قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے کہ ''اور ہم نے آپ ؐ کے ذکر کو بلند کیا''۔ جس ہستی کا ذکر رب بلند کرے اس مقدس ہستی کے ذکر کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔خدا کے ہاں اس محترم ہستی کے عروج اور عزت و مقام کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ فرش و عرش پر، قبر میںبلکہ ہر جگہ ہی ہمارے پیارے آقا ؐکے چرچے ہیں۔کوئی عبادت حضورؐ کی یادکے بغیر مکمل نہیں۔ ہر عبادت میں حضورؐ کا ذکر ہے۔ یہ سب قیامت تک ایسے ہی شد و مد کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔ آپؐ کی یاد اور تعریف کی محافل سجتی ہیں۔آپ ؐ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ کائنات کا کوئی جتنا بھی بڑا شخص کیوں نہ ہو،خواہ بادشاہ ِ وقت ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی حضورؐ کے قدموں کی خاک کے برابر نہیں۔ جب حضورؐ کا ذکر آتا ہے سب کے سر جھک جاتے ہیں اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔یہ ہے اصل تعلق۔ یہ ہے محبت۔ یہ ہے ادب یہ ہے ہم پر فرض۔اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والے بہت آئے اور حضور ؐکی شان میںبھی گستاخی کرنے والے بہت آئے۔ کسی نے خدائی کا دعویٰ کیا، کسی نے نبوت کااورکسی نے رسول ہونے کا،لیکن وقت نے ہمیشہ ثابت کیا کہ سب جھوٹے گستاخ مٹ گئے ۔ سب پر لعنت جاری ہے۔ قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ ''بے شک آپ ؐ کا دشمن ہی بے نام ونشان رہے گا''۔ ہم جس سے محبت کرتے ہیں اس پر کوئی حرف نہیں آنے دیتے۔اس کے دفاع کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیںاور جس ہستی سے خدا محبت کرے، اس ہستی کی گستاخی کرنے والا کیسے سزا سے بچ سکتا ہے؟ رب ضرور اس کو عبرت کا نشانہ بناتاہے۔ پرائے تو پرائے اس کے اپنے بھی اس سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ اللہ کا امر ہے کہ یہی ہونا ہے۔
آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ لعنتی گستاخ جو ہمارے کریم آقا ؐ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں وہ خود ہی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ وہ مٹ رہے ہیں جبکہ ہمارے حبیب ؐ کا ذکر بڑھتا جا رہا ہے۔ بلند ہو تا جارہا ہے۔اس کے برعکس گستاخوں پر لعنت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ہمارے نبیؐ کازندہ معجزہ ہے کہ آپؐ کا ذکر کبھی ختم نہ ہو گابلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا ۔بطور مسلمان ہمارا یہ فرض ہے کہ جو بھی حضورؐ کریم کی شان میں گستاخی کرے اس سے قطع تعلق کریں۔اس کو منہ توڑ جواب دیں کیونکہ یہ کائنات کی سب سے بڑی گستاخی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ـ''کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اسکی اپنی جان، اس کے ماں باپ، اولاد، مال، حتی کہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہو جائوں''۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو حضور پاک ؐکی ناموس کے لیے لڑے، ہمت کرے،کوشش کرے،دفاع کرے۔ یہ سب سے بڑا کام اور کارنامہ ہے۔ ہم نے بھی آخر ایک دن منوں مٹی تلے چلے جانا ہے ۔حضورؐ کی ناموس پر بات کر جائیں۔ حضور ؐکی ناموس کے لیے آواز بلند کریں۔ یہ جان تو ویسے بھی ایک دن چلی جانی ہے تو کیوں نہ حضورؐ کی محبت میں اس زندگی کو لگادیں۔ جوزندگی آپ ؐ کی محبت میں گزاری جائے اس سے حسین کوئی زندگی نہیں۔ اور جس زندگی میں حضورؐ کی محبت اور یاد نہ ہو وہ سب سے بے کار اور فضول زندگی ہے۔ہمارے جینے کی وجہ بھی حضورؐ ہیں اور ہماری بخشش کے ضامن بھی آپؐ۔ بدبخت ہے وہ انسان جو حضورؐ کی محبت سے دور ہے۔ لعنت ہے اس شخص پر جو حضور ؐکی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے دنیا و آخرت کی ذلتیں، لعنتیں اور ناکامیاں ہیں۔ اور جنہوں نے حضورؐ کی محبت اور ناموس کے لیے اپنی زندگی وقف کی، وہی خوش نصیب لوگ ہیں۔ وہی لوگ اچھے نام اور اچھی یادوں سے جانے جاتے ہیں۔ آج بھی ان کی قبروں پر چراغاں اور رونق ہے۔ دعائیں ان کے لیئے جاری ہیں۔ قلندر لاہوری حضرت علامہ اقبال ؒ کا بہت خوبصورت شعر ہے:
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ پاک کا قرآن میں حکم ہے جس کا مفہوم ہے کہ ''اپنی آواز کو رسول پاکؐ کی آواز سے آہستہ رکھو، حضورؐ کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرو ،یہ نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو پتہ ہی نہ چلے ''۔ جو رب انسانوں کو اپنے حبیب ؐکے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ آپؐ کی گستاخی کیسے برداشت کر سکتا ہے۔اس پر اللہ کتنی بڑے سزا دے گا، یہ ہم تصور نہیں کر سکتے۔ حضور ؐسے محبت کے بغیرکوئی انسان مسلمان نہیں ہو سکتا۔ حضورؐ کی محبت فرائض سے بھی بڑھ کر بڑا فرض ہے۔ فرائض کی کوتاہی کی تو معافی ہو سکتی ہے لیکن حضورؐ سے محبت کا رشتہ نہ رکھنایا حضورؐ کی شان میں گستاخی کرنا، یہ ہرگز بھی قابل ِمعافی نہیں ۔ اس پر سخت گرفت ہے۔ ہم ساری زندگی فرائض پورے کریں، عبادات کریں لیکن حضورؐ سے محبت نہ کریں تو ہماری عبادات کسی کام کی نہیں ،سب بے کار ہے۔ ہم حضورؐ سے محبت کریں اور فرائض و عبادات میں کمی کوتاہی بھی ہو جائے تب بھی حضورؐ کی محبت سے بیڑا پار ہو جائے گا۔ ہماری یہ زندگی حضورؐ سے زیادہ ضروری نہیں۔ اس لیے حضورؐ سے محبت کریں۔ حضورؐ کی ناموس کے لیے آواز بلند کریں، دنیا کو حضور ؐکی سیرت پاک کے بارے میں آگاہی دیں تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ حضور ؐکی ہستی کتنی عظیم ہستی ہیں۔شاعر نے بہت خوب کہا کہ ''بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر'