پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، جس کی آبادی کا تقریباً ستر فیصد حصہ زراعت پر ہی مشتمل ہے۔ملک کی تمام اکائیوں میں اپنے اپنے علاقوں کی موسم کی مناسبت سے فصلیں ، سبزیاں ، فروٹ اور دیگر اجناس اگائی جاتی ہیں۔ یہاں کی گندم اور چاول برآمد کئے جاتے ہیں ، سینٹرل ایشیاء میں پاکستانی چاول کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے، آج کل آم کا سیزن ہے تو پاکستان کے آم بھی دنیا کے کئی ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں اوربیرون ممالک میں پاکستانی آموں کو پسندکیا جاتا ہے۔ حکومت نے وفاقی بجٹ میں زراعت کے شعبے کے فروغ کے لئے زرعی آلات سمیت دیگر مشینری اور زراعت کے حوالے سے ٹیکس کو فری کردیا گیا ہے جو ایک خوش آئند امر ہے کیونکہ کسان طبقہ پہلے سے ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔وفاقی بجٹ میںوزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022 کا 95 کھرب 2 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیاہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافے کا اعلان سمیت ترقیاتی پرگرام کیلئے 8سو ارب جبکہ دفاع کیلئے ایک ہزار ارب روپے سے زائدمختص کر دیا گیا۔ مالی سال 23-2022 میں وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے، پروگرامز کیلئے 800 ارب، دفاع کیلئے 1523 ارب، پنشن کی مد میں 530 ارب، ایچ ای سی کیلئے 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔کل اخراجات کا تخمینہ 95 کھرب 2 ارب روپے جبکہ ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپے اور صوبوں کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4904 ارب روپے بچیںگے۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے 800 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں دیگر شعبوں کیلئے بھی رقم مختص کر دی گئی ہے۔موبائل فون کے کال چارجز میں مزید اضافہ سمیت وفاق بجٹ میں پٹ فیڈر کینال کی لائننگ منصوبے کو شامل کرنے سے علاقے میں زراعت کو فروغ حاصل ہو گا،دیامر بھاشا اور داسوڈیم کیلئے اربوں روپے مختص کئے گئے ہیں۔وفاقی بجٹ میں نوجوانوں کیلئے 5لاکھ روپے تک بلاسود قرضہ سکیم کا اعلان بھی کیا گیا ۔وفاقی کابینہ نے بجٹ کی منظوری دے دی، بجٹ سے معاشی انقلاب آئے گا۔ 1600سی سی اور زائد کی گاڑیوں، کریڈٹ کار ڈ ، ڈیبٹ کارڈ پر ٹیکس میں اضافہ ،سولر پینل کی درآمدات پر سیلز ٹیکس صفرکردیاگیا ، فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ سینما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس پر استثنیٰ کا اعلان بھی شامل ہے۔
کاروباری طبقے کے لئے انکم ٹیکس کی کم سے کم حدبڑھا کر 6 لاکھ ،تنخواہ دار طبقے کے لئے12 لاکھ روپے کردی گئی ،زرعی مشینری کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ سمیت کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار502 ارب روپے ،قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3ہزار 144ارب روپے ،سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 550ارب روپے ،پنشن کی مد میں 530ارب روپے ،سبسڈیز کے لیے 699ارب روپے ، گرانٹس کی مد میں ایک ہزار242 ارب ،بی آئی ایس پی کیلئے 364ارب ،ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر اسکالرشپ اور تعلیم کے لیے 109ارب روپے بجٹ میں مختص کئے گئے ہیں،چالیس ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ دو ہزار روپے دیئے جائیں گے جبکہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے دس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ملک میں صنعتی معیشت کو فروغ دینے اور مزید مضبوط بنانے کے لئے مختلف مینوفیکچرنگ سیکٹرز سے متعلق تقریباً400 ٹیرف ہیڈنگز پر کسٹمز ڈیوٹی ، اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کوریشنلائز کیا گیا ہے ، بہت سی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کو یا تو ختم یا پھرکم کر دیا گیا ہے۔اسی طرح وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت خزانہ ڈویژن کے چھ جاری اوردونئے منصوبوں کیلئے مجموعی طورپرایک ارب 65 کروڑ 99 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پی ایس ڈی پی کے مطابق چھ جاری منصوبوں کیلئے ایک ارب 44 کروڑ 99 لاکھ روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے جس میں22 کروڑ 77 لاکھ روپے کی غیرملکی امدادشامل ہے۔ جی ایٹ ون میں فیڈرل آڈٹ کمپلیکس کی تعمیر کیلئے 17 کروڑ 16 لاکھ 40 ہزار رروپے، اسلام آباد کے جی ٹین فورسیکٹرمیں مسابقتی کمیشن کے دفتر کی تعمیرکیلئے26کروڑ 3 لاکھ روپے، وزارت خزانہ میں مالیاتی انکلوژن انفراسٹرکچرمنصوبہ کیلئے 22 کروڑ 70 لاکھ روپے، آڈٹ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم منصوبہ کیلئے 37 کروڑ روپے، وفاقی حکومت میں پی ایف ایم پالیسی فریم ورک کے نفاذکیلئے 15کروڑ 68 لاکھ روپے اورپاکستان منٹ فیزٹوکیلئے 50کروڑروپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز دی گئی۔ پی ایس ڈی پی کے مطابق خزانہ ڈویژن کے دومنصوبوں کیلئے مجموعی طورپر21 کروڑ روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویزدی گئی ہے، ان منصوبوں میں پاکستان آڈٹ اینڈاکائونٹس اکیڈمی کیلئے 20 کروڑ روپے اورنیشنل سیونگز کمپلیکس اسلام آباد کے پی سی ٹو کی فزیبلٹی سٹدی کیلئے ایک کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔آزادجموں وکشمیر وگلگت بلتستان کے خصوصی علاقوں کیلئے 52 ارب 64 کروڑ 47 لاکھ روپے اورخیبرپختونخواکے ضم شدہ اضلاع کیلئے پچاس ارب بیس کروڑ روپے اورصوبائی منصوبہ جات کیلئے 33ارب ایک کروڑ روپے مختص کرنے کی تجاویزدی گئی ہے۔
ادھر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے، ان کی اصلاح کے لئے ہم سب کو مل کر اپنی تمام تر توانائی اور توجہ ملکی ترقی پر مرکوز کرنی چاہیے ، ہمیں ہم آہنگی اور بھرپور جذبے کے ساتھ کوشش کرنا ہو گی اور ثابت کرنا ہو گا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ،حکومت میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے ، ملکی معیشت کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں کو قوم کی وسیع تر حمایت حاصل ہے، گزشتہ پونے چارسال کے دوران ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، ہر سال ایک نیا آدمی بجٹ پیش کرتا رہا اور ہر سال حکومت کی معاشی پالیسی بدل جاتی تھی جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔یہ امر حقیقی ہے کہ جب تک ملک خود کفیل ہوکر معیشت کو نہیں چلائے گا، بجٹ اپنے معاشی اہداف کے حساب سے مرتب نہیں کئے جاسکتے جو ملک زرعی اور معدنی وسائل سے مالامال ہو اور اہم بندرگاہیں بھی ہوں اس کے لئے پیداواری صلاحیت بڑھانے اورعالمی منڈی تک اپنی مصنوعات پہنچانا اہم ہدف ہونا چاہیے ، تاہم معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ بندرگاہوں کے توسط سے علاقائی تجارت کو مزید وسعت دے کر معاشی معاملات کو درستگی کی جانب لایا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ وطن عزیز کی ترقی کے لئے یک طرفہ نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے معاشی پالیسیاں مرتب کی جائیں ۔
٭٭٭٭٭