مومنہ شناسی

مومنہ بیٹی کی برسی کے موقع پر مومنہ شناس یاسر کیانی نے مجھے ایک مراسلہ بھجوایا ہے جو میں آج کالم کا حصہ بنا رہی ہوں 
’’امریکی شاعرہ مایا اینجلو نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’خود میں کسی ان کہی داستان کو محفوظ رکھنے سے بڑھ کر کوئی کرب نہیں۔‘‘ آج صوفی مومنہ کی یاد نے مجھے غیرمعمولی پن کی حالت میں لے جا کر قلم کشائی کرنے پرمجبور   کیا ہے۔ سلیم احمد (مرحوم) کا یہ شعر میری اس کیفیت کو واضح کر سکتا ہیٖ؎
آج میں منزل میں نہیں ہوں، راہ کا پھیلائو ہوں
آج ہے میرا سفر اندر سے باہر کی طرف
ایسی کیفیت محض اس لئے نہیں کہ آج مومنہ کی شہادت کا دن ہے بلکہ سارا سال صوفی مومنہ سے باتیں کرنے اور سیکھنے کے بعد جب 10 جون کا دن آتا ہے، حادثے کی آواز کلیجہ چیر دیتی ہے۔ زخم ہرا ہونے لگتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کا واقعہ مہم بن جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کو اپنے والد حضرت عباسؓ سے بہت محبت تھی۔ ان کے انتقال پر یہ غم سے بے حال ہو گئے۔ ایسے میں ایک بدو آیا اور انہیں گلے لگا کر تحکم کے لہجے میں بولا ’’اے عبداللہ! عباس کو تم سے بہتر رفیق مل گیا۔ (یعنی اللہ) اور تمہیں عباس سے بڑی نعمت حاصل ہو گئی (یعنی صبر) حضرت عبداللہ ابن عباسؓفرماتے ہیں کہ مجھ سے اتنی پُرتاثیرتعزیت کسی نے نہیں کی۔
دلیل بھی حسنِ اظہار کی محتاج ہوتی ہے اور حسن اظہار اسے کہتے ہیں کہ بات ذہن کی گرفت میں آنے کی بجائے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لے۔ مومنہ کی تحریروں میں مخفی ذہنی افتاد اور معنویت نے مجھے علم کی نئی جہتوں سے متعارف کروایا اور بتایا کہ کلام کو اس کے ظاہر سے ہٹا دینا کلام کا انکار ہے، لیکن کلام کو اس کے ظاہر تک محدود کر دینا متکلم کا انکار ہے۔ یہاں میں شاید کچھ مشکل بات کہنے کی جسارت کروں گا کیونکہ یہ مومنہ کی زبان تھی اور مومنہ کی بات کا فہم مومنہ کی فہم و فراست ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہاں یہ بات کرنا بھی نہایت موزوں ہے کہ ذہن انسانی میں علم کے حصول کیلئے اس کا فہم ہی واحد ذریعہ نہیں بلکہ یہ صرف ایک چینل ہے، ذہن میں اور اس کے باہر فہم کیساتھ ساتھ بے شمار دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ذہن کی کئی آنکھیں ہیں مگر افسوس ہم نے آنکھ کے سوا باقی تمام آنکھوں میں تیزاب ڈال کر انہیں اندھا کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ آسان بات ذہن کی کسی ضرورت کو پورا نہیں کرتی جبکہ مشکل بات ذہن کی کسی بڑی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے۔ صوفی مومنہ کا ایمان تھا کہ حقیقت حوالہ بنے تو صورت کا علم جہل ہے اور صورت حوالہ نہ بنے تو حقیقت کا علم وہم ہے۔ ہر کوئی مومنہ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ یہ یکتائی کا کیا تصور ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنہوں نے صوفی مومنہ کو دیکھا اس سے ملے، اس کی تحریروں میں اس کا عکس دیکھا۔ وہ جان گئے کہ مومنہ کی صحبت کن افراد پر مشتمل تھی۔ کون لوگ مومنہ کی صحبت میں بیٹھا کرتے تھے۔ سقراط، افلاطون، امام غزالی، حضرت فریدالدین عطار، حکیم نسائی، مولانا روم،حافظ ڈیکارٹ، کانٹ، ڈیوزے، ہائیڈیگر، غالب، میر اور اقبال ایسے عظیم لوگ جن سے مومنہ ہر وقت کسب فیض لیتی، ایسی محفل میں کس سطح کی گفتگو ہوتی ہوگی اور ایسے سوالات جو درحقیقت سوالات تھے، جیسے کہ جسم و روح کے فلسفے پر بحث، علم و اخلاق پر بات، حقیقت و مجاز پر مباحث، جبروقدر پر بات وغیرہ تو کیا ہماری محفلیں ایسی ہیں، تو پھرتقابل کس بات کا یعنی جب بات دلیل کی بجائے ضد سے شروع کی جائے گی تو نتیجہ ہماری موجودہ زبوں حالی ہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
صوفی مومنہ دیدہ ورتھی جس کی بصارت نے مجھے بینائی بخشی۔ مومنہ نے محض آنکھوں پر کبھی بھروسہ ہی نہیںکیا تھا کہ بس اندھے ہی آنکھوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ور و فکر کرنے والوں کیلئے بعض مقاماتِ دید ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں دل بھی پکار اٹھتا ہے کہ کاش آنکھیں بھی دیکھنے والی ہوتیں۔ صوفی مومنہ کے بقول انسان کو تخلیقی و تحقیقی ذہن کیساتھ ساتھ گہرے احساسات سے بھی لبریز ہونا چاہئے۔ کیونکہ انسان بڑے ذہن کے بغیر تو رہ سکتا ہے، گہرے احساسات کے بغیر نہیں۔ سچا وہ ہے جسے دیکھ کر سچ سے محبت ہو جائے اور مومنہ اسم بامسمیٰ تھی۔ اپنی جوانی ہی میںاس نے اپنے وجود کو اس مادی دنیا سے بلند کر لیا۔ ایسی جوانی ہی مبارک ہوتی ہے۔ اقوام کو ایسی بیٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں جگائے رکھیں۔ صوفی مومنہ ہماری نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ ہے مگر افسوس کہ جن ہاتھوں میں ہمارے ملک کی باگ ڈور جانی ہے وہ تو محض کنگھی اور موبائل فون کا بوجھ اٹھانے کے سوا کوئی بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ مومنہ کی زندگی روحانیت کے نور سے روشن ہے جس سے ہمیں پہلے خود کو روشن کرنا ہوگا کیونکہ دوسروں کو بدلنے کا سفر خود سے شروع ہوتا ہے۔ اس کیلئے ہمیں باقی کاوشوں کیساتھ ساتھ صوفی مومنہ کی پراثر شخصیت و کردار اور ذوق و شوق کو نوجوان نسل کے سامنے لانا ہوگا۔ کیونکہ آدمی کی آخری پہچان یہی ہے کہ اس کا ذوق کیا ہے اور اس کا محبوب کون ہے۔ مومنہ کی تحریریں مومنہ کا عکس ہیں، لیکن صوفی مومنہ ان سے بھی ماورا ہے۔ مومنہ نے اس فانی دنیا میں اپنے قلیل وقت میں بھی مرتے دم تو خود کو زندہ رہنے کے قابل رکھا اور جان دینے کے لائق بھی کیونکہ جو آدمی مرنے کے لائق نہیں ہے، اس کی زندگی کی سطح انسانی نہیں ہو سکتی۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے مومنہ کی تحریروں کی تہہ میں اترنے کا موقع ملا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں زمین و قلب کی زندگی میں جن تاریکیوں کی یلغار کا بہت بے بسی کے ساتھ سامنا ہے۔ ان تاریکیوں کی تمام قسموں کو ہم مومنہ سے حرارت اور روشنی لے کر دور کر سکتے ہیں۔ صوفی مومنہ کی حسین شخصیت و کردار کو لفظوں میں سمونا ممکن نہیں اور پھر حسن تو کہتے اسے ہیں کہ جس کو دیکھنے کیلئے سامان دید تھوڑا پڑ جائے۔
آخر میں آپ سب سے میری یہ درخواست ہے کہ آپ جب بھی مومنہ کی قبر پر جائیںتو انہیں مولانا روم کے یہ الفاظ میری طرف سے ضرور پہنچائیے۔ گا (ویسے روحانی طورپر یہ تحریر ان تک پہنچ گئی ہو گی)
’’پتا ہے یہاں سے بہت دور صحیح اور غلط کے اس پار ایک میدان ہے، میں وہاں ملوں گا تجھے۔‘‘

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن