پیغام دیا کہ آپ لندن یاکسی دوسرے ملک جانے کا ارادہ کریں تووہاں آپکے علاج اور رہائش کا بندوبست ہوسکتا ہے۔
آپ نے دوستوں کا شکریہ اداکیا اور کہا انہیں کہنا کہ ملک کو سرمایہ کاری کے ذریعے مضبوط بنائیں۔دوران گفتگو رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میں وزارت عظمی کے چھن جانے پر نہیں بلکہ کشمیر اورمشرقی پاکستان کیلئے رویا تھا۔
میرے ذہن میں آزادی کشمیر کا جو منصوبہ تھا اس کی بھنک ایوب خان جنرل آدم اور انکے ہمنوا سیاسی ٹولے کے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔اسی طرح مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرتوں کو مٹانے کیلئے کوشاں تھا کہ مجھے اقتدار سے ہٹا کرنفرتوں کی خلیج کو وسیع کردیاگیا۔
محترمہ فاطمہ جناح کو مایوس دیکھ کرنہ روتا تو اور کیا کرتا۔انہیں ایوب خان اور انکے بیٹوں سے جان کاخطرہ تھا۔وہ عملاً قید تنہائی میں تھیں اور لوگوں سے ملنا بندکر دیاتھا۔محترمہ فاطمہ جناح کی موت کی خبر سنکر سب سے پہلے گوہر ایوب انہیں دیکھنے گیا جس کی وجہ سے کئی سوالات سامنے آئے ۔اس سلسلے میں کراچی میں ایک ایف آئی آربھی درج ہوئی جسے بعد میں لاہور منتقل کرکے سیل کردیا گیا۔
کرنل (ر) ایوب نے اپنی کتاب میں بہت سے حوالہ جات قاری کی دلچسپی کیلئے دیئے ہیں۔عابدہ حسین کی کتاب "اوربجلی کٹ گئی"کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ ذوالفقار علی بھٹو بہت متکبر انسان تھے وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور اپنے قریب ترین دوستوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ یہاں اگرچہ ایوب صاحب نے بھٹو کے ضیاء الحق کو "جنرل منکی"کہہ کربلانے کا اگرچہ ذکر نہیں کیا مگریہ ایک تلخ حقیقت تھی جسکا خمیازہ بھٹو کے علاوہ قوم کوبھی بھگتنا پڑا۔
افسوس ناک اطلاعـ:۔گذشتہ ہفتے ہمارے دوست اور گوجرانوالہ بارکے سینئر رکن اکرم شاہ بخاری بھی ہمیں چھوڑ کرعدم کوآباد کرنے روانہ ہوگئے ۔اللہ ان کی منزل آسان فرمائے (امین)کچھ واقعات کاتذکرہ پھر کبھی سہی۔
٭…٭…٭
سات سوسال
Jun 12, 2021