نیویارک (نوائے وقت رپورٹ) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان اور کالعدم عسکریت پسند تنظیموں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان بدستور ’مضبوط اور قریبی‘ تعلقات و روابط ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1988 میں طالبان پر عائد پابندیوں کی کمیٹی کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی چودھویں رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گرد گروہوں کو سرگرمیاں اور کارروائیاں کرنے کے لیے بااختیار طالبان حکام کے تحت چلنے والے نظام میں کافی آزادی حاصل ہے۔ افغانستان اور خطے دونوں میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان فورسز نے عمومی طور پر داعش کے خلاف کارروائیاں کی ہیں لیکن انہوں نے امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں قیام امن کے معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کی دفعات پر کام نہیں کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ القاعدہ کارروائیاں کرنے کی اپنی صلاحیت کو از سرنو مضبوط کر رہی ہے۔ جبکہ ٹی ٹی پی طالبان کی جانب سے ملنے والی حمایت کے ساتھ پاکستان میں حملے کر رہی ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے تعصب سے بھرپور قرار دیا۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان یو این سلامتی کونسل کی پابندیوں اور اس طرح کی رپورٹس کو تعصب سے بھرپور، خودمختاری اور عدم مداخلت کے اصولوں سے متصادم سمجھتی ہے اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ترجمان طالبان نے کہا کہ ایسا لگتا ہے یو این سلامتی کونسل کے لکھاریوں کی معلومات تک رسائی نہیں یا انہوں نے “جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کیا یا پھر ان کی معلومات کا ذریعہ امارت اسلامیہ کے مفرور مخالفین ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان اپنی کمنٹمنٹ پر قائم ہے اور یقین دلاتی ہے کہ افغان سرزمین سے خطے، پڑوسی ممالک اور دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستانی سکیورٹی حکام طویل عرصے سے کہتے رہے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف مسلح گروپ افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں۔