آجکل ہر طرف ہیرے کی انگوٹھی کے چرچے ہیں ان میں دو شخصیات کا ذکر ہے ۔ ایک شخصیت پراپرٹی کا ٹائی کون ہے۔ راقم کو ان سے ملاقات کا شرف مشہور سیاسی شخصیت مرحوم حاجی نواز کھوکھر کے توسط سے ہوئی ۔ ملک صاحب کی خوبی یہ ہے کہ جی دار اور کام کے بندوں کو ساتھ رکھتے ہیں ۔ حاجی نواز کھوکھر بھی یاروں کے یار عزت کرنے والے خوبصورت انسان ،بہترین مہمان نواز تھے ۔اﷲ انہیں کروٹ کروٹ جنت دے آمین۔ ان کے صاحبزادے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر والد کا پرتو ( فوٹو کاپی ) ہیں ۔اسلام آبادان کے خاندان کے نام سے جانا جاتا ہے ۔حاجی نواز کھوکھر میرے محلے دار ایف ایٹ ون کے رہائشی تھے ۔ اکثر شام اکھٹی گزرتی رہی ہیں ۔ جہاں بھی ملاقات گلے سے لگا کر ہوتی ۔ پیار کرنے والی شخصیت تھے ۔ وہ ملک ریاض صاحب کے قریب رہے ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سابق نیب چیئر مین کی رہائش اور نیب چیئرمینی بھی حاجی نواز کھوکھر کی مرہون منت رہی ۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ریٹائرڈ منٹ کے بعد فون آیا کہ میں نے بارہ کہو اسلام آباد میں مکان کا بیعانہ دے رکھا ہے ۔ مجھے یاسین آزاد یاد آئے جھنوں نے ان سے تعارف میں کہا تھا کہ اگر اسلام آباد رہائش کا ارادہ ہو تو مشورے کیلئے طلعت سے رابطہ کرنا ۔ میں نے کہا سر آپ بحریہ ٹائوں میں گھر لیں کہا وہ میری پہنچ میں نہیں بہت مہنگے ہیں ۔ میں نے کہا کل پھر جائیں جو گھر اچھا لگے اس کا نمبر ایک کاغذ پر لکھ کر اپنے نام اور فون نمبر کے ساتھ فلاں آفس چھوڑ دینا اور مجھے بھی یہ شیئر کر دیں ۔ دوسرے روز چیئرمین صاحب نے ایسا ہی کیا ۔ میں نے حاجی نواز کھوکھر صاحب سے رابطہ کیا ۔ شام کو چائے پر گپ شپ ہوئی ۔ انہوں نے فوری فون پر ملک صاحب سے بات کی ۔مجھے کہا صرف ایک دن دو کل مکان ان کے حوالے ہو جائے گا ۔ پھر ایسا ہی ہوا ۔چیئرمین صاحب نے ہمارا بھی شکریہ اداکیا ۔مجھ سے کھوکھر صاحب نے کہا ان سے پوچھو کیا مزید نوکری کرنے کا ارداہ ہے؟ یوں نیب چیئر مینی تک انکا سفر آسان ہوا ۔ جاوید اقبا صاحب چیئرمین تو بن گئے لیکن کیا مجال کہ انہوں نے مجھے خوشی میں شریک کیا ہو ۔ میں نے نیب میں بطور سپیشل پروسیکیوٹر فارسپریم کورٹ سروس میٹر جائن کیا ۔ پانچ ماہ اچھے گزرے ۔ ایک کیس سابق ڈی جی نیب کا کیس آیا کہ انہوں نے برطانیہ میں بیان ریکارڈ کروایا تھا۔ اس پر خرچ آیا تھا لہذا انہیں یہ رقم ادا کی جائے ۔ کیس کا جائزہ لینے کے بعد لکھ دیا کہ یہ رقم انہیں نہیں دی جا سکتی کہ اس میں محکمہ کی اجازت شامل نہیں تھی ۔ جس پر اس ادارے کے افسر میرے پاس غصے میں آئے کہ آپ نے ہاں میں لکھنا تھا ۔یہ ہمارے ڈی جی نیب کے دوست ہیں ۔کہا دوست ہیں تو اپنی جیب سے دے دیں ۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ چیئر مین کی زیرصدارت ایک میٹنگ میں مجھے بھی بھیج دیاگیا ۔ پھر کیا تھا چیئر مین نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔اس روز کوئی بات نہیں ہوئی دوسرے دن مجھے صبح صبح بلا لیا ۔ پوچھا آپ کب سے ہو یہاں ؟بتایا پانچ ماہ ہو چکے ہیں ،کہا مجھے بتایا نہیں ۔ کہا اس لئے نہیں کہ آپ نے مجھے بھی چیئر مین بنے کے بعد یاد نہیں کیا ؟ کہا بتائو میری کیا پاور ہیں؟مجھے لکھ کر دو۔ اس کے بعد سے مشکلات کا سامنا شروع ہو گیا ۔ راجہ پرویز اشرف کے خلاف کیس میں مجھے سپریم کورٹ بنچ میں بھیج دیا گیا جب کہ یہ میرا کام نہیں تھا ۔اس کے بعد میرا ایل ایل ایم کا بل دینا مجھے بنتا تھا اسے روک لیا گیا جو آج تک نہیں دیا گیا جبکہ میرے ساتھی لا افسران کو دیاجاتا رہا ہے۔ان حالات سے دوچار ہو کر ایک ماہ کا نوٹس دے کر مزید کام کرنے کی معذرت کر لی کہ جس چیئر مین کی نا زیبا وڈیوآ چکی ہو اس سے کیا الفت اور خیر کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ۔اب ہیرے کی انگوٹھی کی کہانی کی طرف آتے ہیں کہ اس میں کتنی صداقت ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک صاحب ایسا کر نے کی طاقت رکھتے ہیں ۔فائل چلانے کیلئے پیہہ لگانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ دوسری طرف انگوٹھی لینے والی شخصیت کون اورکس کردار کی مالکہ ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ یہ عمران خان سے نکاح کے وقت بچوں کی نانی تھیں اور بچوں نے بھی نانی کی شادی میں شرکت کی۔شادی کے بعد خاتون اول بنی اور پنجاب کا مشہور کردار گوگی انکی سہیلی ۔ان حالات میں یہ انگوٹھی کی کہانی سچی ہی لگتی ہے ۔ باقی اللہ جانے ۔