’برگ آوارہ‘ کی اشاعت سے جالب کا پہلا شعری مجموعہ مشاعروں کے سامعین تک پہنچا۔ یہ مجموعہ ان کے دیگر شعری مجموعوں کی اشاعت کا نقطۂ آغاز ہے اور ان کی شاعری کے پہلے دور کا اختتام بھی ہے۔ ’برگِ آوارہ‘ میں ان کی بیشتر غزلیات یکجا ہو گئی ہیں جو مشاعروں میں بہت مقبول تھیں اور جسے ان کی شاعری کا رومانی دور کہنا چاہیے۔ حبیب جالب ضلع ہوشیار پور کے ایک قصبے میانی افغاناں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا بہت مفلوک الحال تھا۔ شروع ہی سے اس بچے نے اپنے ماں باپ کے ہمراہ پیٹ بھرنے کے لیے تگ و دو شروع کر دی تھی۔ سکول میں چند جماعتوں تک تعلیم بھی حاصل کی تھی اور جیسا کہ پنجاب کے سکولوں کا دستور تھا، اردو اور ریاضی اپنے ٹھیٹھ علاقائی لہجے میں سیکھنی شروع کر دی تھی۔ نصابی کتابیں اردو میں ہوتی تھیں لیکن اساتذہ تشریح پنجابی میں کرتے تھے۔ اس ماحول میں لشٹم پشٹم انھوں نے ساتویں جماعت تک پڑھا۔ ان کے بڑے بھائی میٹرک پاس کرکے دہلی جا چکے تھے اور وہاں سرکارِ برطانیہ کے ایک دفتر میں ملازم ہو گئے تھے۔ پھر والد بھی ان کے پاس دہلی چلے گئے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد حبیب جالب کو بھی دہلی بلا لیا۔
اینگلو عربک سکول میں داخل ہوئے اور چند سال میں پنجابی کی بجائے اردو ذریعۂ تعلیم کے مطابق پڑھنا شروع کر دیا۔ آدمی چونکہ ذہین اور اخاذ تھے اس لیے جلد ہی دہلوی لہجے میں اچھی اردو بولنے لگے۔ جن لوگوں کو جالب سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے و ہ جانتے ہیں کہ ان کا اردو لہجہ کتنا اچھا تھا! چونکہ ان میں شعر کا فطری ذوق موجود تھا اور دہلی شاعری کا مرکز تھی اس لیے وہ شوق سے مشاعرے سنتے تھے اور وہاں کے نامی گرامی استاد شعرا سائل اور بیخود وغیرہ سے بھی مستفید ہوتے تھے۔ وہیں جگر مراد آبادی اور دیگر معروف شعرا کو سنا۔ جگر اپنے ترنم کی وجہ سے مشاعرے کے اہم ترین شاعر سمجھے جاتے تھے۔ جالب کی آواز بھی بہت سریلی تھی اس لیے عجب نہیں کہ وہ سوچتے ہوں کہ قسمت مہربان ہو گئی تو شاید میں بھی کبھی جگر کی طرح مشاعروں کا اہم شاعر بن جاؤں۔ ’میانی افغاناں‘ کے مناظر ان کی یادوں میں زندہ تھے۔ وہ اکثر انھیں یاد کیا کرتے تھے۔ یہ تاثرات بھی ان کے پہلے مجموعے میں موجود ہیں۔
تحریکِ پاکستان سے حبیب جالب کی لڑکپن ہی سے وابستگی تھی۔ اس کا آغاز گاؤں سے ہوا تھا۔ یہ سلسلہ دہلی میں بھی جاری رہا تا آں کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ سرکاری ملازموں کو دونوں میں سے کسی ایک ملک کے انتخاب کا موقع دیا گیا۔ ان کے بھائی نے پاکستان کی ملازمت کو منتخب کیا۔ پھر وہ خستہ و خراب ہو کر کراچی پہنچ گئے جو اس زمانے میں پاکستان کا دارالحکومت قرار پایا تھا۔ حبیب جالب بھی بھائی کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئے۔ حسنِ اتفاق سے یہ دن 14 اگست 1947ء کا تھا۔ حبیب جالب اٹھارہ برس کے ہو چکے تھے لیکن ان کے پاس کوئی تعلیمی سند نہ تھی۔ بھائی بھی کسی ایسے عہدے پر نہ تھے کہ ان کے لیے کسی بہتر ذریعۂ روزگار کا وسیلہ بن سکتے۔ پھر وہ شاعر مزاج تھے اور شاعری کرنے بھی لگے تھے۔ کراچی کے شعرا سے میل جول شروع کر دیا لیکن شعرا کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ انھیں اپنے حلقۂ اثر میں شامل کر لیا جائے اور تاثر یہ دیا جائے کہ یہ ہمارا شاگرد ہے تاہم باصلاحیت لوگوں کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا چنانچہ رفتہ رفتہ کراچی میں ان کی کچھ پذیرائی ہونے لگی۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں جالب نے خود جمیل الدین عالی کا ذکر اچھے لفظوں میں کیا ہے۔ کراچی میں وہ محنت مزدوری کرتا رہا مگر تابہ کے۔ آخر نئے وسائل کی تلاش میں کراچی سے نکلا۔ کچھ عرصہ لاہور میں گزارا۔ بعض اخبارات میں پروف ریڈنگ وغیرہ کی۔ کسی تعلیمی سند کے حصول کے شوق میں اورئینٹل کالج میں ادیب فاضل میں داخلہ لیا مگر اساتذہ سے نامطمئن ہو کر کلاسوں میں جانا چھوڑ دیا۔ مجھے انھوں نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ سید عبداللہ کے سوا کوئی اچھا استاد نہیں تھا، لاہور میں بطورِ شاعر معروف ہو چلے تھے اور 1954ء سے پاکستان اور پھر بھارت کے مشاعروں میں مدعو کیے جانے لگے تھے۔ مگر وہ کسی ایک جگہ سے جلدی اکتا جاتے تھے جس کی بڑی وجہ کسی مستقل ذریعۂ روزگار کا میسر نہ آنا تھا۔ پھر کچھ وقت لائلپور میں گزارا جس کا ذکر پہلی قسط میں آ چکا ہے۔ لائلپور اس زمانے میں بہت چھوٹا سا شہر تھا اور گھنٹہ گھر کے اردگرد واقع بازاروں تک محدود تھا۔ وہاں کوہِ نور ٹیکسٹائل ملز میں چند ماہ ملازمت کی اور مالکوں کی شان میں اشعار پڑھنے کی پاداش میں نکالے گئے۔ مگر کوئی خاص وجہ تھی کہ وہ اس شہر کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے پہلے مجموعے ’برگِ آوارہ‘ کی بعض غزلیات اور نظمیں اس راز کو آشکار کر سکتی ہیں:
لائلپور اک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد
دھڑکن دھڑکن ساتھ رہے گی اس بستی کی یاد
برگِ آوارہ میں بکھری ہے جس کی روداد
لائلپور میں ایک مظلوم شاعر احمد ریاض بھی تھا جو فیروزپور سے ہجرت کرکے چک جھمرہ میں آباد ہو گیا تھا۔ اخبار ’غریب‘ کی ادارت کرتا تھا۔ معمولی معاوضہ پر ہر روز چک جھمرہ سے آتا جاتا۔ رات گئے تک اپنی ذمہ داری ادا کرتا اور آخر تپ دق کے مرض میں دنیا سے رخصت ہوا جب اس کی عمر صرف پینتیس سال تھی۔ اس شہر کے بعض صحافیوں وغیرہ نے اسکے مرنے کے بعد شائع ہونے والا اس کا شعری مجموعہ بھی پاکستان دشمنی کا نعرہ لگا کر ضبط کروا دیا مگر حبیب جالب نے اس کا ساتھ دیا اور اسکے بارے میں ایک نظم بھی لکھی جو برگِ آوارہ میں شامل ہے۔
پہلے ہی اپنا کون تھا اے دوست
اب جو تو ہو گیا جدا اے دوست
میرا خیال یہ ہے کہ ایسے بہت سے دکھ سہنے کے باوجود جالب اس شہر کو تادمِ آخر یاد کرتا رہا۔ 1958ء میں جالب ایک بار پھر لاہور میں قیام کی تگ و دو میں مبتلا دکھائی دیتا ہے پھر اچانک 7 اکتوبر کی صبح پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے اقتدار میں آنے والوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سازشیں شروع کر دی تھیں۔ اس وقت گورنر جنرل غلام محمد تھے جنھوں نے اسمبلی کو اس لیے توڑا کہ آئین بن گیا تھا اور اس کے نفاذ سے ان کے اختیارات بہت کم رہ جانے تھے۔ وہ مفلوج تھا۔ اتنا بڑا قدم وہ نہیں اٹھا سکتا تھا جب تک اسے کسی بڑے طاقتور شخص کا اشارہ نہ ہوتا اور یہ طاقتور شخص جنرل محمد ایوب خان ہی ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد نئے گورنر جنرل اسکندر مرزا سے بھی اس کے گہرے تعلقات تھے۔دونوں نے ساز باز کرکے جمہوریت کی ناکامی کو بہانہ بنایا۔ چنانچہ 1956ء کے آئین کو آزمائے جانے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا۔ چند دن سکندر مرزا صدر رہا اور ایوب خان چیف ایگزیکٹو۔ پھر سکندر مرزا کو بھی چند دن کے اندر اندر فارغ کرکے ملک بدر کر دیا گیا اور سب کچھ ایوب نے سنبھال لیا۔ پھر ملک میں بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کیا گیا اور صدر کا پہلا انتخاب ریفرنڈم کے ذریعے ہوا۔ جیسے ریفرنڈم ہمارے ہاں ہوتے ہیں، یہ بھی ایسا ہی ریفرنڈم تھا۔ پھر 1962ء میں صدارتی آئین (دستور) نافذ کر دیا گیا اور صدر کا انتخاب بنیادی جمہوریتوں کے اسی ہزار نمائندوں کے ذریعے قرار پایا۔ اس بالواسطہ جمہوریت کے ذریعے پہلا صدارتی انتخاب ہوا۔ ایوب کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح صدارتی امیدوار تھیں۔ فضا بہت حد تک محترمہ کے حق میں تھی مگر جس دھاندلی اور صریح بددیانتی سے الیکشن جیتا گیا اس سے ایوب کے اقتدار میں دراڑیں پڑ گئیں۔
ایوب کے اس دس سالہ دور میں حبیب جالب کی رومانی شاعری کا عہد ختم ہوا اور اس کی جگہ مزاحمتی شاعری نے لے لی۔ انھوں نے اس زمانے میں بہت سی نظمیں لکھیں جو جبر و استبداد کے اس دور کی صحیح عکاسی کرتی ہیں، حبیب جالب بڑی دلیری سے یہ نظمیں سناتے تھے اور ان میں ایوب خاں کے غیرجمہوری اور ظالمانہ اقدامات کی بھرپور عکاسی کرتے تھے۔ میرے خیال میں یہ ان کی بہترین شاعری ہے۔ اس دور میں ان کی ان نظموں کا مجموعہ ’سرِ مقتل‘ کے نام سے مکتبۂ کارواں نے شائع کیا جو بڑی تیزی سے عوام و خواص تک پہنچنے لگا چنانچہ اس کو ضبط کرنے کے احکام جاری ہوئے اور تمام جلدیں بحق سرکار مارکیٹ سے اٹھا لی گئیں۔ (جاری)
حبیب جالب: جہدِ مسلسل کی علامت
Jun 12, 2022