بجٹ پر حکومت کی واہ واہ اپوزیشن کی اف اف
سچ کہیں تو عوام کیا ہم جیسے معمولی پڑھے لکھے بھی آج تک بجٹ کے اعداد و شمار سے کچھ نتائج اخذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ الفاظ اور اعداد و شمار کا وہ گورکھ دھندا ہے کہ نہ سمجھ آتا ہے نہ ہی ہم کسی کو سمجھا سکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں۔ ہر بجٹ میں اعداد و شمار کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ پڑھ پڑھ گلا خشک کرتا ہے اور حکمرانوں سے داد پاتا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن والے خوب شور شرابا کرتے ہیں۔ اس شور و غل میں ساری کارروائی چلتی ہے۔ کسی کو خاک سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے مگر حمایت و مخالفت میں خوب نعرے لگتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے ڈائس کا گھیراؤ کیا جاتا ہے۔ بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر اچھالی جاتی ہیں۔ اس دھینگا مشتی سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی کو بجٹ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر ہوتی تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کوشش کرتے کہ عوام کے فائدے کے لئے بجٹ میں کچھ نہ کچھ ضرور ہو مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ البتہ اپوزیشن کی غیرموجودگی کی وجہ سے اجلاس پر سکون رہا چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی سب نے بجٹ تقریر سنی۔ مگر قسم لے لیں جو کسی کو پتہ ہو کہ پورے بجٹ میں عوام کے ریلیف کے لئے کیا کچھ تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ صرف کتابوں کا پلندہ ہوتا ہے۔ جس کو کوئی بھی نہیں پڑھتا بس چند ایک باتوں پر شور مچا کر اپنے عوام دوست ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے۔
٭…٭…٭
پتھراؤکرنے والا فلسطینیوں کی سزا دوگنا کرنے کا اسرائیلی قانون تیار
اسرائیل کی طرف سے ایسے وحشیانہ اقدامات کے علاوہ اور کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس کا بس چلے تو وہ اسرائیل میں آبادفلسطینیوں کے زندہ رہنے پر بھی سزائے موت کا اعلان کرکے ناپاک اسرائیل کے وجود کو ان مظلوم فلسطینیوں کے وجود سے خالی کرا دے۔ یہ سب اسرائیل کر رہا ہے جو بذات خود ایک ناجائز ریاست ہے۔ امریکہ ‘ برطانیہ اور روس نے مل کر ارض فلسطین پر ناجائز قبضہ کرکے یہاں اسرائیلیوں کو لا کر آباد کیا اور اسرائیل نامی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ پھر انہوں نے اسے ایک ایسا زہر آلود خنجر بنا دیا جو عربوں کے سینے میں پیوست ہے مگر وہ سب مل کر بھی اسے نکالنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے مظلوم فلسطینی ارض مقدس یعنی بیت المقدس جو ہمارا قبلہ اول بھی ہے سے یہودیوں کا غاصبانہ تسلط چھڑانے کے لئے مسلسل لڑ رہے ہیں۔ نہتے خالی ہاتھ یا پھر پتھروں سے ظالم اسرائیلی فوجیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس کے جواب بھی اسرائیل نت نئی پابندیوں اور ظالمانہ قوانین سے ان کی راہ روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اب اسرائیل نے ایک نیا مسودہ قانون تیار کیا ہے۔ جس کے تحت اسرائیلی فوج یا پولیس پر پتھراؤ کرنے والوں کی سزا 2 سے بڑھا کر 4 سال کر دی جائے گی۔ یوں اسے امید ہے کہ دوگنی سزا کے خوف سے فلسطینی پتھراؤ سے باز رہیں گے۔ مگر یہ اسکی خام خیال ہے۔ فلسطینی ابابیل اسی طرح اسرائیلوں کے ہاتھیوں کے لشکر کو پتھروں سے سنگسار کرتے رہیں گے۔ جب اسرائیلی فوج کی گولیاں اور توپوں کی بمباری انہیں نہیں روک سکی تو دوگنی سزا کا خوف کیا کرے گا۔
٭…٭…٭
ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات کے ایک سال بعد آزادانہ نقل و حرکت کیس کا فیصلہ جاری
کی میرے قتل کے بعداس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
چچا غالب بہت پہلے یہ کہہ کر اپنے بہت سے دکھوں کو ظاہر کر گئے تھے مگر ہمارے ہاں یہ سب کچھ ابھی تک ہوتا آرہا ہے۔ ہر بار کسی نہ کسی شکل میں یہ شعر ایک نیا پہلو لیکر ہمارے سامنے ایک تلخ حقیقت بن کرآجاتا ہے۔ فخر پاکستان کہیں یا محافظ وطن ایٹمی پروگرام کا معمار کہیں یا محسن پاکستان۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان واقعی پاکستان کی آن‘ بان اور شان ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی پاکستان بنانے میں جو کردار ادا کیا‘ وہ تاقیامت ہمارے لئے فخر کا باعث رہے گا۔ انہیں زندگی کے آخر ادوار میں جب عزت و احترام دیا جانا چاہئے تھا ایک ڈکٹیٹر حکمران کی وجہ سے بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے ایک ان کی نظربندی بھی تھی۔ باقی مشکلات اور الزامات پر تو زمانہ خاک ڈال گیا۔ نہ وہ جابر رہے نہ ان کے لگائے بے سروپا الزامات مگر نظربندی کا معاملہ جدا تھا۔ عدالت میں یہ کیس چلتا رہا اور وہی ہوا جو ہماری عدلیہ میں ہوتا ہے۔ دادا کے کیس کا فیصلہ پوتے سنتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ان کو اس جہان فانی سے گئے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو رہا ہے اور عدالت نے پس مرگ ایک سال بعد فیصلہ جو سنانا تھا تاخیر سے سنا کر اپنی تاریخ میں ایک اور کارنامہ رقم کیا ہے۔ یہ کسی عام آدمی کا نہیں‘ محسن پاکستان کی نظربندی کے خلاف کیس تھا جو ایک سال زیر التواء رکھا گیا۔ اب کوئی کہے تو کیا کہے۔‘ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
٭…٭…٭
لاہور‘ کراچی سٹریٹ کرائمز میں بازی لے گئے
پاکستان کے بالترتیب دونوں بڑے شہر کراچی اور لاہور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو رہا ہے کہ وہاں سٹریٹ کرائمز کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ کوئی شہری گھر سے باہر نکلتے وقت خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔ لگتا ہے ہر گلی اور ہر چوک پر کوئی نہ کوئی ڈاکو یا چور ان سے ان کا موبائل فون‘ بٹوہ یا موٹرسائیکل گن پوائنٹ پر چھین کر لے جائے گا۔ پھر اس کے بعد لاکھ آپ بڑی سے بڑی سفارش لیکر تھانے جائیں‘ آپ کی رپٹ درج بھی ہوئی تو آپ سے چھینی گئی رقم‘ موبائل فون اور موٹرسائیکل کا واپس ملنا ناممکن ہی رہتا ہے کیونکہ جہاں لوگ رپٹ درج کرانے جاتے ہیں‘ انہیں اس مال مسروقہ سے ان کا حصہ بروقت مل چکا ہوتا ہے۔ یہ چور اچکے اور لٹیرے اتنے دلیر ہو گئے ہیں کہ سکیورٹی کیمروں سے بھی خوف نہیں کھاتے۔ بہت سے عقلمند لٹیرے البتہ ماسک کا بھرپور استعمال وارداتوں کے وقت کرتے ہیں۔ ویسے انہیں کرونا میں کہا جاتا کہ ماسک لگائیں تو انہیں موت پڑتی تھی۔ چند ایک البتہ اچھی طرح منہ ڈھانک کر واردات ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کوئی علاج پولیس کے پاس تو نہیں ہے۔ ان کی تعداد زیادہ اور پولیس کی نفری کم ہے۔ اب یا تو عوام کو خود ان کا مقابلہ کرنا ہوگا مگر ہاتھ میں گن ہو تو کوئی جان خطرے میں نہیں ڈالتا۔ یوں یہ چھٹانکی لٹیرے بھاری بھرکم شہریوں کو بھی لوٹ لیتے ہیں۔ عوام اگر متحد ہوکر ہر گلی میں محلہ میں تجارتی مرکز میں بازار میں ان ڈاکوئوں کو دیکھ کر ان کی راہیں مسدود کریں‘ ان پر گاڑی چڑھا دیں‘ ان کو گولی مار دیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہنے کو یہ ظلم ہوگا مگر یہ جو کر رہے ہیں‘ کیا وہ ظلم نہیں۔