ہر حکومت کی طرف سے بجٹ کے موقع پر ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ عوام پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا، بجٹ عوام دوست ہے، اس سے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں حزبِ اختلاف کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود جماعتیں ہر بار یہی شور مچاتی ہیں کہ بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آ جائے گا، بجٹ عوام دشمن ہے، اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ہماری سیاسی قیادت نے یہ بیانات رٹے ہوئے ہیں اور ہر مرتبہ انھیں دہرا کر عوام کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام بھی تقریباً نصف صدی سے یہ بیانات اتنی بار پڑھ اور سن چکے ہیں کہ انھیں یہ سب باتیں اب یاد ہوچکی ہیں۔ اس بار فرق صرف اتنا آیا ہے کہ پارلیمان کے اندر مضبوط حزبِ اختلاف کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایوان میں کوئی ہلڑ بازی نہیں ہوئی اور وفاقی وزیر خزانہ نے بغیر ہیڈفون استعمال کیے سہولت سے بجٹ تقریر کردی۔ لیکن بجٹ کے بعد ایوان کے باہر موجود حکومت مخالف جماعتوں کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے وہ البتہ روایت کے عین مطابق ہیں۔
جمعہ کے روز وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2022-23ء کے لیے تقریباً 95کھرب حجم کا جو میزانیہ پیش کیا اس میں حکومت کی جانب سے کئی ایسے اقدامات سامنے آئے جن کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا قرار دیا جاسکتا ہے۔ 9502 ارب روپے کے اس وفاقی بجٹ میں ایک تہائی حصہ تو ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھا گیا ہے جو ہم نے مختلف بین الاقوامی اداروں اور ممالک سے لے رکھے ہیں۔ یہی ہمارے ہر بجٹ کا سب سے کمزور پہلو ہوتا ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور باقی جو کچھ بچ رہتا ہے اس میں سے اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کی رقم منہا کردی جائے تو پیچھے بچنے والی رقم اتنی نہیں ہوتی کہ اس سے پورے ملک کو ایک سال تک چلایا جاسکے۔ اسی لیے ہمارا ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے اور ہمیں اخراجات پورے کرنے کے لیے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اس صورتحال نے ملک کو معاشی عدم استحکام نامی بیماری کا مستقل مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ حالات یہ بتاتے ہیں کہ اگر جلد اس بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو ملک مزید معاشی عدم استحکام کی طرف جائے گا۔
نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو تنخواہوں میں اضافے اور آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ کی حد میں سو گنا بڑھانے کی صورت میں ریلیف دینے کے علاوہ سولر پینل کی خریداری پر آسان اقساط پر قرضے دلانے، سولر پینل کی درآمدات پر صفر سیلز ٹیکس کرنے، ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر ٹیکس واپس لینے ، زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے اور خیراتی ہسپتالوں کو درآمد/عطیات اور 50 یا اس سے زائد بستروں والے خیراتی/غیر منافع بخش ہسپتالوں کو بجلی سمیت مقامی سپلائیز پر مکمل چھوٹ دینے کی تجاویز ایسی جن سے عوام کو سہولت حاصل ہوسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک اشیائے خور و نوش اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر قابو نہیں پایا جاتا تب تک باقی تمام اقدامات کے ذریعے ملنے والا ریلیف عوام پر کوئی اثر نہیں کرے گا۔ عوام بھی اس سلسلے میں حق بجانب ہیں کیونکہ ان کی قوتِ خرید گزشتہ چند برسوں میں بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر جس طرح گرتی جارہی ہے اس سے قوتِ خرید مزید بگاڑ کا شکار ہورہی ہے اور اس پر قابو پانا صرف اور صرف حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان توانائی کا بحران ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر کوئی بھی حکومت قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ موجودہ حکومت نے نئے بجٹ میں آبی وسائل کے لیے بڑے ڈیموں، دیامر بھاشا، مہمند، داوس، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے لیے بجٹ میں سو ارب روپے مختص تو کیے ہیں لیکن ظاہر ہے یہ رقم ناکافی ہے اور اس سے ہمارے توانائی کے مسائل کو حل کرنے میں خاطر خواہ مدد نہیں مل سکتی۔ ہمارے آبی وسائل میں کمی سے ملک کے مختلف حصوں میں مسائل کی جو نئی نئی صورتیں پیدا ہورہی ہیں وہ معیشت پر مزید بوجھ کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کے لیے ہر حکومت دعوے تو کرتی ہے لیکن اس سلسلے میں عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نئے میزانیے کے مطابق، آئندہ مالی سال میں بجلی کے شعبے کی پیداوار اور ترسیل کی مد میں 73 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ گزرتے وقت کے ساتھ آبادی اور ضروریات میں اضافہ ہورہا ہے جس سے واضح طور پر یہ اشارے ملتے ہیں کہ جب تک ہمارے ہاں کچھ نئے ڈیم تعمیر ہو کر کام شروع کریںگے تب تک قومی سطح پر ضروریات مزید بڑھ چکی ہوں گی اور ہم اسی سطح پر کھڑے ہوں گے جہاں آج کھڑے ہیں۔ اندریں حالات، تمام سیاسی قیادت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو مستقبل کی ضروریات سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت نے بجٹ میں سبسڈیز کی مد میں 699 ارب روپے رکھے ہیں جبکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی کے لیے 10ارب روپے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364ارب روپے خرچ ہوں گے۔ ان سب اقدامات سے عوام کو فائدہ تو ہوگا لیکن ملک کی آبادی کا حجم سامنے رکھا جائے تو مذکورہ رقوم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق دکھائی دیتی ہیں۔ تجارتی محاذ پر ہمیں جو اقدامات کرنے چاہئیں ان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ ایک ایسا مستقل مسئلہ ہے جس سے ہمارے معاشی مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جب تک درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے سنجیدہ اور سخت اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک یہ مسئلہ مستقل دردِ سر بنا رہے گا۔
بڑی گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافہ، نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں اور بجٹ تقریر میں خوش نما بنا کر پیش کیے جانے والے دیگر تمام اقدامات حکومت کے عوام کے لیے احساس کے حقیقی ترجمان تبھی بنیں گے جب عوام کو یہ نظر آئے گا کہ ان کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی ہے اور بے روزگاری پر کس حد قابو پایا گیا ہے۔ عوام بجٹ میں استعمال کی جانے والی موٹی موٹی اصطلاحات سے نہ تو واقف ہیں اور نہ ہی وہ انھیں جاننے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے جس کا بڑا سبب حکومت کا غیر ملکی اداروں اور دوسرے ممالک کا دست نگر ہونا ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین اور کابینہ کے ارکان کو دیے جانے والے پٹرول میں چالیس فیصد کٹوتی تو کی ہے اور غیر ضروری دوروں پر بھی پابندی لگائی ہے لیکن اتنے بڑے ملک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ کاروباری طبقے، امیر ترین، جاگیرداروں اور اشرافیہ میں شامل دیگر طبقات کو دی جانے والی مراعات اصل مسئلہ ہیں جن سے متعلق سخت فیصلے کر کے حکومت عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرسکتی ہے۔