رائٹرزگلڈمیںادبی رونقیں اور مظہر سلیم مجوکہ

Jun 12, 2022

پاکستا ن را ائٹرز گلڈکے کانفرنس ہال میںوقت پر تقریب ایک اچھی روائت ہے سو اس بار کا ماہانہ مشاعرہ کشمیر کی نسبت سے تھا اور اس کا آغاز بھی وقت پر ہوا اور وقت پر احباب نے چائے کے کپ پر روائتی گپ شپ بھی کی ۔ مشاعرے کی صدارت گلڈ پنجاب کے سیکرٹری بیدار سرمدی نے کی بزم وارث شاہ کے روح رواں نذر بھنڈران کیساتھ مہمان خصوصی تھے اور اس کی نظامت کے فرائض معروف سیاح مصنف اور سکائوٹ گا یڈ مقصود چغتائی تھے ۔
 گلڈ کے آفس سیکرٹری ظفر اقبال نے تلاوت کلام پاک کی اور مقصود چغتائی نے جن کی کشمیر سے بہت سی نسبتیں بھی ہیں تفصیلی خطبہ استقبالیہ دیا جس میں کشمیر میں بھارتی مظالم اور عالمی بے حسی کو خاص طور پر حوالوں کے ساتھ بیان کیا اور پھر محفل مشاعرہ منعقد کی گئی تقریب کے ساتھ ہی ایک غیر رسمی تقریب ممتاز ادبی جریدے ادب لطیف کے مدیر اور ادبی جرائد میں نئی ذائقے کے ساتھ سامنے آنے والے ادبی جریدے بک ڈائجسٹ کے مدیر اعلی مظہر سلیم مجوکہ کی سالگرہ کے حوالے سے منعقد ہوئی ۔ 
حال ہی میں وفاقی ملازمین کے فلاحی ادارے سے سینیئر ویلفیئر آفسر کی حیثیت سے ریٹائر ہونیوالی متحرک شخصیت مقبول چوہان اور معروف شاعر اور کالم نگار پروفیسر ناصر بشیر جناب مظہر سلیم مجوکہ کی سالگرہ کا کیک اٹھائے محفل میں آ ئے تو حاضرین کیلئے یہ دوہری خوشی کی صورت بن گئی اور تالیوں کی گونج میں کیک کاٹا گیا ۔ رائئٹرز گلڈکی تقریب کو رونق بخشنے والوں میں ان حضرات کے ساتھ ساتھ بلال صابر احمد سعید اسجد نون عین صابر ڈاکٹر زرقا نسیم غالب ڈاکٹر تبسم شاہ زیب خان قاضی محمد منشا شگفتہ غزل ہاشمی مظہر جعفری اور پاکستان کے ڈائجسٹوں میں سلسلہ وار ناولوں کے ممتاز لکھاری طاہر جاوید مغل بھی شامل تھے ۔ اس موقع پر مظہر سلیم مجوکہ کی ادبی خدمات کاتذکرہ بھی ہوا اور انکے اپنے ادبی ادارے کے ذریعے مختلف ادبی شخصیات کے خصوصی نمبروں کی اشاعت بھی داد و تحسین کا باعث بنی۔ خاص طور پر اس بار کا بک ڈائجسٹ کامعروف براڈ کاسٹر استاد شاعر اور خاص طور سرائیکی شاعری میںسمجھ دا پوکھا جیسے مجموعہ کلام کے خالق کی حیثیت سے شہرت پانے والے مخدوم اکبر ہاشمی کا خصوصی نمبرزیر ببحث رہا اسی طرح اس بار ادب لطیف کے مدیر کے طور پر انکے ادارئیے ادبی جرائد کا مستقبل نے بھی بحث کے نئے در وا کئے ہیں ۔ 
مظہر سلیم مجوکہ نے صحیح لکھا ہے کہ پہلے ادب کے قارئین ادبی جریدوں کا انتظار کرتے تھے ۔ سالانہ خریداری کا رجحان تھا ۔ اشتہار بھی مل جاتے تھے مگر آہستہ آہستہ ادبی رسائل گوناگوں مسائل کا شکار ہوتے چلے گئے کچھ رسائل اپنے مالکان یا مدیران کی وفات کے ساتھ ہی بند ہو گئے اور الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا پر غالب آتا گیا ۔ مغرب میں سوشل میڈیا انتہائی طاقتور ہے مگر وہاں اب بھی مطالعے کی عادت بھی ابھی تک مضبوط ہے۔ 
ہمارے ہاں نسل نو کتابوں جرائد سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ کتابوں اور رسائل کی بذریعہ ڈاک ترسیل انتہائی مہنگی ہے۔ کاغذ اور دیگر طباعتی اخراجات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ایسے میں اگر چند ادبی رسائل باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں تو یہ انکے مالکان کا حوصلہ ہے۔ اللہ کرے یہ حوصلہ برقرار رہے ۔
مظہر سلیم مجوکہ نے ادبی جرائد کے مالکان کے حوصلے کیلئے جو دعا کی ہے اللہ کرے وہ قبول ہو مگر انہوں نے ادبی جرائد کے مستقبل کے حوالے سے جو گمبھیر صورت حال بیان کی ہے اس کیلئے دعا کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ سوچنے اور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے اور انکی طرح بعض دوسرے جرائد کے مدیران نے اس نازک صورتحال کا تذکرہ کر کے جن اہم فریقین کو متوجہ کیا ہے ان میں اول قارئین اور ان سے زیادہ سرکاری با اختیار حلقے ہیں جو ادب کے نام پر بہت سا بجٹ تو مخصوص کرتے ہیں لیکن اس بجٹ کا تھوڑا سا حصہ بھی علم و ادب کے شعبے میں اہم کردار ادا کرنیوالے ادبی جرائد کیلئے اس طرح وقف نہیں ہوتا کہ ان کا عملی کام آسان ہو سکے ۔ مثلاً ادبی جرائد کیلئے انکی ضرورت کے کاغذ اور انکے ڈاک خرچ میں سبسڈی کی عملی صورت ۔ انکے دفتری اخراجات کیلئے فکس ماہانہ معاونت جو سرکاری اشتہارات کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اہم سرکاری لائبریریوں کی طرف سے ان جریدوں کی لازمی خریداری کا قانون۔ یہ سب اس لئے ضروری ہے کہ ادبی جریدے شائع کرنا ایک غیر کاروباری کام بلکہ معاشرے کی ذہنی تربیتی کیلئے لازمی خدمت ہے ۔ 
سرکاری سطح پر بھی ادب کی اشاعت ہوتی ہے لیکن جمہوری معاشرے کی ایک پہچان وہاں تخلیقی عمل اور اسکی نشو ونما کیلئے آزادی کو یقینی بنانا بھی ہوتا ہے اوریہ ضرورت صرف آزاذ ادبی جرائد ہی پوری کر سکتے ہیں ۔
 ایک اہم بات یہ بھی ہے کہا ادبی علمی اور ثقافتی جرائد کی بوجہ عدم دستیابی یا بہت مہنگا ہونے کے بباعث عام قاری تک اس اہم اور مثبت اور ملائم ذریعہ ابلاغ خالی خانے کو سوشل میڈیا کانعرہ نما وہ حصہ پر کررہا ہے جس سے معاشرے میں منفی اور ہیجانی کیفیت نمایاں ہو رہی ہے۔
مغرب سوشل میڈیا میں بہت آگے ہونے کے باوجود اس المیے سے اس لئے زیادہ متاثر نہیں ہوا کہ وہاں کسی نہ کسی طرح مطالعہ کی عادت کو ختم نہیں ہونے دیا گیا اور اس میں لوگوں کی قوت خرید کو بہتررکھنے میں سرکاری پالیسیوں کو بڑا دخل ہے پاکستان میںبدل بدل کے عوامی خدمت کے نعرے لگانے والوں کیلئے بھی یہ مسئلہ ایک چیلنج ہونا چاہیے۔

مزیدخبریں